
خاموش ایمرجنسی اور انسانی حقوق کی پامالی
آسام میں ظلم و جبر کی پالیسی اور میڈیا پر کنٹرول ۔ دی وائر کے صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر
نوراللہ جاوید، کولکاتا
آسام میں صحافیوں اور سماجی کارکنان کے خلاف ایف آئی آرز اور بدسلوکی کے واقعات، ساتھ ہی بنگالیوں، خاص طور پر مسلمانوں پر ظلم و جبر کی کارروائیاں، قانون کی حکمرانی پر گہرے سوالات کھڑے کر رہی ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے یہ دعویٰ کیا جانے لگا ہے کہ آسام مکمل طور پر ایک ’’پولیس اسٹیٹ‘‘ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کوئی ریاست کب ’’پولیس اسٹیٹ‘‘ میں بدلتی ہے؟ اور جب ایسا ہوتا ہے تو صوبے اور عوام کو کس قسم کی قیمت چکانی پڑتی ہے؟ سب سے اہم یہ کہ آیا آسام واقعی ’’پولیس اسٹیٹ‘‘ بن چکا ہے؟ گزشتہ نو برسوں سے بی جے پی کی حکومت اور وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کی حکمرانی میں اتنی سفاکی اور بربریت کیوں دیکھنے میں آ رہی ہے؟
علمِ سیاسیات کے ماہرین کی رائے ہے کہ جب کسی حکمراں جماعت کو شکست کا خوف اور اقتدار سے بے دخلی کے نتیجے میں کارروائی کا ڈر ستانے لگتا ہے تو پھروہ قانونی کارروائیوں، گرفتاریوں اور غیر قانونی حراست، سنسرشپ اور خاموشی، خوف کا ماحول پیدا کرنے، اور عدالتی نظام کا غلط استعمال کرنے لگتا ہے۔ پولیس اسٹیٹ کی مختصر تعریف اس طرح کی جاتی ہے: ’’حکومت طاقت اور خفیہ پولیس کے ذریعے اپنے شہریوں کی زندگی کے ہر پہلو کو سختی سے کنٹرول کرتی ہے۔‘‘ جب کوئی ریاست پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوتی ہے تو اختلافِ رائے کے لیے جگہ مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے۔ آزادیِ اظہارِ رائے اور اختلافات کو دبانے کے لیے غلط قانون سازی کے ذریعہ ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے۔ حکومتی نظام میں پولیس، خفیہ ایجنسیوں یا دیگر سیکورٹی اداروں کو غیر معمولی اختیارات دے دیے جاتے ہیں۔ شہریوں کی بنیادی آزادیوں جیسے کہ آزادیِ رائے، آزادیِ صحافت اور پُرامن اجتماع کا حق محدود کر دیے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ صورتِ حال جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف اور اسے خطرے میں مبتلا کرنے والی ہے۔ پولیس اسٹیٹ کی مذکورہ بالا تعریف کے تناظر میں سمجھنا ہوگا کہ کیا واقعی ’’آسام پولیس اسٹیٹ‘‘ میں تبدیل ہو چکا ہے؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں پولیس اسٹیٹ کے جبر اور ظلم کا مقابلہ کس طرح کرنا چاہیے؟
آسام میں سماجی ہم آہنگی اور لسانی تنازعات کی ایک پیچیدہ تاریخ رہی ہے۔ ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے آسام کی زبان اور کلچر کو لاحق مبینہ خطرات کا ایشو آسام کی سیاست کا محور رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زرخیزی، بہترین محلِ وقوع اور جغرافیائی اہمیت کے باوجود اپنے بنیادی مسائل پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے یہ معاشی اعتبار سے پسماندہ ریاستوں میں سے ایک ہے۔ سیلاب کی تباہ کاری آسام کا بنیادی مسئلہ ہے، مگر آزادی کے بعد سے اب تک کسی بھی حکومت نے اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اور اس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں اور ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ آسام کی اشرافیہ بھی یہی چاہتی ہے کہ ریاست کی سیاست کا محور مقامی اور غیر مقامی جیسے متنازع ایشوز پر رہے تاکہ وہ آسانی سے آسام کے وسائل، دولت اور سہولیات سے فیض یاب ہوتی رہے۔
نوجوان صحافی شیام میرا سنگھ نے سات مہینے قبل آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما سے متعلق یوٹیوب چینل پر ’’Untold Truth of Himanta Biswa Sarma‘‘ کے عنوان سے ایک اسٹوری کی تھی۔ اس اسٹوری میں سرما سے متعلق کئی اہم انکشافات اور ان کے ماضی سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ اپنے ناقدین اور مخالفین کے ساتھ سختی سے نمٹنے والے ہمنتا بسوا سرما نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی ہے، جب کہ شیام میرا سنگھ کھلا چیلنج دے چکے ہیں کہ انہوں نے جو دعوے کیے ہیں ان میں کوئی غلطی نہیں ہے۔
سرما کی طرزِ حکمرانی، ناقدین کو سختی سے کچلنے، اظہارِ رائے پر حملے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو اس ویڈیو سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ آسام میں اس وقت کس طرح میڈیا پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ ظلم و جبر کا جو تسلسل آسام میں دہرایا جا رہا تھا، اور جس طریقے سے سماجی ہم آہنگی کے تانے بانے کو کمزور کرکے فرقہ واریت کو بھڑکا کر پولرائزیشن کی کوششیں کی جا رہی تھیں، اس کے خلاف جو سناٹا چھایا ہوا تھا اور جو خوف و ہراس کا ماحول تھا، اسے چیرنے کے لیے چند آوازیں بلند ہوئی ہیں۔ قومی میڈیا کی بے رخی کے باوجود ہمنتا بسوا سرما کی زیادتی اور جبر کے خلاف اب دہلی میں حرفِ صدا بلند ہونے کو ہے۔
82 سالہ بزرگ خاتون سیدہ حمید، سابق بیوروکریٹ ہرش مندر، جواہر سرکار اور سید فرمان احمد جیسے نوجوان نے آسام میں غیر انسانی سلوک اور مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں غیر بنانے کی کوشش کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پر ہمنتا بسوا سرما کا ردِعمل لازمی ہے، مگر اس ردِعمل میں بھی صاف طور پر خوف اور مایوسی جھلکتی ہے۔ حسبِ عادت انہوں نے اس سوال کو بنگالی اور غیر بنگالی کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح کا رویہ انہوں نے ملک کی قدیم اور تحریکِ آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والی جمعیۃ علما ہند کے خلاف بھی اپنایا ہے۔
سرما کی سیاسی گفتگو اور بیانیہ غیر قانونی شہریوں کی شناخت اور ان کے اخراج پر مرتکز ہے۔ سرما یہ تاثر دیتے ہیں کہ آسام کے وسائل اور زمین پر یہ غیر ملکی، بالخصوص بنگالی مسلمان قابض ہو چکے ہیں اور یہ ایک بڑا خطرہ ہیں۔ اپنے اس بیانیے کو ثابت کرنے کے لیے وہ اب تک ہزاروں افراد کو اجاڑ چکے ہیں، جب کہ ان میں اکثریت وہ لوگ ہیں جو قدرتی آفات کے شکار ہو کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اگر قدرتی آفات سے کوئی بے گھر ہوتا ہے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ بے گھر لوگوں کو سائبان فراہم کرے، مگر آسام میں معاملہ بالکل برعکس ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ غیر ملکیوں کا اخراج ضروری ہے اور اس ملک کے وسائل یہاں کے شہریوں کا حق ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا جن لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا گیا ہے انہیں اپنی شہریت کو ثابت کرنے کے تمام قانونی مواقع اور غیر جانب دار عدالت فراہم کی گئی ہے؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس کی روشنی میں آسام میں جاری نسلی بھید بھاؤ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ آسام میں لاکھوں شہریوں کو دستاویز میں معمولی خامیوں کی وجہ سے این آر سی سے باہر کرکے مشکوک شہری (ڈی ووٹر) بنا دیا گیا اور اس کے بعد ثبوت کا سارا بوجھ شہری پر ڈال دیا گیا۔ 19 لاکھ افراد این آر سی سے باہر تھے، اس میں محض 6 لاکھ بنگالی مسلمان ہیں، باقی سب بنگالی ہندو یا پھر دیگر ریاستوں سے آئے شہری ہیں۔ مگر کارروائی اور حکومتی جبر کے شکار صرف اور صرف بنگالی مسلمان ہیں۔
شہریت کا فیصلہ کرنے والی فارن ٹربیونل عدالتیں کس طرح سے کام کرتی ہیں؟ اس سوال کا جواب نیشنل لا اسکول آف انڈیا یونیورسٹی اور کوئین میری یونیورسٹی آف لندن کی ایک مشترکہ رپورٹ Unmaking Citizens: The Architecture of Rights Violations and Exclusion in India’s Citizenship Trials کے مطالعے سے ملتا ہے۔ 184 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کو محسن عالم بھٹ، آرشی گپتا اور شردل گوپوجکار نے ترتیب دیا ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کس طرح بھارت کے نوآبادیاتی ورثے سے متاثر ایک اخراجی سیاست کو استعمال کرتے ہوئے لاکھوں رہائشیوں کو، جو آسام میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے، شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ رپورٹ ٹربیونل کے بنیادی قانونی طریقہ کار اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی بنیادی بے توقیری کو بے نقاب کرتی ہے۔ ساتھ ہی گوہاٹی ہائی کورٹ کی طرف سے ٹربیونل کو ملنے والی غیر مشروط حمایت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ جن لوگوں کو قانون کی حفاظت کے لیے مقرر کیا گیا ہے، انہوں نے قانونی کارروائیوں کو منظم طور پر شناخت، تعلق اور تحفظ کے طریقہ کار کو کمزور کرنے اور شہریوں کو ان کے اپنے ہی صوبے میں حقوق سے محروم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس رپورٹ میں فارنرز ٹریبونلز کی قانونی حیثیت، اس کے ججوں کی نااہلی اور حکومتی دباؤ پر تفصیل سے مطالعہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ 2017 کے آسام حکومت کے ایک حکم نامے کا حوالہ دیتی ہے جس میں ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے، جس میں ’’غیر ملکیوں کے قرار دیے گئے فیصد‘‘ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ یہ نظام انصاف کے اصول کو ختم کر دیتا ہے: جب کسی جج کی ملازمت اور آمدنی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ کتنے لوگوں کو ’غیر ملکی‘ قرار دیتا ہے، تو اس کا فیصلہ منصفانہ نہیں ہو سکتا۔ اس طرح ٹریبونلز انصاف کے منصفانہ اداروں کے بجائے ریاست کی پالیسی کو نافذ کرنے والے ایجنسیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹریبونل کے اراکین اکثر اپنے نیم عدالتی کردار کے لیے ناکافی طور پر تربیت یافتہ ہیں۔ وہ قانونی پس منظر رکھتے ہیں، لیکن ان میں شہریت کے مقدمات کی پیچیدہ نوعیت، دستاویزی ثبوت اور طریقہ کار کے مسائل کو سنبھالنے کے لیے ضروری مخصوص تربیت کی کمی ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کے فیصلوں میں معیار اور قانونی دلیل میں یکسانیت کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ جنوری 2025 تک 165,992 افراد کو غیر ملکی قرار دیا جا چکا ہے اور 85,000 سے زیادہ مقدمات ابھی بھی زیرِ التوا ہیں۔ یہ اعداد و شمار ایک ایسے نظام کے نتائج کو ظاہر کرتے ہیں جو چند افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ بڑے پیمانے پر آبادی کو متاثر کر رہا ہے۔
رپورٹ دعویٰ کرتی ہے کہ فارنرز ٹریبونلز غیر جانبداری سے فیصلے کرنے کے بجائے ریاست کے ’’غیر قانونی غیر ملکیوں‘‘ کی شناخت اور اخراج کے ایجنڈے کو نافذ کرنے والے ایجنٹ بن کر کام کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ معمولی دستاویز میں کمی یا اسپیلنگ میں فرق پر فرد کے خلاف منفی قیاس قائم کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر ایک سماعت سے غیر حاضری ہو، اور غیر حاضری کی وجہ قابلِ فہم بھی ہو، تب بھی اس بنیاد پر شہریت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
کم و بیش یہی صورتِ حال سرکاری زمین پر قبضے کے معاملے میں بھی ہے۔
فاشسٹ حکمران سب سے پہلے معلومات پر قدغن لگاتے ہیں۔ معلومات، آگاہی سے سب سے زیادہ وہ ڈرتے ہیں، چنانچہ ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ غیر جانبدارانہ صحافت یا پھر آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ گلیوں کے آوارہ کتوں کے لیے دہلی اور ملک کے دیگر شہروں میں کنڈیل مارچ کرنے والی نگاہوں سے اجاڑے گئے مکانات اور روتی و چلاتی ہوئی خواتین کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ سالوں کی محنت سے اپنے آشیانے کی تعمیر کرنے والوں کو چشم زدن میں بے گھر کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب اوجھل کیوں ہے؟ کیا وہ انسانوں کو کتوں سے بدتر سمجھتے ہیں یا پھر آگاہی سے محروم ہیں؟
اسی مہینے، شیلانگ ٹائمز کی ایڈیٹر پیٹریشیا مکھم، جو گزشتہ دس برسوں سے شمال مشرقی ریاستوں میں سب سے بڑے انگریزی اخبار ’’دی آسام ٹربیون‘‘ میں مہینے میں دو کالم لکھتی ہیں، مگر 6 اگست 2025 کو دی آسام ٹربیون نے یہ کہتے ہوئے ان کا کالم شائع کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ آسام کے بجائے میگھالیہ پر اپنی توجہ مبذول کریں۔
اس صورت حال سے مایوس، میگھالیہ سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی پیٹریشیا مکھم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر لکھا:
’’یہ بتایا جانا کہ کیا لکھنا ہے اور کیسے لکھنا ہے، ایک آمرانہ نظام کی نشانیاں ہیں۔ بندھنوں میں جکڑے ہوئے اور اپنے خیالات کو قید کرنے سے بہتر ہے کہ آزاد روح بن کر زندگی گزاری جائے۔‘‘
پیٹریشیا نے اپنے پوسٹ میں آگے لکھا ہے: ’’2014 کے آس پاس اخبار کے لیے لکھنا شروع کیا تھا، اس وقت انہیں اس بات کی کوئی ہدایت نہیں دی گئی تھی کہ انہیں کیا لکھنا چاہیے یا کیا نہیں لکھنا چاہیے۔ میں خطے کا سفر کرتی ہوں اور اس کے سماجی-سیاسی اور جیو اسٹریٹجک موڑوں کا گہرا مشاہدہ کرتی ہوں، تو کیا میں اس پر نہیں لکھ سکتی ہوں؟ مجھے اب احساس ہوا ہے کہ موجودہ نظام کے خلاف کوئی بھی چیز مرکزی دھارے کی میڈیا میں جگہ کیوں نہیں پاتی؟ چند بہادر لوگ جو اپنی زمین پر ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں اور حکمران نظام کے چمچوں بننے سے انکار کر رہے ہیں، وہ دنیا کے سامنے موجودہ نظام سے آگاہ کر رہے ہیں۔‘‘
’’دی آسام ٹربیون‘‘ جس مضمون کو مسترد کر دیا تھا، وہ مضمون دو دن بعد انگریزی ویب سائٹ ’’اسکرول ڈاٹ ان‘‘ پر کام شائع ہوا۔ مضمون کا عنوان: In Assam: vicious communal rhetoric is putting democracy at risk (آسام میں شیطانی فرقہ وارانہ بیان بازی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے)۔
اس مضمون میں پیٹریشیا لکھتی ہیں کہ:
’’بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو غیر انسانی بنانے کی بے لگام کوشش، جن میں سے ہزاروں اب بے گھر اور بے وطن ہیں، نے آسام میں سیاسی گفتگو سے ‘انسانی حقوق’ کو خارج کر دیا ہے۔‘‘
سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کے 1981 کے افتتاحی خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے:
’’موجودہ بحران میں، حکومت ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے۔ حکومت ہی مسئلہ ہے۔ آج آسام میں ایک فرد کی حکومت ہے۔‘‘
وہ مزید لکھتی ہیں کہ:
’’ہمیں ایسی آوازیں سنائی نہیں دیتیں جو افراتفری کو پرسکون کریں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وزیراعلیٰ نے تنہا میڈیا سے خطاب کرنے کا حق اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ آج آسام کا معاشرہ مکمل طور پر بنگالی مسلمانوں اور بنگالی ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو چکا ہے۔ میڈیا نے آسام میں بی جے پی حکومت کے ساتھ مل کر معاشرے کو پولرائز کرنے میں حصہ لیا ہے۔ آج، سیاست مکمل طور پر تقسیم اور نفرت سے چلتی ہے۔ روزانہ، ٹی وی چینلز اور یوٹیوب پر مسلمانوں کے خلاف ایک شرانگیز مہم چلائی جاتی ہے جیسے کہ وہ جینے کے مستحق نہیں ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں انہیں ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو ایک دھاگے سے لٹکی ہوئی ہے، جو ان کے ساتھ سب سے غیر انسانی سلوک ہے۔ اقتدار پر سوال اٹھانے کی جگہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ آج ہم اس ملک میں اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جب حکمران اسٹیبلشمنٹ سے مشکل سوالات پوچھنا آپ کو پاکستان کا ہمدرد یا ‘قوم دشمن’ بنا دیتا ہے۔ ماضی میں، یہاں تک کہ ایمرجنسی کے دوران بھی، ہمیں اس قسم کا جبر محسوس نہیں ہوا جو آج ہم محسوس کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں انگریزی ویب سائٹ دی وائر کے ایڈیٹر سدھارتھ راجن اور کرن تھاپر کے خلاف آسام میں پے در پے دو ایف آئی آر کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ ایک معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ کارروائی سے روکے جانے کے اگلے دن، ایک دوسرے ایف آئی آر میں نوٹس جاری کیا گیا۔ دوسری ایف آئی آر مئی میں درج کی گئی تھی مگر اس وقت سے اب تک خاموشی تھی، مگر اچانک نوٹس جاری کیا گیا۔
ایف آئی آر کیوں ہوئی؟ ایف آئی آر کی کاپی تک بھی فراہم نہیں کی گئی۔ سپریم کورٹ نے ملک سے غداری کے قانون IPC 124A کو رد کر دیا تھا، مگر نئے قانون میں نئے عنوان کے تحت بھارتیہ نیائے سنہتا کے سیکشن 152 کے ذریعہ قانون کو مزید سخت کیا گیا ہے۔ دی وائر کے صحافیوں کے خلاف سیکشن 152 کا استعمال کیا گیا ہے۔
اس پورے معاملے پر ملک کے موقر انگریزی اخبارات نے اداریے لکھ کر سخت احتجاج درج کرایا ہے اور سپریم کورٹ سے انہیں راحت بھی مل چکی ہے، مگر اس طرح کی خوش نصیبی آسام میں زمین پر رہ کر کام کرنے والے صحافیوں کو حاصل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ’’دی آسام ٹربیون‘‘ جیسا بڑا اخبار، جو سرما کے دباؤ کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا، تو پھر چھوٹے اخبارات اور اپنا آہولٹ چلانے والے صحافی کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔
نیوز لاؤنڈری کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، دی وائر کے ایڈیٹر اور کرن تھاپر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والوں کا تعلق بی جے پی اور اے بی وی پی، جو آر ایس ایس کا طلبا ونگ ہے، سے ہے۔ چند مہینے قبل نیوز لاؤنڈری نے Himanta family’s grip on the headlines via Northeast India’s biggest media empire کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ اس اسٹوری میں سرما اور ان کے خاندان کی میڈیا ہاؤسز میں شیئر اور گہری گرفت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ آسام میں میڈیا اور اخبارات سرما کی منشا کے خلاف خبر شائع کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔
آزادی رائے، معلومات اور آگاہی پر کس طرح سے قدغن لگائی جا رہی ہے، اس کا اندازہ آسام کا دورہ کرنے والے سید فرمان احمد کی ایک پوسٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہم ابھی آسام سے واپس آئے ہیں، جہاں ہم نے زمین پر آٹھ انتہائی مشکل اور خوفناک دن گزارے۔ یہ صرف مشکل دن نہیں تھے، یہ خوف، دھمکی، ذہنی تھکن اور مسلسل نگرانی کے دن تھے۔ جیسے ہی ہم آسام پہنچے، آسام پولیس نے ہماری ہر حرکت کی نگرانی شروع کر دی۔ ہمیں بغیر کسی وجہ کے اٹھایا گیا، ڈرایا گیا، اور ایک موقع پر یہاں تک کہ ایک ضلعی سرحد پر لے جا کر چھوڑ دیا گیا، یہ واضح پیغام ہے کہ ہمیں پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ ہم نے جس سطح پر جبر کا مشاہدہ کیا، اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ سچ پوچھیں تو ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہم دہلی بحفاظت واپس لوٹ پائیں گے یا نہیں۔ ہم جس خطرے میں تھے وہ کسی بنیاد پرست گروہ سے نہیں تھا، بلکہ ان اداروں سے تھا جن کا کام قانون کی حفاظت کرنا ہے۔ ہم نے جو دیکھا وہ دل دہلا دینے والا اور گہرا پریشان کن تھا۔ آسام میں ہزاروں مسلمان خاندانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے گھروں کو بلڈوز کیا جا رہا ہے۔ انہیں غیر انسانی اور ناقابل رہائش حالات میں دھکیلا جا رہا ہے۔ انہیں باہر کے لوگوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں، مدد لینے کی بھی اجازت نہیں۔ یہ ایک خاموش ایمرجنسی ہے۔ میں آنے والی پوسٹس میں پوری سچائی کا اشتراک کروں گا جو ہم نے دستاویز کیا ہے۔ دنیا کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘‘
’’پولس اسٹیٹ‘‘ کہلانے کے لیے کیا اتنے شواہد کافی نہیں ہیں؟ مگر اب سوال یہ ہے کہ اس کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے، تو ظاہر ہے کہ منظم، کثیر جہتی اور پائیدار نقطہ نظر کے بغیر کسی بھی ریاست کے ظلم و جبر کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوری اقدار، قانونی فریم ورک اور سماجی اتحاد کو مضبوط کرکے حالات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ قانونی چارہ جوئی اور عدالتی تحفظ کے لیے بیداری مہم چلائی جائے۔
چونکہ مقامی میڈیا اور قومی میڈیا صنعت کاروں کے زیر اثر ہے اور یہ واضح ہے کہ آسام میں صنعت کاروں کو بڑے پیمانے پر زمین فراہم کی جا رہی ہے، ایسے میں امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس جبر کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ ایسے میں آزاد میڈیا اور آوازوں کی اہمیت دوگنی ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ شیلانگ ٹائمز کی ایڈیٹر نے لکھا ہے کہ انسانی حقوق کی آواز خاموش ہو چکی ہے، تو لیکن سول سوسائٹی کو اس خاموشی کو توڑنے کے لیے فعال ہونا پڑے گا۔
پولس اسٹیٹ کے جبر کا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی، صحافتی، سماجی، اور سیاسی سطح پر مشترکہ کوششیں ضروری ہیں۔ صحافیوں، سول سوسائٹی، اور شہریوں کو متحد ہو کر جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے لڑنا چاہیے۔ اس طرح کی تحریکوں کے ذریعے، پولس اسٹیٹ کے جبر کو کمزور کیا جا سکتا ہے اور جمہوریت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔
***
***
گزشتہ دنوں انگریزی ویب سائٹ دی وائر کے ایڈیٹر سدھارتھ راجن اور کرن تھاپر کے خلاف آسام میںپے درے پے کو دوایف آئی آر کا معاملے سامنے آیا ہے۔ایک معاملے میںسپریم کورٹ کے ذریعہ کارروائی سے روکے جانے کے اگلے دن ایک دوسرے ایف آئی آر میںنوٹس جاری کردیا گیا۔دوسری ایف آئی آر مئی میںدرج کی گئی تھی مگر اس وقت سے اب تک خاموشی تھی ۔مگر اچانک نوٹس جاری کیا گیا ۔ایف آئی آر کیوںہوئی ؟ ایف آئی آر کی کاپی تک بھی فراہم نہیںکیا گیا ۔سپریم کورٹ نے ملک سے غداری کے قانون آئی پی سی 124Aکو رد کردیاتھا مگر نئے قانون میںنئے عنوان کے تحت بھارتیہ نیائے سنہتا کے سیکشن 152کے ذریعہ قانون کو مزیدسخت کردیا گیا ہے۔دی وائر کے صحافیوںکے خلاف سیکشن 152کا استعمال کیا گیا ہے۔اس پورے معاملے ملک کے موقر انگریزی اخبارات نے اداریے لکھ کر سخت احتجاج درج کرایا ہے اورسپریم کورٹ سے انہیںراحت بھی مل چکی ہے مگر اس طرح کی خوش نصیبی آسام میںزمین پر رہ کر کا م کرنے والے صحافیوںکو حاصل نہیںہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 اگست تا 30 اگست 2025