
خارجہ پالیسی کا بحران: تصویری سفارت کاری یا عملی ناکامی؟
وزیر اعظم نریندر مودی کا کینیڈا اور جنرل عاصم منیر کا امریکی دورہ
ڈاکٹر سلیم خان
جی7- میں شمولیت کے لیے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل پر احتساب کی شرط
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جس دن وزیر اعظم نریندر مودی کینیڈا روانہ ہوئے اسی دن فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکہ پہنچ گئے۔ بیرونِ ملک جاکر سرکاری خرچ پر سیر و سیاحت کرنا وزیر اعظم مودی کا پسندیدہ مشغلہ ہے لیکن اس بار جی-7 ممالک کی سالانہ کانفرنس میڈیا میں بحث کا موضوع بن گئی کیونکہ پچھلے چھ سالوں سے وزیر اعظم وہاں ایک مشاہد کے طور سے جاتے رہے ہیں۔ اس بار دعوت نامہ ملنے میں غیر معمولی تاخیر کے سبب ذرائع ابلاغ میں طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ حزب اختلاف نے اسے مودی حکومت کی ناکامی قرار دیا تو حامیانِ سرکار نے کہا کہ مودی کو وقت کم ہونے کی وجہ سے وہاں جانے میں دل چسپی نہیں ہے، حالانکہ مشاہدین کو وہاں منہ دیکھنے اور تصویر کھچوانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا۔ ویسے فوٹو کھچوانے میں وزیر اعظم مودی کو سبھی پر سبقت حاصل ہے۔ حکومت کے مخالفین نے دل چسپی نہ ہونے کو ’انگور کھٹے‘ کہہ کر کینیڈا کے ساتھ حکومتِ ہند پر کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے میں ناکامی کا الزام لگایا تو مودی بھکتوں نے اس کا تعلق وہاں موجود خالصتان نواز سکھوں کے اثر و رسوخ سے جوڑ کر داخلی سیاسی مجبوریوں کا حوالہ دیا۔ اس تو تو میں میں کے بیچ وزیر اعظم مارک کارنی کے ایک فون نے اچانک منظر بدل گیا۔
جی-7 اجلاس سے قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران کینیڈین وزیرِ اعظم نے اس حوالے سے اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ’جی-7 اتحادیوں کے ساتھ بات چیت میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ توانائی، مصنوعی ذہانت اور اہم معدنیات جیسے بڑے موضوعات پر گفتگو کے لیے دنیا کے سب سے اہم ممالک کو مدعو کرنا ضروری ہے۔‘ اس تمہید کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کو دعوت دینے سے قبل رکھی جانے والی شرائط کے تعلق سے وہ بولے ’ہم دو طرفہ سطح پر اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ قانون کے نفاذ پر بات چیت کی جائے گی اور اس سمت میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ احتساب کے مسئلے پر بھی اتفاق پایا گیا ہے‘‘۔ اس کا صاف مطلب یہی نکلتا ہے کہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی بابت نہ صرف ملزمین کو قانون کے شکنجے میں جکڑا جائے گا بلکہ ان کا احتساب یعنی انہیں سزا دے کر کیفرِ کردار تک پہنچانے کا انتظام بھی ہو گا۔
سابق صدر ٹروڈو جب یہی بات کہتے تھے تو مودی بگڑ جاتے تھے مگر جب جی-7 میں شرکت کو اس سے مشروط کردیا گیا تو مان گئے اور کھٹے انگور اچانک میٹھے ہوگئے۔ مارک کارنی نے نریندر مودی کو دعوت کیا دی کہ فوراً انہوں نے بخوشی اس کو قبول کرکے جانے کی تیاری شروع کر دی۔ اس مدھر ملن کی خوشی میں بھگوا حلقوں میں شہنائی بجنے لگی۔ ان لوگوں نے پلک جھپکتے ہند-کینیڈا تعلقات کے استوار ہو جانے کی نوید بھی سنا دی حالانکہ ’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘۔ کینیڈین وزیرِ اعظم کے اس بیان کو کہ ’ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معیشت، سب سے زیادہ آبادی والا ملک اور عالمی سپلائی چینز کا مرکز ہے۔‘ میڈیا میں اچھالا جانے لگا۔ یہ بات بھی زیر بحث آگئی کہ کینیڈا میں تقریباً 30 لاکھ انڈین نژاد افراد مقیم ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ہندوستانی تارکین وطن کا ایک اہم ملک ہے لیکن یہ سب تو مذکورہ بالا شرائط کی قبولیت سے پہلے بھی تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بار ملک چھوڑ کر جانے والا پھر ملک کے لیے کچھ نہیں کر پاتا۔
امریکہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہندوستانی نژاد وہاں پر ہندی شہریوں پر ہونے والے مظالم اور ذلت و رسوائی کے خلاف کچھ کرنا تو دور زبان سے ایک لفظ احتجاج تک نہیں نکال پاتے۔ پردیس میں جا کر بسنے والوں کا کیا قصور اپنی دیش بھکت سرکار کے وزیر خارجہ ایس جئے شنکر ایوان پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر ڈھٹائی سے امریکی زیادتی کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ مودی کو ملنے والی دعوت کے بعد یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ کینیڈین پنشن فنڈز نے ہندوستان میں تقریباً 75 ارب کینیڈین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چھ سو سے زائد کینیڈین کمپنیاں یہاں کام کر رہی ہیں، جبکہ ایک ہزار سے زائد کمپنیاں ہندوستانی بازار میں کاروبار کرتی ہیں۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پچھلے دس سالوں میں وزیر اعظم مودی نے ایک بار بھی کینیڈا کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا۔ اس لیے یہ بے معنیٰ دلائل ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ٹرمپ نے کینیڈا کو اپنی 51 ویں ریاست بنانے کا ارادہ ظاہر کر کے وہاں کے حکم رانوں کو ناراض کر دیا ہے اس لیے وہ ہندوستان سے قریب آنا چاہتا ہے مگر خود ہندوستان امریکہ کی گود میں جانا چاہتا۔ ویسے جی-7 میں امریکہ کی شمولیت تو یقیناً ہوگی۔
کینیڈا کے پاس تیل اور گیس کے بڑے ذخائر ہیں اور اس بابت تکنیکی تعاون کے برقرار رہتے ہوئے ہند-کینیڈا کے تعلقات کی بہتری دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہے لیکن حکومت ہند امریکہ کی ناراضی مول لے کر کسی ملک کے ساتھ رشتہ استوار کرنا نہیں چاہتی۔ کینیڈا کے ہندوستانی تجارت کے فروغ کی شاہِ کلید ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اقتدار میں تبدیلی کے باوجود ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان تعلقات کی بحالی کا دارومدار 18 جون 2023 کو ہونے والے ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے متعلق حکومتِ ہند کے رویہ پر ہے۔ سابق کینیڈین وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے ہندوستانی حکومت پر اس میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا تھا، جسے مودی سرکار نے مسترد کردیا تھا۔ اسی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں شدت آئی۔ نئی دہلی میں منعقد ہونے والے جی-20 اجلاس کے بعد جب جسٹن ٹروڈو کا طیارہ خراب ہو گیا تو مودی سرکار نے متبادل طیارے تک کی پیشکش نہیں کی نتیجتاً وہ دودن دہلی میں پڑے رہے۔
خالصتانی شدت پسندی کے حوالے سے وزیرِ اعظم مارک کا کہنا ہے کہ ’چونکہ ایک قانونی عمل جاری ہے اس لیے تفتیش کے مراحل میں اس پر تبصرہ کرنا درست نہیں ہے۔ ‘یہ گول مول جواب ’باغ باں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی‘ کی مصداق ہے۔ اس میں مودی کے ساتھ سکھوں کی ناراضی سے بچنے کی کوشش صاف نظر آتی ہے لیکن اگر 26 خالصتان نوازوں کی حوالگی پر مودی سرکار اصرار کرے تو بات بگڑ جائے گی کیونکہ ہر کسی کو اپنا ووٹر عزیز ہے۔ اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ کینیڈا میں انگریزی اور فرانسیسی کے بعد پنجابی تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے اور وہاں کی کل آبادی کے 1.3 فیصد باشندے پنجابی بولتے اور سمجھتے ہیں۔ پنجاب کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ سکھ کینیڈا میں بستے ہیں نیز، وہاں ان کے پُر امن احتجاج کا حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ ورلڈ سکھ آرگنائزیشن کے صدر دانش سنگھ کے نزدیک وزیر اعظم نریندر مودی کو دعوت دینا نہ صرف وہاں پر مقیم سکھوں کے ساتھ بلکہ کینیڈین اقدار سے بھی غداری ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے کینیڈا میں قدم رکھتے ہی وہاں کئی شہروں میں احتجاج و مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی وہاں جانے کے لیے اتنے پریشان کیوں تھے؟ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ وہ اپنی بیساکھی والی سرکار کے کم زوری کو چھپانا چاہتے ہیں اور دوسرے آپریشن سیندور کے بعد عالمی سطح کی تنہائی کے تاثر کو دور کرنے کا یہ موقع گنوانا نہیں چاہتے۔ جی-7 نے اس بار چونکہ اپنے 50 سال مکمل کرلیے ہیں اس لیے کینیڈا کی صدارت میں وہ اپنی گولڈن جوبلی منا رہا ہے۔ یہ دراصل دنیا کی سات سب سے ترقی یافتہ معیشتوں کا ایک وفاق ہے۔ 2014 سے قبل یہ جی-8 ہواکرتا تھا مگر کریمیا پر قبضے کے بعد روس کو اس گروپ سے نکال باہر کیا گیا۔ بظاہر عالمی تجارت اور بین الاقوامی مالیاتی نظام پر ان لوگوں کا غلبہ ہے مگر ‘برکس’ جیسے وفاق کے مقابلے میں یہ روبہ زوال ہے۔ 2000 کے عالمی جی ڈی پی میں جی-7 کی حصہ داری 40 فیصد تھی جو گھٹ کر 28.43 فیصد ہو چکی ہے۔ روس کو نکالنے کی کمی چین کی شمولیت سے پوری ہوسکتی تھی مگر چین کی فی کس آمدنی کے کم ہونے کا بہانہ بنا کر اس کو رکنیت نہیں دی گئی اور وہ ہندوستان کی طرح محض مشاہد کے طور پر شریک ہونے کو اپنی توہین سمجھ کر مسترد کردے گا۔
ہمارا کیا ہے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟ یورپی یونین بھی ہماری طرح جی-7 کا باضابطہ رکن نہیں ہے، مگر اس کے عہدیدار بھی ہر سال اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔ اس موقع پر ان ممالک کے وزراء اور افسروں کی ملاقاتیں ہوتی ہیں تو باہمی معاہدے بھی طے پاتے ہیں نیز، عالمی حالات پر مشترکہ بیانات جاری کیے جاتے ہیں۔ جی-7 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہونے سے قبل وزیر اعظم مودی نے کہا کہ وہ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کی دعوت پر اس میں شرکت کر رہے ہیں اور کناناسکس میں ان ممالک کا شکریہ ادا کریں گے جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی جنگ کی حمایت کی۔ اس کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ وہ ممالک ہیں کہاں اور جو اکا دکا ہیں بھی تو انہیں وہاں بلائے گا کون؟
آپریشن سیندور کے بعد ان بیشتر ممالک سے ہندوستان سے منہ موڑ لیا جو پہلگام سانحہ کے سبب ہماری حمایت کر رہے تھے۔ اس عالمی تنہائی کو دور کرنے کے لیے سات کثیر الجماعتی وفد تشکیل دے کر تقریباً پچاس ارکان پارلیمنٹ کو دنیا کے 33 ممالک بھیجنا پڑا۔ وہ بے چارے واپس لوٹے تو وزیر اعظم نے انہیں ملاقات کے لیے بلایا مگر پہلے کوویڈ ٹیسٹ کرانے کی تلقین کی۔ کاش کہ وزیر اعظم انہیں اپنے گھروں جانے سے پہلے یہ ہدایت دیتے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ وزیر اعظم کو اپنی صحت کا جتنا خیال ہے اتنا اپنے ارکان پارلیمنٹ یا ان کے گھر والوں کا نہیں، کیونکہ وہ کئی دن پہلے واپس آئے تھے۔ وزیر اعظم مودی نے نئی دہلی میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر مختلف ممالک میں ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے مختلف وفود کے ارکان سے ملاقات کے بعد ان کی لگن اور کاوشوں کو سراہتے ہوئے ایکس پر لکھا ’’امن کے تئیں ہندوستان کی وابستگی اور دہشت گردی کے خطرے کو ختم کرنے کی ضرورت پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے جیسے ہندوستان کی آواز کو آگے بڑھایا اس پر ہم سبھی کو فخر ہے‘‘
آپریشن سیندور کے بعد پاکستان سے منسلک دہشت گردی سے دنیا کو آگاہ کرنے والے وفود میں موجودہ اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ کچھ سابق ارکانِ پارلیمنٹ اور سابق سفارت کار بھی شامل تھے۔ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کی حمایت کے خلاف ہندوستان کے مضبوط موقف کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ان کی کوششوں کی تعریف و توصیف سے علی الرغم ان دوروں کی حصولیابی کا معروضی جائزہ لینا ضروری ہے۔ مذکورہ وفود میں سب سے تیز طرار رکن پارلیمنٹ ششی تھرور کی قیادت میں امریکہ جانے والے وفد کی کارکردگی کو مثال کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ اس دورے سے صرف ڈھائی ماہ قبل یعنی مارچ کے اواخر میں امریکی کانگریس ( ایوانِ پارلیمنٹ) میں ایک ریپبلکن اور ڈیموکریٹک قانون ساز نے مشترکہ طور پر پاکستانی حکام پر پابندیوں کے لیے ایک بل پیش کیا تھا۔ اس بل کا عنوان تھا "پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ” اور اس میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ریپبلکن رکن جو ولسن سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستانی فوج پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت امریکہ کو انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں کرنے والے افراد پر ویزا اور ملک میں داخلے جیسی پابندی عائد کرنے کا اختیار ہوتا ہے غالباً اسی طرح کے قانون کے تحت وزیر اعظم بننے سے قبل نریندر مودی کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ اس میں پہلی بار پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر 180 دن کے اندر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس بل میں پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر پر "جان بوجھ کر سیاسی مخالفین کو غلط طریقے سے قید کرنے میں ملوث ہونے” کا الزام عائد کیا گیا اور ایسے اہم افراد پر پابندیاں عائد کرنے کی وکالت کی گئی تھی۔ آپریشن سیندور کے بعد حالات پلٹ گئے اور ششی تھرور کا وفد بھی اسے سدھار نہیں سکا۔ جنرل عاصم منیر کو پاکستان کا فیلڈ مارشل بنا دیا گیا اور وہ امریکہ کے دورے پر پہنچ گئے جہاں ان کا زبردست استقبال ہوا۔
ششی تھرور کی واپسی کے بعد امریکی فوج کی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل مائیک ایرک کوریلا نے امریکی کانگریس کے سامنے اپنے تفصیلی بیان کی اور سوال و جواب پر مبنی سماعت کے دوران انتہائی واضح الفاظ میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جدوجہد اور امریکہ سے تعاون کو شان دار اور انسداد دہشت گردی کے لیے مثبت و مفید کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت دونوں سے تعلقات رکھے گا۔ پچھلے ایک ماہ میں ایک درجن سے زیادہ مرتبہ صدر ٹرمپ تنازع کشمیر پر ثالثی کی غیر عملی اور زبانی پیشکش کے ساتھ ہند پاک جنگ بندی کرانے کا کریڈٹ لے کر وزیر اعظم نریندر مودی کو پریشان کر چکے تھے۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ بالخصوص پنٹاگان کا پاکستان کی انسداد دہشت گردی کے لیے قربانیوں اور امریکہ سے شراکت کا سرٹیفکیٹ وفود کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔کانگریس پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے اس معاملے کو ہندوستان کی دہائیوں پر محیط خارجہ پالیسی کے لیے ایک دھکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی مرکزی کمان کے سربراہ کا یہ کہنا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک ’شاندار شراکت دار‘ ہے، ہندوستان کے لیے سفارتی سطح پر ایک سنگین پیغام ہے۔
جئے رام رمیش کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے امریکہ ہندوستان اور پاکستان کو ایک ہی سطح پر لا کر دیکھ رہا ہے جو کہ دہائیوں کی خارجہ پالیسی سے حاصل ہونے والی پیش رفت کو کم زور کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف وزیر اعظم اب تک ان نمائندوں کی ستائش میں مصروف ہیں جو دنیا کو پاکستان کی دہشت گردی کی حمایت سے آگاہ کر کے واپس آئے ہیں لیکن اسی دوران واشنگٹن ڈی سی سے آنے والی خبریں ہندوستان کو خارجہ محاذ پر غیر یقینی صورت حال کے غار میں دھکیل رہی ہیں۔ جے رام رمیش نے مشورہ دیا کہ ’’ہم دہائیوں کی محنت سے حاصل شدہ خارجہ پالیسی کو اتنی آسانی سے کم زور نہیں ہونے دیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ مودی جی ضد چھوڑ کر قومی یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔‘‘ وزیر اعظم اگر اس طرح کے ٹھوس اقدامات نہیں کریں گے تو جی-7 جیسے اجلاس میں شرکت کرنے اور تصویریں کھچوانے کے نمائشی کھیل تماشوں سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا ۔جنرل عاصم منیر کی امریکہ میں پذیرائی وزیر اعظم مودی کے نوے سے زیادہ غیر ملکی دوروں کی ناکامی پر گواہ ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025