خواتین کے سماجی و حرکی کردار کی بحث

‘معمارِ جہاں تو ہے ’ کا خصوصی مطالعہ

محمد انس فلاحی مدنی
رفیق ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی ،علی گڑھ

بیسویں صدی اور بالخصوص اکیسویں صدی میں بہت زور وشورسے خواتین کے حقوق زیر بحث آئے ہیں۔اس کے مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوئے ہیں ، مثبت پہلو یہ رہا کہ حقوق ِنسواں کا اسلامی نقطۂ نظر بڑی حد تک روشن ہوا اور تعارفِ اسلام اور قبولِ اسلام کا سبب بنا۔ مغربی خواتین اسلام کے اس پہلو کے سبب تیزی سے اسلام کی طرف آرہی ہیں۔منفی اثریہ ہواکہ مرد و زن کی مساوات اور برابری کا غیر متوازن اور غیر معقول نظریہ تحریک بن کر ابھرا، جسےفیمنزم(feminism) کا نام دیا جاتا ہے،اس کے انسانی سماج پر نہایت مضر اثرات پڑے ؛جنسی بے راہ روی ، خاندانی نظام کا انتشار اور صنفی امتیازات کی تباہ کاریاں وجود میں آئیں۔اس کے علاوہ خواتین نفسیاتی ، ذہنی اور جسمانی امراض کا شکار ہوئیں ۔
خواتین کے اسلامی کردار،مسلم سماج میں ان کا رول، اسلام میں خواتین کے حقوق و فرائض اور ان پر اعتراضات کے جواب میں ماضی میں قابل قدر اور قابل ذکر کام ہوا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کی ”پردہ“اردو زبان میں اس حوالے سے اہم تصنیف ہے ۔اس میں سید مودودیؒ نےمغربی تصورِآزادی ،اسلام میں مسلم عورتوں کے حقوق، اسلامی نظامِ معاشرت اور حجاب پر ہونے والے اعتراضات کو رفع کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
اسی طرح آزادئ نسواں کے پرفریب مغربی نعرے اور مسلم خواتین پر حملے کے جواب میں بھی متعدد اہل قلم نے قابلِ ذکر خدمات انجام دی ہیں۔ عبدالحلیم ابو شقہ نے ”تحریر المراٴۃ فی عصر الرسالۃ“ چار جلدوں میں مرتب کی، ڈاکٹر محمد علی الہاشمی نے” شخصیۃ المراٴۃ المسلمۃ کما یصوغھا الاسلام فی الکتاب والسنۃ“،محمد رشید رضا نے”حقوق النساء فی الاسلام“ لکھی،ڈاکٹر عبدالکریم زیدان نے”المفصل فی احکام المراٴۃ والبیت المسلم فی الشریعۃ الاسلامیۃ“ کے عنوا ن سے گیاروں جلدوں پر محیط انسائکلوپیڈیا تیار کیا۔اسی طرح اردو زبان میں سابق صدر ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی مولانا سید جلال الدین عمری ؒکی تصانیف؛ ’عورت اسلامی معاشرے میں‘،’عورت اور اسلام‘،’مسلمان عورتوں کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ ‘اور’اسلام کا عائلی نظام ‘نمایاں مقام رکھتی ہیں۔
ایک بحث جو برسوں سے تشنہ تھی یعنی خواتین کی سماجی سرگرمیاں اور ان کا حرکی رول۔اس موضوع پر عربی میں تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر وصفی ابو عاشور نے”مشارکۃ المراٴۃ فی العمل العام“میں روشنی ڈالی ہے ۔اس کتاب کی تیسری فصل میں مصنف نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے ان ابواب کا اجمالی تذکرہ کیا ہے، جن سے خواتین کے سماجی، معاشی،رفاہی اور اجتماعی کاموں میں شرکت کا ثبوت ملتا ہے ۔اسی موضوع پر اردو میں معروف سیرت نگار پروفیسر یٰسین مظہر صدیقیؒ کی کتاب” رسول اکرم اور خواتین۔ایک سماجی مطالعہ “گراں قدر اضافہ ہے۔ خواتین کےسرگرم سماجی اور حرکی کردار کے حوالے سے انجینئر سید سعادت اللہ حسینی کی کتاب” خواتین میں اسلامی تحریک“اور حال ہی میں شائع ہونے والی ڈاکٹر محی الدین غازی کی کتاب ”مسلم خواتین ایکٹیوزم کی راہیں“ اہم اور جامع مباحث پر مشتمل ہیں ۔ اول الذکر کتاب میں وومن امپاورمنٹ کے مغربی تصور پر تنقید ،خواتین کی سماجی فعالیت ، خواتین کے ایشوز اورصنفی عدل کا اسلامی نقطۂ نظر اور ثانی الذکر کتاب میں خواتین کی شخصیت سازی پر علمی وعملی گفتگو کی گئی ہے ۔ انھیں علمی میدان ، سماجی اصلاح ،دینی نصرت اور ان کی سرگرمی کے اولین محاذ؛ گھر ، خاندان ،پڑوس اور بچوں کی اصلاح وتربیت پر ابھارا گیا ہے ۔
اسی بحث میں ایک اہم نام ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا ہے۔ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے خواتین سے متعلق عصری مسائل کی اسلامی تفہیم اور ان کی حرکی کردار کو اپنی تحریروں میں خصوصیت سے موضوعِ بحث بنایا ہے۔ زیر نظر کتاب ”معمارِ جہاں تو ہے (مسلم خواتین علم و عمل کے میدان میں)“ اسی موضوع سے متعلق ہے۔یہ آپ کےان مضامین پر مشتمل ہے،جو خواتین کے مقام و مرتبہ ، اور ان کے علمی اورعملی خدمات کے سلسلے میں تحریر کیے گئےتھے ۔اس کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
باب اول ”اسلام میں خواتین کا مقام و مرتبہ“ اس میں خواتین کا مقام زیر بحث آیا ہے اور خواتین سے متعلق چند اعتراضات رفع کیے گئے ہیں۔ باب دوم ”خواتین میدانِ علم میں “اس میں تین فصلیں ہیں:تحصیلِ علم ،درس و تدریس اور تصنیف و تالیف۔ اس میں خواتین کی ہمہ جہت تربیت اور ارتقا پر زور دیا گیا ہے۔۔ اس پہلو پر خصوصیت سے زور دیا گیا ہے کہ خواتین اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کوپروان چڑھائیں۔ وہ علم کے میدان میں مردوں سے آگے جا سکتی ہیں ۔ اس ضمن میں اسلامی تاریخ کی چندممتاز خواتین کا تذکرہ ہے، جو علمی میدان میں مردوں سے آگے رہی ہیں۔ فصل دوم میں خواتین کی درسگاہیں اور شاگردوں کا تذکرہ ہے۔فصل سوم”تصنیف وتالیف“سےمتعلق ہے۔اس میں خواتین کی علمی خدمات کے متعدد پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔ ترجمۂ قرآن،تفسیرِ قرآن ،منظوم ترجمۂ قرآن کے بارے میں نمایاں خدمات انجام دینے والی خواتین کے ساتھ موجودہ سیرت نگار خواتین کا تذکرہ ملتا ہے ۔اس فصل میں اس سوال کا جواب بھی دیا گیا ہے کہ خواتین تصنیف و تالیف کے میدان میں پیچھے کیوں رہی ہیں ۔ اس سلسلے میں شیخ محمد خیر رمضان یوسف کی آراءذکر ہیں۔ باب سوم ”خواتین میدانِ عمل میں“ کے نام سے ہے۔اس میں خواتین کی سماجی سرگرمیوں پر گفتگو کی گئی ہے۔آپ نے اس پر زور دیا ہے کہ خواتین بھی دینی و تحریکی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتی ہیں۔ اس بحث میں انھوں نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ دینی سرگرمیوں کی انجام دہی عورت کے گھر سے باہر نکلنے پر موقوف نہیں ہے ،وہ گھر میں رہتے ہوئے بھی تبلیغ و اشاعتِ دین کے بہت سے کام کر سکتی ہیں۔ اپنے گھر والوں، رشتہ داروں اور ملاقاتیوں وغیرہ کو دین کی باتیں بتا سکتی ہیں، چھوٹے بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم کا انتظام کر سکتی ہیں۔ خواتین کے گھروں کا ماحول دینی کیسے بنائیں؟ اس سلسلے میں رہنمائی کی گئی ہے۔ فکر مندی ،دعا ،منصوبہ بندی ،دین پر عمل آوری میں باہمی تعاون، تذکیر و تنبیہ، گھر میں نوافل کا اہتمام ،عملی نمونہ اور بچوں کو قابل ِ لحاظ وقت دینے پر ابھارا گیا ہے ۔اس باب میں سماجی اصلاح کے سلسلے میں خواتین کی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ باب چہارم ”خواتین کے مسائل اور شرعی احکام“ سے بحث کرتا ہے۔اس باب میں حجاب ، مسجد میں حاضری ،مشترکہ مجالس، بغیر محرم کے سفر ،ملازمت اور مشترکہ خاندان کے مسائل زیر بحث آئے ہیں۔ ان مسائل کی تفہیم کے سلسلے میں قرآنی آیات ،احادیث نبوی ،آثار صحابہ، فقہی آراء اور تاریخی حوالوں کا خصوصیت سے اہتمام کیا گیا ہے۔ بعض مسائل میں ضرورت کے تحت فقہی آرا کی روشنی میں گنجائش محسوس ہوتی ہےتو مصنف محترم نے اس کا بھی اظہار کیاہے۔ اس سلسلے میں چند مسائل کامطالعہ مفید ہوگا۔ مثال کے طور پرایام ِحیض میں عورت مسجد جا سکتی ہے یا نہیں؟اس سلسلے میں رقم طراز ہیں:
’’ میری رائے میں عورت کا ایامِ حیض میں نماز پڑھنے کے سوا دیگر کاموں کے لیے مثلا ًکسی دینی پروگرام سے استفادہ، کسی مشاورتی اجلاس میں شرکت یا کسی کو کوچنگ کلاس میں حاضری کے مقصد سے مسجد میں جا سکتی ہے۔ البتہ بہتر ہے کہ ان کاموں کا انعقاد مسجد کے ان حصوں میں نہ ہو جہاں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے، بلکہ اس سے ملحق دیگر جگہوں پر ہو ۔‘‘(ص:166)
مرد وں اور عورتوں کے مشترکہ اجتماع کے مسئلے میں مصنف محترم کی رائے قرین صواب معلوم ہوتی ہے رقم طراز ہیں:
’’ میں اسے بہتر سمجھتا ہوں کہ مردوں اور عورتوں کے مشترک اجتماع میں پردہ حائل رکھا جائے، تاکہ خواتین بغیر کسی جھجک اور تکلف کے آزادانہ بیٹھ سکیں۔ اسی طرح میں اسے بھی بہتر سمجھتا ہوں کہ خواتین عام حالات میں اپنے چہرے ڈھکے رکھیں۔میرے نزدیک یہ بھی بہتر ہے کہ خواتین اسٹیج پر نہ بیٹھیں اور ڈائس پر آکر مردوں سے خطاب نہ کریں، لیکن اگر مردوں اور عورتوں کے کسی مشترک اجتماع میں پردے کی اوٹ نہ ہو،کوئی خاتون اپنا چہرہ کھلا رکھے، اور سٹیج پر بیٹھے اور ڈائس سے خطاب کرے تو اسے غلط نہیں سمجھتا۔ اس لیے کہ شریعت نے اس کی اجازت دی ہے ۔‘‘(ص:178)
بغیر محرم کے عورت کے سفرکے سلسلے میں اپنی رائے معتدل انداز میں پیش کرتے ہیں :
”موجودہ دور میں ہوائی سفر کو پرامن خیال کیا جاتا ہے اسی بنا پر ہوائی جہاز کے ذریعے عورت کے تنہا سفر کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن احتیاط پھر بھی جمہور کے مسلک پر عمل کرنے میں ہے۔ اس پر عورت کو حتی الامکان بغیر محرم کے کوئی بھی سفر کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔(ص: 197 )
اسی طرح سفر حج میں محرم کی شرط پر آیات و احادیث اور فقہی آراءکے استقصا کے بعد اپنی رائے ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں:
’’ فقہ حنفی کی رو سے بغیر محرم کے عورت کا حج کے لیے سفر کرنا جائز نہیں، جبکہ دیگر فقہاء اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ وقتِ ضرورت اس گنجائش سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔‘‘
(ص: 202 )
اسی طرح عورت کی معاشی جدوجہد ،دورانِ عدت سفر اور ملازمت کے سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر کی وضاحت کی گئی ہے۔کیا بیوہ عورت دوران ِ عدت دوسری جگہ منتقل ہوسکتی ہے ؟ اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’میری رائے میں عام حالات میں عورت کووہیں عدت گزارنی چاہیے جہاں وہ شوہر کی زندگی میں اور اس کی وفات سے قبل رہتی تھی، البتہ دورانِ عدت وہاں رہنے میں کوئی دشواری اور زحمت ہو ، مثلاً وہاں اس کے ساتھ رہنے والا اور کوئی نہ ہو ، وہاں اس کا تنہا رہنا پُر خطر ہو ، یا کوئی اور عذر ہو تو اس کے لیے کسی دوسری پُر امن ، محفوظ اور سہولت والی جگہ منتقل ہو کر وہاں عدت گزارنا درست ہے۔‘‘(ص:204)
باب کی آخری فصل” مشترکہ خاندان “میں نظام ِخاندان کا اسلامی نقطہ ٔنظر ،مشترکہ اور جداگانہ خاندان کے مسائل کا حل بتایا ہے۔ کتاب کا آخری باب”خواتین کے بارے میں چند کتابوں کا تعارف“میں31 اہم کتابوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔مشمولات کتاب کے تعارف کے ساتھ افادی پہلو بھی پر گفتگو کی گئی ہے۔
288 صفحات پر مشتمل یہ کتاب خواتین کے حقوق ،مقام ،دائرہ کار، علمی ا ور سماجی سرگرمیاں، معاشی جدوجہد اور مطلوبہ اسلامی کردار کے سلسلے میں سیر حاصل بحث پرمشتمل ہے۔ اس میں خواتین کے مسائل کا اسلامی حل ہے ۔ کتاب کی زبان و بیان شستہ ،سلیس اور رواں ہے۔موضوع سے متعلق آیات، احادیث اورفقہی آراء کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی تحریر کا خاصہ یہ ہے کہ زبان آسان ، عام فہم اور شگفتہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر طبقے میں پڑھی اور شیئر کی جاتی ہے ۔اس کتاب کا مطالعہ خواتین کے تعلق سے اسلامی نقطۂ نظر کی درست تفہیم اور ان کی علمی، سماجی اور عملی کردار کو اجاگر کرنے میں ممد و معاون ہوگا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023