جینور میں فرقہ وارانہ تشدد: ایک سیاسی سازش کی داستان

مسلمانوں اور آدی واسیوں کے درمیان انتشار پھیلانے کی ناپاک کوششیں بےنقاب

ابوحرم ابن ایاز معاذ عمری

سماج میں پنپنے والے نفرتی عناصر پر حکومت شکنجہ کسے اور قیام امن کے لیے اقدامات کرے
فسادات کے بعد آزاد فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی چشم کشا رپورٹ ۔ ہفت روزہ دعوت سے خصوصی بات چیت
جئے نور، ضلع آصف آباد، تلنگانہ میں پچھلے دنوں ہونے والا فرقہ وارانہ تشدد ایک خطرناک سازش کا نتیجہ ہے جس نے تلنگانہ میں سیاسی مفادات کی خاطر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی ایک واضح مثال پیش کی۔ یہ واقعہ نہ صرف مقامی مسلم سماج کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، جو مختلف کمیونٹیوں کے درمیان بھائی چارے اور امن کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح سیاسی جماعتیں اپنی طاقت بڑھانے کے لیے فرقہ واریت کا سہارا لیتی ہیں۔
جئے نور کے فسادات کی تحقیق، حقائق کی چھان بین اور غیر جانبدارانہ جائزہ لینے کے لیے ایک آزاد فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا تاکہ اس واقعے کے پس پردہ عوامل کی وضاحت کی جا سکے۔ اس ٹیم میں سماجی اور انسانی حقوق کے کئی کارکنان شامل تھے، جن میں محترمہ خالدہ پروین، محترمہ سندھیا (POW) محترمہ سارہ میتھیوز، جناب ایس کیو مسعود، پروفیسر پدماجا شا، وکیل ایم مندکینی، محترمہ کنیز فاطمہ اور جناب انصار سونڈھے وغیرہ شامل تھے۔ اس ٹیم کے دورے کے بعد انہوں نے باقاعدہ ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کی ہے جس کے تحت کئی سارے حقائق سامنے آئے ہیں جن کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔
جئے نور میں تشدد کی ابتدا 31 اگست 2024 کو ایک آدی واسی خاتون کی عصمت دری اور قتل کی کوشش کے الزامات کے بعد ہوئی۔ ایک مسلم آٹو رکشا ڈرائیور پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے آدی واسی خاتون کے ساتھ یہ جرم کیا۔ مقامی لوگوں کے دماغوں میں یہ بات بھر دی گئی کہ یہ واقعہ مسلم قوم کی بدعنوانیوں کی عکاسی کرتا ہے، جس کے نتیجے میں تین دن بعد 4 ستمبر 2024 کو ایک بڑے ہجوم نے مسلمانوں کے خلاف پر تشدد مظاہرہ کیا۔
اس دن تقریباً 5000 افراد پر مشتمل بھیڑ نے جئے نور میں مسلمانوں کے11 گھروں، 95 دکانوں، 4 مساجد اور 42 گاڑیوں پر حملہ کیا۔ تشدد کے دوران پولیس کی عدم مداخلت نے صورت حال کو مزید بگاڑ دیا۔ بی جے پی کے لیڈروں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف دھمکیوں کے باوجود پولیس نے کوئی مؤثر اقدام نہیں کیا جس کی وجہ سے عوام میں پولیس کے خلاف عدم اعتماد پیدا ہوا۔ ڈی ایس پی سیدیا پنتھاتی کے کردار کو خاص طور پر مشکوک قرار دیا گیا جنہوں نے خود مسلمانوں کو دھمکیاں دیں اور انہیں قانونی مدد طلب کرنے سے بھی روکا۔ یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ پولیس نے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی اور اس بات کا مظاہرہ کیا کہ وہ عوامی کے مفادات کے بجائے مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت کام کر رہی ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق، پولیس نے جان بوجھ کر تشدد کی اجازت دی جو کہ ایک سنگین جرم ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر آدی واسیوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کو بھڑکایا۔ وہ آدی واسیوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ مسلمان ان کی زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں اور ان کی خواتین کے ساتھ زبردستی کر رہے ہیں جبکہ یہ پروپیگنڈا پوری طرح بے بنیاد اور جھوٹا تھا، مگر اس نے نفرت کی آگ کو مزید بھڑکا دیا۔
سوشل میڈیا پر چلائی گئی ’چلو جئے نور‘ مہم نے بھی اس نفرت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس مہم کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا کہ مسلمان آدی واسی خواتین کو نشانہ بنا رہے ہیں، جس نے لوگوں میں مزید اشتعال پیدا کیا۔ جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان کوئی واضح فرق نہیں ہے۔ دونوں کمیونٹیوں کے باہمی تعلقات کو درپیش خطرات نے انہیں پریشان کر رکھا ہے۔ کچھ مقامی افراد کا خیال تو یہ ہے کہ مذکورہ تشدد ان کی روایتی ہم آہنگی کو ختم کر دے گا جو صدیوں سے قائم تھی۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ پولیس کی جانب سے صحیح اقدامات کی توقع کر رہے تھے، مگر پولیس نے حقائق کو نظر انداز کیا۔ مقامی لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر اسی طرح کے واقعات کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے اثرات نہ صرف جئے نور بلکہ پورے تلنگانہ پر مرتب ہوں گے۔
جئے نور میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ ایک دن کا واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک تسلسل ہے جو کئی سالوں سے جاری ہے۔ مقامی لوگوں نے بار بار پولیس کو ایسے واقعات کے بارے میں آگاہ کیا، مگر پولیس کی جانب سے کوئی مثبت کارروائی نہیں کی گئی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ پچھلے دنوں بھی پیش آیا تھا جب ایک مسلم آٹو رکشا ڈرائیور کو کچھ شرابی لوگوں نے مارا پیٹا تھا۔ لیکن جب مسلمانوں نے پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرانے کی کوشش کی تو پولیس نے شکایت درج کرکے ایف آئی آر لکھنے کے بجائے انہیں سمجھوتہ کرنے کے لیے بھیج دیا۔ 13 مئی 2024 کو انتخابات کے دوران وڈروں اور مسلمانوں کے درمیان بھی جھگڑا ہوا تھا جس کی وجہ ایک مسلمان لڑکے کی ٹکر سے وڈر بائیک سوار کے درمیان تلخ کلامی تھی۔ جب پولیس نے جانبداری کا مظاہرہ کیا تو مسلم لڑکوں نے اپنی حفاظت کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ یہ واقعہ جئے نور میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی ایک اور مثال ہے۔
4 ستمبر 2024 کو پیش آنے والا فرقہ وارانہ تشدد جئے نور میں کئی سالوں سے جاری تناؤ کا عروج تھا۔ تقریباً 5000 افراد پر مشتمل ہجوم نے مسلمانوں کی جائیدادوں، دکانوں، مساجد اور گھروں پر منظم حملے کیے اور انہیں جلایا گیا۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کی معاش کو تباہ کیا بلکہ مذہبی مقامات کی بھی بے حرمتی کی۔
پولیس کے کردار پر سوالات اٹھتے ہیں کہ آخر کیسے اتنے بڑے پیمانے پر تشدد ہونے سے پہلے حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔ خاص طور پر ڈی ایس پی سیدیا پنتھاتی کا کردار مشکوک تھا، جس نے مسلمانوں کو یہ بھی دھمکی دی تھی کہ "میں تمہیں جئے نور میں رہنے بھی نہیں دوں گا۔”
تشدد کے بعد مختلف مقدمات درج کیے گئے، جن میں 8 ایف آئی آرز سامنے آئیں۔ ان میں سے 5 غیر مسلموں کے خلاف اور 3 مسلمانوں کے خلاف تھیں، نیز ان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھی نظر انداز کیا گیا تھا۔
مقامی مسلمانوں اور آدی واسیوں کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان محبت پائی جاتی ہے۔ قبائلیوں اور غیر قبائلیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تنازعہ موجود ہے۔ اس لیے پچھلے 5 سالوں سے وڈروں اور بنجاروں سے تعلق رکھنے والے ہندو RSS/BJP کے قریب ہیں اور یہی لوگ آدی واسیوں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسا رہے ہیں، وہ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ وہ ان کی عورتوں سے شادی کر رہے ہیں اور ان کی جائیدادیں ہڑپ رہے ہیں وغیرہ۔
اس ضمن میں ایک اور پہلو نہایت ہی اہم ہے کہ بی آر ایس کی انتقامی سیاست نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مقامی لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ بی آر ایس کی جانب سے مسلمانوں کو منتخب کرکے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ بات ان کی سیاسی شکست کے بعد زیادہ نمایاں ہوئی ہے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے جاری فرقہ وارانہ سیاست کا مقصد تلنگانہ میں سیاسی فوائد حاصل کرنا ہے۔ یہ جماعتیں آدی واسیوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے لیے مختلف مہمات شروع کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک ’چلو جئے نور‘ مہم بھی تھی جو سوشل میڈیا پر چلائی گئی تھی۔ اس مہم نے آدی واسیوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے میں کافی بڑھاوا دیا۔ مقامی میڈیا نے بھی اس نفرتی مہم میں اپنا کردار ادا کیا۔ کئی رپورٹروں نے غلط معلومات پھیلائیں جس سے عوام میں خوف و ہراس پیدا ہوا۔ جبکہ نازک حالات میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ میڈیا درست معلومات فراہم کرے تاکہ عوام کو افواہوں سے بچایا جا سکے مگر افسوس کہ جانبدار میڈیا نے اس کا الٹا کیا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ دونوں کمیونٹیوں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حامی ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آدی واسیوں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ دونوں برادریوں کے رہنماؤں کو مل کر بات چیت کرنی چاہیے تاکہ نفرت کا خاتمہ ہو اور اعتماد بحال ہو سکے۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے جئے نور علاقے کا دورہ کیا جس نے مقامی افراد سے گفتگو کرنے کے بعد اور دیگر میڈیا اطلاعات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچی کہ اس مکمل سانحے کو چند افراد منظم طریقے سے انجام دے رہے تھے ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:
بی جے پی لیڈر چکتی گنیش، سابق سرپنچ منوہر، بی آر ایس لیڈر اور لائبریری چیئرمین کنکا یادو، سرپنچ راہول جمنی، رپورٹر اترم رامو، ایناڈو رپورٹر ناگناتھ، پربھاکر، بی جے پی سرپنچ کا بیٹا راتھوڑ سندیپ، راتھوڑ دھرمیندر، آر ایس ایس کا ضلع نائب صدر اور بھارتی اسکول، جئےنور کا ذمہ دار نریندر، ڈبا گوڈا سرپنچ بھیم راؤ، نائب ایم پی پی سرپور (یو) اتھرام پرکاش، بی جے پی لیڈر بھیم راؤ، جنیور پون اور ایم پی ٹی سی کا بھتیجہ ستیش جمنی وغیرہ۔
اسی طرح اس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں حکومت سے کچھ مطالبات بھی کیے گئے ہیں کہ:
حکومت کسی ایک ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج کی زیر نگرانی میں جئے نور فساد کے سلسلے میں ایک آزاد تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے۔
پولیس کے اعلیٰ اور غیر جانبدار افسروں کی ماتحتی میں اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم (SIT) ترتیب دی جائے۔
فسادات کے متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا جائے۔
ناکام پولیس افسران ل بالخصوص ڈی ایس پی سیدیا پنتھاتی اور ایس پی کو برطرف کر دیا جائے اور دیگر کے خلاف سخت کارروائی ہو۔
سیاسی لیڈروں میں سے جو بھی اس واقعے کے ذمہ دار ہیں اور نفرتی پروپگینڈے پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں ان کے خلاف بھی سخت قانونی اقدامات کیے جائیں۔
آدی واسی اور مسلم سماج کے درمیان مصالحت کے اقدامات کیے جائیں۔ مختلف قسم کے این جی اوز بھی اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں لہٰذا ان کو بھی شامل کیا جائے۔
ریاست میں اقلیتوں کے لیے وزیر اعظم کے 15 نکاتی پروگرام کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔ قانون فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام اور کنٹرول کی دفعات ڈی (13) (14) اور (15) پر فوری غور کیا جائے۔
تلنگانہ میں قومی یکجہتی کونسل کی تشکیل دی جائے جو کہ جواہر لال نہرو کی قیادت والی کانگریس حکومت نے 1961-62 میں منظم کی تھی تاکہ فرقہ واریت اور ذات پات سے متعلق مسائل کو حل کیا جائے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے۔
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے رہنما خطوط کو فوری طور پر اپنایا جائے کیونکہ ان پر عمل درآمد کے بارے میں وزارت داخلہ نے اس وقت کے مرکزی داخلہ سکریٹری کے ذریعے ریاستی حکومتوں کو آگاہ کیا تھا۔
D.O.No.11034/18(A)/06-NI. I (Pt.) مورخہ 23 جون 2008
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کا پہلا دورہ 14 ستمبر کو ہوا اور مذکورہ رپورٹ 19 ستمبر 2024 کے دوسرے دورے کے بعد پیش کی گئی مگر اس ٹیم میں شامل سوشل ایکٹی وسٹ جناب ایس کیو مسعود صاحب نے ہفت روزہ دعوت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کو پیش آئے ہوئے تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرچکا ہے مگر جس پیمانے پر حکومتی اقدامات ہونے چاہیے تھے وہ نہیں ہوئے ہیں اور تادم تحریر جئے نور کے علاقے میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے، انٹرنیٹ معطل ہے، کسی بھی اعلیٰ قسم کی تفتیشی کارروائی کا آغاز نہیں ہوا ہے، فساد کے ذمہ دار مجرمین کھلے عام گھوم رہے ہیں اور متاثرین کو کسی بھی قسم کا معاوضہ (compensation) نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی ریاستی حکومت کی جانب سے ریلیف کے کوئی قابل ذکر اقدامات کیے گئے ہیں جو کہ نہایت ہی شرمناک اور قابل افسوس ہے۔
جئے نور میں پیش آنے والا فرقہ وارانہ تشدد ایک سنگین واقعہ ہے جو سیاسی مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش ہے۔ ایسے واقعات کے نتائج صرف مقامی کمیونٹی کے لیے نہیں بلکہ پوری ریاست اور ملک کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اگر حکومت اور دیگر ادارے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں تو فرقہ وارانہ کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے، جس سے پورے علاقے میں امن و سکون متاثر ہوگا اور یہ حکومت کے لیے بھی بہت بڑا چیلنج ہے کہ کیسے فتنہ پرور افراد معاشرے میں پنپ رہے ہیں اور با رسوخ شخصیات کی پشت پناہی انہیں حاصل ہو رہی ہے جس کے سبب جمہوریت کے تانے بانے متاثر ہو رہے ہیں اور گنگا جمنی تہذیب داغ دار ہو رہی ہے۔
یہ سانحہ ایک سبق ہے کہ اگر ملک کے تمام شہریوں نے مل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی کوشش نہ کی تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک برآمد ہو سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اختلافات کو بھلا کر بھائی چارے اور امن و امان کے قیام کی کوشش کریں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان تمام عناصر پر اپنی نگاہیں مرکوز کرے اور بروقت مناسب اقدامات کرے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اکتوبر تا 19 اکتوبر 2024