خواتین سے متعلق پالیسیاں اور نعرے فریب کے سوا کچھ نہیں

بے شمار قانون سازیوں کے باجود عورتوں کے بیشتر مسائل ہنوز حل طلب

نذرانہ درویش (پنجم، گوا)

اس واقعے کو وقوع پذیر ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب ریاست منی پور میں مقامی لوگوں نے بے شرمی کے ساتھ کچھ خواتین کو برہنہ کرکے سارے شہر میں گشت کروایا تھا۔ اس شرمناک سانحے نے ملک میں خواتین کے نسوانی وقار کی دھجیاں اڑادیں اور بعد میں ان بے بس قابل احترام خواتین کی برسر عام اجتماعی عصمت ریزی کرکے شرم و حیا کی ساری حدیں پار کر ڈالیں۔ اس واقعہ نے ملک کے باوقار سمجھ دار انسانوں کا سر ندامت سے نیچا کر دیا۔ منی پور کا یہ شرمناک سانحہ مستقبل میں ہمیں اس قسم کے وحشیانہ سلوک کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمارے سماج کے کئی طبقات، خصوصاً خواتین، آج بھی ناانصافی، انتہا پسندی، شدید دشمنی، آپسی مخاصمت اور عداوت کے جال میں بری طرح پھنسی ہوئی ہیں۔ اقتدار کے بھوکے فاشسٹ گروہوں نے آزاد بھارت کے عوام کو اپنی غلامی کی زنجیروں میں بری طرح جکڑ رکھا ہے۔ ظالموں اور بدمعاشوں کا یہ وہ ٹولہ ہے جو ملک کے معصوم و نہتے عوام پر ہر صورت میں سیاسی غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اپنے ناپاک سیاسی عزائم، ادھورے نظریات اور اپنی مرضی اور خواہشات کا غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ جس کے ذہن میں انسانوں کی فلاح بہبود اور بھلائی کے بارے میں کبھی کوئی خیال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ عموماً وہ ہر صورت میں ہر وقت بس اپنے آمرانہ ایجنڈے کی تکمیل ہی کے بارے میں منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ ویسے تو بدامنی پھیلانے کے لیے سارے معاشرے پر حملہ ہوتا ہے لیکن ان تمام حالات کے بعد ظاہر ہونے والے تمام نتائج کا خمیازہ خواتین ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ باوجود اس کے کہ آزادی کے بعد بھارت میں خواتین کے عمومی حالات کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے بے شمار قوانین بنائے گئے لیکن ان کے بیشتر مسائل آج بھی حل طلب ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعتا ان قوانین سے خواتین کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے؟ کیا ان قوانین سے ہماری خواتین کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو رہی ہے؟ کیا ہماری خواتین ان قوانین کے زیر سایہ جسمانی طور پر محفوظ اور ذہنی طور پر مطمئن ہیں؟ اگر کوئی فرد کہتا ہے کہ ہاں ان قوانین سے ہماری خواتین مستفید ہو رہی ہیں تو NCRP کی تازہ رپورٹ پڑھ لے جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں ہر سال خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں مسلسل اور بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ NCRP کے پیش کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک بھارت میں 13 لاکھ خواتین لاپتہ ہیں۔ 18 سال سے زیادہ عمر کی 10.61 لاکھ اور 18 سال سے کم عمر کی 2.50 لاکھ لڑکیاں آج تک لاپتہ ہیں۔
موجودہ سیاحت کے زیادہ تر شعبہ جات، آج ریاست گوا میں موجود ہیں۔ ان میں برہنہ رقص و موسیقی، شراب نوشی، جوا، جسم فروشی، فحش فلمیں، فحش لٹریچر کا بلا خوف و خطر، جگہ جگہ باضابطہ انتظام ہے۔ بالفاظ دیگر سیاحت کی کامیابی کے پس پردہ آسانی سے زیادہ سے زیادہ دولت کمانے والی تجارت کا مکمل دارومدار عیاشی کے انہیں کاموں پر ٹکا ہوا ہے۔ عیاشی کے لیے بیرون ملک سے عورتیں اسمگل کی جاتی ہیں۔ انسٹیٹیوٹ آف سوشیل سائنسز کے مطابق 2002-2003 کے درمیان، گوا میں نہایت آسانی اور کثرت سے شراب کی دستیابی اور جوئے جیسی لعنت کو نیشنل ہیومن رائیٹس کمیشن کی جانب سے قانوناً جائز قرار دئے جانے سے ایسی خطرناک مخرب اخلاق صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ مارچ 2022ء میں ریاستی حکومت کے
قائم کردہ ادارے Victim Assistance Unit کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گوا میں بلوغت سے پہلے نوجوان لڑکیوں کے حاملہ ہونے کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں حیرت انگیز طور پر سب سے کم عمر یعنی ایک دس سالہ لڑکی بھی حاملہ پائی گئی ہے۔ اس قسم کے شرمناک واقعات، خواتین، طالبات، ملازم پیشہ خواتین اور خواتین کے لیے قائم کردہ وومنس ہاسٹلس اور چند مذہبی آشرم، جنسی بے راہ روی اور عصمت فروشی کے اڈے بن چکے ہیں، جہاں خواتین کو پہلے منشیات کا عادی بنایا جاتا ہے پھر ان کی عصمت ریزی کی جاتی ہے اور آخر میں انہیں فحاشی کے پیشے کے دلدل میں ہمیشہ کے لیے دھکیل دیا جاتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ دنوں بھارت میں بین الاقوامی گولڈ میڈل یافتہ درجنوں خواتین پہلوانوں کی جانب سے بھارتی کھیلوں کے انتظامیہ کے مجرمانہ حد تک روا، فحش رویے کے خلاف دہلی اور ملک بھر میں جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے منظم کیے گئے تھے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین پہلوانوں کے ساتھ اسپورٹس اتھاریٹیز کے ذمہ داران کس طرح جنسی حملوں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کھیل کے شعبے میں بھی تعلیم یافتہ لڑکیاں، جنسی چھیڑ چھاڑ کا شکار ہو رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ماضی میں بھی ان کے لباس پر بھی تنازعہ کھڑا کیا گیا تھا۔ عموماً سرکاری عہدہ داروں کو بچانے کی خاطر اور سرکاری محکمے کی بدنامی پر پردہ ڈالنے کے لیے خاتون اتھلیٹس کے ساتھ کی جانے والی ایسی غیر شریفانہ حرکتوں کو دبانے کی حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بین الاقوامی رگبی Rugby گیمس اور کرکٹ میچوں کے مقابلوں کے درمیان اسٹیڈیم میں کھلے کام چیر گرلس Cheer Girls کے طور پر نوجوان لڑکیوں کو نیم برہنہ حالت میں ڈانس کروانا، ایک فیشن بن چکا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کھیل کے میدانوں کے اندر اور باہر، ہر جگہ نوجوان لڑکیوں کے نیم عریاں جسموں کی نمائش کرنے کی آزادی کا مسلسل استحصال ہو رہا ہے۔
بھارت میں خاتون صحافیوں کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں ہیں۔ ان کو سمجھنے کے لیے تنو شری پانڈے کے قلم سے لکھے ہوئے واقعات کا ایک بار مطالعہ کیجیے تو پتہ چلے گا کہ انہیں ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کے ساتھ پیش آنے والے اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کے واقعہ کی محض صحیح رپورٹنگ کرنے اور خود پولیس کی جانب سے اس جرم کے تمام ثبوتوں کو مٹانے کے لیے، مقتولہ کی لاش کو نذر آتش کرنے کی ریکارڈنگ اور رپورٹنگ کے ثبوت، پیش کرنے کے بدلے میں انہیں جیل میں قید کر دیا گیا تھا یعنی ایک سچے واقعے کی رپورٹنگ کرنے کی انہیں بہت بھاری قیمت چکانی پڑی تھی۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے پولیس کی دوغلی پالیسی کو منظر عام پر لایا تھا۔ فروری 2021ء میں دلت مزدوروں کے حقوق کی پاسداری کرنے والی ایک کارکن اور کسانوں کے مشہور زمانہ احتجاج کی آرگنائزر، نودیپ کور کو دلی میں کسانوں کے احتجاج کی رپورٹنگ کرنے کے بے بنیاد الزام کے تحت گرفتار کیا گیا اور پھر قید کر دیا گیا تھا، بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کرنا پڑا لیکن آج بھی ان کے خلاف وہی مقدمہ زیر دوراں ہے۔ یاد رہے کہ جیل میں حراست کے دوران، ان پر بے دردانہ حملہ بھی ہوا اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب بھی کیا گیا۔
2021ء میں بھارتی خواتین کی عام صحت کی ایک سرکاری رپورٹ سے یہ بات واضح ہوئی کہ 90 فیصد ملازمت پیشہ خواتین کو خاندانی، شخصی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھانے کے دوران عام تنازعات کے ساتھ ساتھ متفرق سماجی مسائل اور ان کی اپنی صحت کے مسائل سے نپٹنا پڑتا ہے۔
ملک کی آبادی پر روک لگانے کی سرکاری پالیسی پر عمل کرنے کے لیے مانع حمل گولیوں اور دواوں کا استعمال عورت ہی کو کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
پہلے مانع حمل اور پھر اسقاط حمل کی مختلف تکلیف دہ صورت حال کا سامنا عورت ہی کو کرنا پڑتا ہے جس سے خواتین کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، نتیجتاً عورت باقی زندگی اپنا علاج کروانے میں گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ،
دراصل حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ دنیوی وسائل میں کمی کی اصل وجہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نقطہ نظر میں پائی جانے والی غلط فہمی واضح ہو سکتی ہے مثلاً چینی قوم میں آبادی کی فطری شرح میں اضافے کی پیش رفت کا احساس ہر ایک کو ہوتا ہے، نتیجتاً پیدا ہونے والے بچوں کو پالنے اور ان کی نگہداشت کرنے کا بوجھ آخر کار عورت ہی کے کندھوں پر آ جاتا ہے جس کا کوئی متبادل نہیں۔
بھارت میں خواتین کے لیے شادی کی قانونی عمر کو 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کرنے کے مرکزی حکومت کے اعلان سے خواتین کی زندگی میں ان کی ذاتی یا شخصی پسند کا بنیادی حق خود بخود ختم ہو گیا۔ بالفاظ دیگر حکومت نے خواتین پر ان کی شادی کے لیے اپنی پسند کے لڑکے کے انتخاب پر روک لگا دی ہے حالانکہ آج کل نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کم عمری ہی میں شادی کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ستمبر 2018ء میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ اب سے کسی شادی شدہ خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی یا زنا کرنا کوئی قابل سزا جرم نہیں ہے۔ اس فیصلے نے شادی شدہ خواتین کے خلاف جنسی جرائم کے راستے پوری طرح سے کھول دیے ہیں بالفاظ دیگر عدالت نے جنسی جرائم کے عادی مردوں کو اس جرم کے ارتکاب لیے کلین چٹ دے دی ہے جس کے خلاف اگر کوئی مقدمہ دائر بھی کیا جائے تو وہ کمزور ہی ثابت ہوگا۔ ایک اور فیصلے میں سپریم کورٹ نے جسم فروشی کو بھی غیر مجرمانہ فعل قرار دیا ہے جس سے معصوم لڑکیوں اور مجبور عورتوں کو جسم فروشی کے پیشے میں زبر دستی دھکیلنے والے جرائم پیشہ افراد کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ بالفاظ دیگر اس قانون نے ’’بیٹی بچاو‘ بیٹی پڑھاو‘‘ جیسے مشہور زمانہ نعرے کی پول کھول کر رکھ دی ہے اور اس سے وابستہ فلاحی اسکیموں کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔
ریاست مہاراشٹرا سے وابستہ رکن پارلیمنٹ ہینا گووٹ Heena Govit کی سربراہی میں خواتین کو با اختیار بنانے سے متعلق بنائی گئی ایک کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کمیٹی کی بدترین کارکردگی اور نامکمل پروگرام کا پردہ فاش کیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمیٹی کو الاٹ شدہ فنڈس کا 80 فیصد حصہ خواتین کو بااختیار بنانے کے مقاصد پر خرچ کرنے کے بجائے صرف اشتہارات پر برباد کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو با اختیار بنانے کے بہانے نئے نئے قوانین کو کوئی تاریخی عنوان دے کر خواتین سے پر زور اپیلیں کی جاتی ہیں اور انہیں جذباتی طور پر خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ درحقیقت خواتین کی بہبود، ترقی اور خود اختیاری کے لیے بنائی گئی پالیسیاں خواتین کے بنیادی مسائل ہی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ خواتین کے مسائل کے حل سے عاری ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اپنے مقاصد سے ہٹ کر کام کرتی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خواتین کے مسائل اور ان مسائل کے پیدا ہونے کی وجوہات اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت کمیٹی کے کسی رکن میں نہیں پائی جاتی۔ وہ نتائج سے بھی بے خبر ہوتے ہیں چنانچہ کسی مسئلے کا دیرپا حل تلاش کرنے میں یہ بھی ہمیشہ ناکام ہی رہے ہیں۔ واضح ہو کہ ایسی تمام مجہول اور غیر واضح سرکاری پالیسیاں، اپنے اندر حکومت کا ضرور کوئی پوشیدہ ایجنڈہ رکھتی ہیں۔ دیگر فلاحی ادارے خواتین کی فلاح و بہبود پر مبنی قوانین، دستوری حقوق، مالیہ، تحفظات اور ان قوانین کو با اختیار بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور مالیہ، مختلف سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتی ہیں جس سے خواتین کے با اختیار بننے کے بجائے وہ مزید مجبور اور بے بس ہوجاتی ہے جو معاشرے کے لیے نہایت مہلک اور خطرناک عمل ہے۔
آخر میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے گرانٹس، فنڈس، خوش نما پالیسیاں اور مجہول قوانین ناکافی ہیں۔ یہ نام نہاد پالیسیاں اس مسئلے کا حل تلاش کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتی ہیں۔ یہ ایک صحت مند سماج کے لیے ناسور ہیں جس کی مکمل جراحی ضروری ہے۔ انسانی و اخلاقی اصولوں سے عاری موجودہ معاشرہ اپنے افراد کی فلاح و بہبود اور فروغ کے لیے موثر طریقے نہیں اپنا سکتا۔ اخلاقیات کی بنیاد انسانی ہمدردی،دیانت داری، وفاداری، سچے اور پکے ارادوں، مثبت نقطہ نظر، بے لوث خدمات اور مسلسل کوششوں پر قائم ہوسکتی ہے۔ یہ خصوصیات خدا پرست اور قدرت پر یقین رکھنے والے، اپنے پیدا کرنے والے خالق کی اطاعت، عزت و احترام کرنے والے، انسانوں کی دن رات بے لوث خدمت کرنے کے جذبات سے سرشار، قابل احترام انسانوں میں فطری طور پر پروان چڑھتی ہیں۔ جب آدمی یہ سوچے کہ ایک دن اسے اپنے ایک ایک عمل کا جواب اپنے ایک اور صرف ایک خالق و مالک کو جواب دینا ہے جس کی عدالت میں ہر گنہگار کو اپنے گناہوں اور جرائم کی سزا یقینا ملنے والی ہے، جس سے کوئی چھٹکارا ممکن نہیں، اور آنے والے انسانوں کی تربیت ان اخلاقی اصولوں پر کی جائے گی تو آنے والے دنوں میں خواتین کے علاوہ سارے انسانوں کے لیے ایک بہترین اور نئے با اخلاق بھارت کو دیکھنے کی امید کی جاسکتی ہے۔
(ترجمہ: سلیم الہندی، حیدرآباد)

 

***

 منی پور کا شرمناک سانحہ ہمیں مستقبل میں اس قسم کے وحشیانہ سلوک کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمارے سماج کے کئی طبقات، خصوصاً خواتین، آج بھی ناانصافی، انتہا پسندی، شدید دشمنی اور عداوت کے جال میں بری طرح پھنسی ہوئی ہیں


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023