حکومت آسام کیپش بیک مہم: قانون کا لبادہ اوڑھ کر تعصب کی کارروائی !

حکومت آسام کیپش بیک مہم: قانون کا لبادہ اوڑھ کر تعصب کی کارروائی !

0

عبدالرحمٰن امان

مختلف اقلیتی تنظیموں، بشمول آل آسام مائنارٹی اسٹوڈنٹس یونین (AAMSU)، NEMSU، ABMSU، اور مائنارٹی سنگرم پریشد کے وسیع احتجاج اور بڑھتی ہوئی مخالفت کے درمیان آسام کی متنازعہ ’’پش بیک مہم‘‘ تیز ہو گئی ہے جس کا مقصد بنگلہ دیشی سرحد پار کرنے والوں کو نکالنا بتایا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما نے 10 جون 2025 کو ریاستی اسمبلی کے فلور پر خطاب کرتے ہوئے تصدیق کی کہ حکومت اس مہم کو روکنے والی نہیں ہے اور انہوں نے تمام مبینہ غیر قانونی تارکین وطن کو بنگلہ دیش بھیجنے کا عزم دہرایا۔
اقلیتی حقوق کی تنظیموں نے بی جے پی کی قیادت والی آسام حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ پش بیک کارروائیوں کو بہانہ بنا کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے افراد کو دستاویزات کی تصدیق، مناسب قانونی عمل یا سپریم کورٹ کے احکامات کی پاسداری کے بغیر بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ "نو مینز لینڈ” میں دھکیل دیا جا رہا ہے۔
عوامی کنونشن اور ریاست گیر احتجاج
مئی کے آخر میں آل آسام مائناریٹی اسٹوڈنٹس یونین (AAMSU) نے گوہاٹی کے مچکھووا کلچرل کمپلیکس میں ایک عوامی کنونشن منعقد کیا جس میں ریاستی حکومت کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کے بہانے مسلمانوں کے خلاف ظلم و زیادتی پر شدید احتجاج کیا گیا۔ اس اجتماع میں 19 اقلیتی تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے جن میں جمعیت علمائے ہند، نارتھ ایسٹ امارتِ شرعیہ اور متعدد سِول سوسائٹی گروپس شامل تھے۔ کنونشن میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی گئی اور 11 قراردادیں منظور کرتے ہوئے ریاست گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔
ریاستی حکومت کا موقف اور قانونی جواز کا دعویٰ
10 مئی کو ایک خصوصی اسمبلی اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے اعلان کیا کہ ریاست میں پش بیک کارروائیوں کو تیز کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارروائیاں "دی امیگرینٹس (ایکسپلشن فرام آسام) ایکٹ، 1950” کے تحت کی جا رہی ہیں جو ڈسٹرکٹ کمشنرز کو فارینرز ٹریبونل کے بغیر ہی کسی فرد کو غیر قانونی تارک وطن قرار دے کر ملک بدر کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دے کر کہا کہ یہ قانون آج بھی نافذ العمل ہے۔
اپوزیشن کی مخالفت، NRC کے خلا اور قانونی اعتراضات
اس حکومتی مہم پر کانگریس، AIUDF اور راجیور دل سمیت اپوزیشن جماعتوں نے سخت تنقید کی۔ اسمبلی میں احتجاج کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف دیبابراتا سائکیا نے الزام لگایا کہ حکومت NRC کے حتمی نتائج کو نظر انداز کر رہی ہے، جس میں 19 لاکھ افراد کو خارج کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد کو تاحال “ریجیکشن سلپس” جاری نہیں کی گئیں جس کے باعث وہ اپیل کرنے سے بھی محروم ہیں۔ سائکیا نے یہ بھی کہا کہ صرف فارینرز ٹریبونلز کو ہی کسی فرد کو غیر ملکی قرار دینے کا قانونی اختیار حاصل ہے اور حکومت کی یکطرفہ کارروائیاں غیر آئینی ہیں۔
پش بیک کارروائیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
23 سے 27 مئی کے درمیان آسام بارڈر پولیس نے مختلف اضلاع سے 50 سے زائد افراد کو حراست میں لے کر گوآلپارہ کے مٹیا ڈیٹینشن کیمپ میں رکھا اور بعد ازاں انہیں BSF کے حوالے کر دیا جس نے انہیں بنگلہ دیش کی سرحد پر "نو مینز لینڈ” میں دھکیل دیا—اکثر رات کی تاریکی میں متاثرین میں بچے، خواتین اور بزرگ شامل تھے۔ ان میں خیر الاسلام، ایک سرکاری استاد (جن کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے) اور رحیمہ بیگم، ایک مقامی آسامی مسلمان خاتون شامل تھیں۔ ان کے اہلِ خانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس درست شناختی اور قانونی دستاویزات موجود تھیں جن میں ووٹر آئی ڈی، آدھار، PAN کارڈ، زمین کے کاغذات اور 1951 و 1971 کے انتخابی ریکارڈز شامل ہیں۔
قانونی مداخلت اور عدالتی نوٹس AAMSU نے ان اقدامات کے خلاف گوہاٹی ہائی کورٹ میں ایک عوامی مفاد کی عرضی دائر کی۔ 29 مئی کو عدالت نے آسام حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کارروائیوں کی قانونی حیثیت پر وضاحت طلب کی، خاص طور پر ان کیسز میں جہاں متاثرین کے مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیرِ التوا تھے۔
بین الاقوامی سطح پر ردِ عمل اور پش بیک کی ناکامی
بنگلہ دیش کی سرحدی فورس (BGB) نے بغیر شہریت کے ثبوت کے کسی بھی شخص کو داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں BSF کو 65 افراد کو واپس لانا پڑا۔ دونوں ممالک کی سرحدی فورسز کے درمیان کئی فلیگ میٹنگیں ہوئیں جن میں BGB نے دستاویزی ثبوت مانگے جو ہندوستانی حکام مہیا نہ کر سکے۔ کچھ متاثرین نے الزام لگایا کہ انہیں دونوں طرف کی فورسز نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ کے مطابق ایک دودھ پلاتی ماں بھی ان افراد میں شامل تھی جسے بھاری بارش میں بغیر پناہ گاہ کے رات گزارنی پڑی۔
بنگلہ دیش کا سخت مؤقف: انسانی حقوق کی خلاف ورزی
بنگلہ دیشی اخبار "دی ڈیلی اسٹار” نے انکشاف کیا کہ گزشتہ مہینوں میں 700 سے زائد افراد کو ہندوستان سے زبردستی بنگلہ دیش دھکیلا گیا جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت نے ان اقدامات کو یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس اور انٹرنیشنل کوویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس جیسے بین الاقوامی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بدری صرف آسام تک محدود نہیں بلکہ گجرات اور مہاراشٹر جیسی دیگر ریاستوں سے بھی ہو رہی ہے۔
جواب دہی کا مطالبہ اور مسلسل مزاحمت کا اعلان۔ AAMSU کے صدر رضاالکریم سرکار نے حکومت کے اقدامات کو “غیر قانونی اور غیر انسانی” قرار دیتے ہوئے ملک بدر کیے گئے تمام افراد کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے بی جے پی حکومت پر اقلیتوں کو جان بوجھ کر غیر ملکی ثابت کرنے کا الزام عائد کیا اور واضح کیا کہ مزاحمت جاری رہے گی۔ بارپیٹا کے ایم ایل اے عبدالرحیم احمد نے بھی اسی خدشے کا اظہار کیا اور کہا کہ NRC کے مکمل نفاذ اور ٹریبونلز کے فیصلے کے بغیر کسی بھی شخص کی ملک بدری، آئین اور قانون دونوں کے خلاف ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025