جی ۔20 سر براہی اجلاس کے دوران جاری کتابچہ میں ملک کا آفیشیل نام ’بھارت‘

نئی دہلی،10ستمبر:۔

ملک کی راجدھانی دہلی میں پوری دنیا سے سربراہان مملکت جمع ہیں۔جی ۔20 سر براہی اجلاس کا آج دوسرا دن ہے ۔جہاں ایک طرف دنیا بھر کے سر براہان کے ساتھ وزیر اعظم مودی کی ملاقات اور ان کا استقبال ،دہلی کی تزئین اور مہمانوں کا انتظام موضوع بحث ہے وہیں ملک کا نام انڈیا سے بھارت تبدیل کرنے کی بھی بحث تیز ہو گئی ہے ۔

جی ۔20 سر براہی اجلاس کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے نام کے سامنے رکھی تختی پر انڈیا کی جگہ اس بار بھارت تحریر ہونے پر نام کی تبدیلی کی بحث مزید تیز ہو گئی ہے۔دریں اثناء جی ۔20 سر براہی اجلاس کے لئے جاری کئے گئے کتابچہ میں بھی ملک کا نام آفیشیل طور پر بھارت ذکر کیا گیا ہے ۔جس سے نام کی تبدیلی کی قیاس آرائیوں کو مزید تقویت ملتی ہے ۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق جی۔ 20 سربراہی اجلاس سے پہلے مرکزی حکومت نے دو کتابچے جاری کیے ہیں ۔ ’بھارت: دی مدر آف ڈیموکریسی’ اور ‘الیکشن ان انڈیا’، جن میں 6000 قبل مسیح سے ہی  ہندوستانی جمہوریت کی جڑوں کا  ذکر کیا گیا ہے  اور کتابچہ کے آغاز میں  ہی کہا گیا ہے کہ ‘ملک کا آفیشیل  نام بھارت ہے۔

صحافتی شراوستی  داس گپتا کی دی وائر میں شائع   رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں پہلا کتابچہ ‘سندھو-سرسوتی تہذیب’، رامائن اور مہابھارت، اشوک، اکبر، چول اور وجے نگر سلطنت کی حکمرانی، اور کوٹلیہ اور میگستھنیزوغیرہ کی تعلیمات کے توسط سے ملک میں جمہوریت کا ذکر کیا گیا ہے؛ وہیں دوسرا کتابچہ 1951-52 سے پہلے کے عام انتخابات سے لے کر 2019 کے آخری عام انتخابات تک ہندوستان میں ہونے والے انتخابات کا موازنہ کرتا ہے۔

بھارت: دی مدر آف ڈیموکریسی‘ کے عنوان سے 52 صفحات پر مشتمل کتابچے کے پہلے صفحے پر ہی  کہا گیا ہے کہ ملک کا آفیشیل  نام بھارت ہے۔اس میں کہا گیا ہے، ‘ملک کاآفیشیل نام بھارت ہے۔ آئین اور 1946-48 کے مباحث میں بھی اس کا ذکر ہے۔ کتابچے میں 6000 قبل مسیح سے لے کر ہندوستانی آئین کو اپنانے تک ‘ہزاروں سالوں کے دوران بھارت کے جمہوری مزاج’ کو بیان کیا گیا ہے۔

کتابچہ میں اکبر کے عہد کا ذکر کرتے ہوئے اکبر کے جمہوری سوچ کی تعریف کی گئی ہے ۔ اکبر کی جمہوری سوچ اور الیکشن کمیشن کی آزادی کے تحت کی دور اندیشی کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔اس کے سیکشن میں "انڈرسٹینڈنگ بادشاہ” کے عنوان سے، کتابچہ کہتا ہے کہ اچھی انتظامیہ ہر کسی کی فلاح و بہبود کو قبول کرتی ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، مغل بادشاہ اکبر کی یہ سوچ در اصل  "جمہوریت کی ایک قسم” تھی۔اس میں مزید کہا گیا ہے کہ”اکبر کی جمہوری سوچ غیر معمولی تھی اور اپنے وقت سے بہت آگے تھی۔دونوں کتابچے جی – 20 کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے ہیں ۔

انڈیا بنام بھارت کی بحث اس وقت تیز ہوئی جب صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی جانب سے  جی – 20 عشائیہ  کے   کے لئے جاری دعوت نامہ میں  دروپدی مرمو کو ‘پریسیڈنٹ آف انڈیا کے بجائے پریسیڈنٹ آف بھارت‘ لکھاگیا تھا، جس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔

ہندوستانی  آئین کا آرٹیکل 1(1) ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے، ‘انڈیا، جو کہ بھارت ہے، ریاستوں کی ایک یونین ہوگا۔’ ‘آئین کا  سرکاری ہندی ایڈیشن کہتا ہے ،بھارت یعنی انڈیا…’، ریاستوں کی یونین ہوگا، یا ‘بھارت جو کہ انڈیا ہے…،’اس سےیہ واضح ہو جاتا ہے کہ دونوں نام آفیشیل ہیں، ایک ہندی میں اور دوسرا انگریزی میں۔