حکومت کی غیر ذمہ داری اور عوام کی بے بسی

افراد اور اداروں کی جدوجہد مثالی۔ ملک میں انسانیت ابھی زندہ ہے

شاہنواز بدر قاسمی

 

کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت پورے ملک میں افراتفری کا ماحول ہے، ہر طرف خوف ودہشت کا ایک ایسا نظارہ ہے جس کا تصور نا ممکن ہے، حکومت کی بے حسی اور عوام کی بے بسی بھی سب کے سامنے ہے۔ ایسے مشکل حالات میں ہمیں ہرگز خوف زدہ نہیں ہونا ہے بلکہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ہے، یہ وقتی تکلیف اور مصیبت ہے جو واقعتاً ہمارے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں۔اس وقت چاہے مرکزی حکومت ہو یا پھر ریاستی حکومتیں انہوں نے اپنے اپنے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک میں جو صورت حال ہے وہ انتہائی تشویش ناک اور مایوس کن ہے۔
اس منظر نامے کا اظہار ضروری ہے کیوں کہ ابھی بھی ملک میں ایک بڑی آبادی ایسی ہے جو کورونا کو مذاق یا پھر عالمی سازش ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ ایسے لوگ غلط فہمی کے شکار ہیں یا پھر جان بوجھ کر شرارت کر رہے ہیں۔ ہماری نظر میں کورونا بیماری خطرناک نہیں بلکہ حکومت کی بے توجہی، غلط پالیسی، بھید بھاو، طبی سہولتوں کی کمی اور اسپتالوں میں بیڈز اور آکسیجن کا نہ ملنا زیادہ خطرناک ہے جس پر فوری توجہ دینا ضروری ہے۔ یہ کورونا کی دوسری لہر ہے حکومت نے پہلی لہر پر بے حد ناقص کارکردگی کا ثبوت دیا تھا۔ آج کے موجودہ حالات کی ہماری حکومت براہ راست ذمہ دار ہے۔ وقت کے رہتے ہوئے کسی بھی طرح کی تیاری نہ کرنا اپنے آپ میں ایک بد نما داغ ہے۔ آج روزانہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ مر رہے ہیں لیکن کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ اس ملک میں عجیب و غریب خوفزدگی کا ماحول ہے۔حکومت اور انتظامیہ کا رویہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ جب ماسک نہ لگانے پر بھاری بھرکم چالان کاٹا جاتا ہے تو اسپتالوں میں بیڈ اور آکسیجن نہ ملنے پر سرکار اور انتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ ہماری عدالتوں کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔ ہم اتنے خوف زدہ ہیں کہ اپنے ملک میں حق بات بولنے کو بھی جرم سمجھنے لگے ہیں۔ ان اموات کے لیے ہمارا سسٹم ذمہ دار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی غلام ملک کے ایسے شہری ہیں جہاں انسانوں کو انسان نہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جانے لگا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا اور دیگر معتبر ذرائع سے جو خبریں آرہی ہیں اسے دیکھ کر یقین نہیں ہوتا کہ بھارت جیسے طاقتور ملک کی ایسی حالت ہے جس پر پوری دنیا ماتم کر رہی ہے۔ ایسے مشکل حالات میں بھی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے اور اپنے آپ کو شاباشی دینے میں مصروف ہیں۔ حکومت کے رویہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کا کام صرف الیکشن لڑنا اور اب ویکسین بیچنا ہی رہ گیا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے خود کفیل بھارت کا خواب دکھا کر پورے ملک کے عوام کو جس کنفیوژن میں ڈال دیا ہے اس سے نکالنا ایک بڑا سنگین مسئلہ ہو گیا ہے۔
مصیبت کی اس گھڑی میں خاص طور پر میڈیکل ڈپارٹمنٹ اور ہمارے بعض حوصلہ مند نوجوان جو خدمات انجام دے رہے ہیں وہ سنہرے حرفوں میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ پلازما دینے سے لے کر آکسیجن کی فراہمی اور کورونا سے مرنے والوں کی تدفین اور آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ملک کے بڑے شہروں سے لے کر جھوٹے دیہاتوں تک جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں ان کا ساتھ دینا اور ہر ممکن مدد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسے محسن شخصیات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔ یہ وقتی حالات ہمیں پریشان تو کر سکتے ہیں لیکن ہمارے حوصلوں کو نہیں توڑ سکتے۔ مجموعی اعتبار سے ہمارے نوجوانوں میں خدمت خلق کا جذبہ دن بدن بہتر ہو رہا ہے جو یقیناً خوش آئند ہے۔ ہماری کئی ملی جماعتیں اور علاقائی سطح کے فلاحی وسماجی ادارے بھی اس وقت جس حوصلہ مندی کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ مثالی اور تاریخی ہے جسے ہمیں یاد رکھنا چاہیے اور کام کرنے والے ایسے اداروں اور معتبر شخصیات کی دل کھول کر مدد کرنی چاہیے کیوں کہ ایسے حالات میں بھی ہم اگر مدد نہیں کر سکتے تو یقین جانیے یہ مال و دولت اور شان و شوکت کسی کام کے نہیں۔ انسان کا ضمیر بھلے ہی کہنے کو مردہ ہو چکا ہے لیکن ہمارے ملک میں ابھی بھی انسانیت زندہ ہے۔ اس وقت بلا کسی مذہبی تقریق کے بے بس انسانوں کو بچانے کیلے ہم سب کو آگے آنا چاہیے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
***

جب ماسک نہ لگانے پر بھاری بھرکم چالان کاٹا جاتا ہے تو اسپتالوں میں بیڈ اور آکسیجن نہ ملنے پر سرکار اور انتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں؟ ہماری عدالتوں کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔ ہم اتنے خوف زدہ ہیں کہ اپنے ملک میں حق بات بولنے کو بھی جرم سمجھنے لگے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021