جھکتی ہے دنیا، بس جھکانے والا چاہیے۔۔۔

کمنڈل پر منڈل کی فیصلہ کن فتح کے ساتھ کیا سنگھ بے اثر ہوچکی ہے؟

0

ڈاکٹر سلیم خان

پہلگام حملہ، پرگیہ ٹھاکر کیس، اور مردم شماری: بی جے پی کے لیے سیاسی مجبوری، سنگھ کے لیے نظریاتی شکست!
آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات کو کسی کی نظر لگ گئی۔ سنگھ کواپنے ۹۹ویں سال میں پہلاجھٹکا اس وقت لگا جب 400 پار کرنے کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کے صدر نڈا نے اعلان کردیا کہ اب ان کی تنظیم گبروجوان ہوکر اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی ہے ۔ اس کو اب سنگھ کے سہارے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اس بیان سے یہ معنیٰ بھی نکلتاہے کہ بوڑھی ہوجانے کے سبب اب آر ایس ایس خود اپنے جوان بیٹے بی جے پی کی محتاج ہوگئی ہے۔ آر ایس ایس کو دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب اس کا بغل بچہ بی جے پی 240 پر سمٹ گئی اور اسے غیروں کی بیساکھیوں پر حکومت سازی کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ اس کے بعد ہیکڑی دکھاتے ہوئےاوقاف بل لائے تو اسے جے پی سی میں بھیجنا پڑا ۔ آگے چل کر ایوان پارلیمان سے کسی طرح منظور کرایا تو عدالت عظمیٰ نے تیکھے سوال کرنا شروع کردئیے۔ اس کے لیے وقت مانگا تو دہلی کی عدالت نے بابا رام دیو پر ہتک عزت کا مقدمہ چلانا شروع کردیا ۔ وہاں سے توجہ ہٹائی تو اردو کے حق میں سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ آگیا ۔
سنگھ پریوار ان جھٹکوں کو برداشت کرہی رہا تھا کہ اسے پرگیہ ٹھاکر کے مقدمہ میں کاری زخم لگ گیا ۔مالیگاوں دھماکہ کیس میں وزیر داخلہ کے تحت کام کرنے والی این آئی اے نے اپنی ہی عدالت میں سادھوی پرگیہ سمیت ان کے سنگھی ساتھیوں کے لیے پھانسی کی مانگ کر ڈالی ۔ اس کے فیصلے کا انتظارچل ہی رہا تھا کہ پہلگام میں دہشت گردانہ حملہ ہوگیا اور سنجے راوت جیسے ہندوتوا نواز رہنما بھی حفاظتی انتظامات میں کوتاہی کے سبب وزیر داخلہ سے استعفیٰ مانگ لیا۔ سارے ملک میں جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے کے اچانک ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کرکے وزیر اعظم نے سب کو چونکا دیا ۔ اس کے بعد مودی جی تفریحی دنیامیں تکنیکی پیش رفت کے لیے منعقد ہونے والی ’ویووز‘ (یعنی سمعی و بصری ٹکنالوجی) کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے ممبئی پہنچ گئے اور موسیقی سے محظوظ ہوتے نظر آئے۔ 100؍ سال کی عمر رسیدہ آر ایس ایس آخر اتنے سارے جھٹکے کیونکر برداشت کرسکتی ہے اس لیے اب آئی سی یو کے اندر وہ کوما کی حالت میں پڑی ہوئی ہے۔
وزیر اعظم نے سر سنگھ چالک یعنی آر ایس ایس کے سربراہ کو تینوں فوجی سربراہوں ، حفاظتی صلاح کار اور وزیر دفاع کے ساتھ میٹنگ کے بعد بلایا ۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ پہلگام کے معاملے میں وہ موہن بھاگوت سے رائے مشورہ لینا ضروری نہیں سمجھتے۔ موہن بھاگوت کے حق میں یہ اچھا ہوا ورنہ سنگھ والے کہتے پھرتے کہ انہیں کے مشورے پر فوج کو کھلا ہاتھ دیا گیا اور بدلے میں مردم شماری کا جھنجھنا پکڑا دیا گیا۔ خیر سوال یہ ہے کہ آخر پہلگام کے معاملے میں اپنا پلہ جھاڑ لینے یعنی سارے اختیارات فوج کو سونپ دینے کے بعد آخر وزیر اعظم نے بھاگوت جی کو پہلی بار اپنے گھر آنے کی زحمت کیوں دی؟ ان دونوں کی ملاقات کے بعد جب کابینہ کی نشست ہوئی اور ذات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ سامنے آیا تو اشارہ مل گیا کہ وزیر اعظم نے سر سنگھ چالک کو اس نازک مسئلہ پر اعتماد میں لینے کی خاطر طلب کیا ہوگا؟ سچ تو یہ ہے کہ آر ایس ایس کےلیے ذات پر مبنی مردم شماری کشمیر میں ہونے والی مردم کشی سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
آر ایس ایس کےنزدیک خون خرابہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ اس کے مشہور دانشور اور بھارتیہ جن سنگھ کے پہلے صدر دین دیال اپادھیائے نے ہندو راشٹریہ کے قیام کی خاطر خانہ جنگی کو لازمی قرار دیا ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے وہ نہ جانے کتنے لوگوں کا ناحق خون بہا چکی ہے اس لیے اس کو ممکن ہےپہلگام کی چند اموات سے بڑا فرق نہ پڑتا ہو لیکن ذات پات کی مردم شماری تو اس کے نظریہ سے براہِ راست ٹکراتی ہے ۔ ماضی میں بی جے پی کے ذریعہ ذات پر مبنی سیاست کے خلاف ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ یا ’ایک ہیں تو سیف ہیں‘ جیسے نعرے لگتے رہے ہیں۔ آر ایس ایس کے نظریہ سے سخت اختلاف رکھنے والے لوگ بھی اس کے نظریاتی تحریک ہونے کا انکار نہیں کرسکتے ۔ سابق وزیر اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ نے جب منڈل کمیشن کی سفارشات کو ایوان پارلیمان کے اندر منظور کرواکر نافذ کرنے کا ارادہ کیا تو اڈاونی نے سرکار سے حمایت واپس لے کر پورا ملک سر پر اٹھالیا۔ بات نہیں بنی تو کمنڈل لے کر رام مندر کی رتھ یاترا پر نکل کھڑے ہوئے ۔ اس کے بعداٹل سرکار میں وہ نائب وزیر اعظم بھی بنے ۔
آگے چل کر سوشیل انجینیرنگ کے نام پر ذات پات کی تقسیم میں اضافہ کر کے وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخاب توجیتا مگر پسماندہ ذاتوں کو ان کا حق نہیں دیا کیونکہ ریزرویشن اور اس کے حوالے سےسماجی مساوات ہمیشہ ہی بی جے پی کی آنکھ کا کانٹا رہا ہے۔سر سنگھ چالک موہن بھاگوت 2015میں بہار الیکشن سے قبل ریزرویشن پر نظر ثانی کا ذکر کرکے بی جے پی کی لٹیا ڈوبا چکے ہیں ۔ بہار میں جب ذات کی بنیاد پر مردم شماری کی تجویز آئی تو صوبائی بی جے پی بھی اس کی مخالفت نہیں کرسکی کیونکہ اقتدار سے چپکے رہنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی میں اقتدار کو نظریہ پر ترجیح دی جاتی ہے مگر آر ایس ایس کا معاملہ مختلف تھا جو وقت کے ساتھ بدل دیا۔ بی جے پی کو ملک میں اقتدار پر قابض رہنا ہے اس لیے آر ایس ایس والی ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کسی اورنے نہیں بلکہ خود مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کر دی۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر ۵
انہوں نے برملا کہہ دیا تھاکہ بہار حکومت کے اس طرح کی مردم شماری کرائے جانے کے پیش نظر بی جے پی ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت نہیں کرتی ۔
دسمبر 2023میں آر ایس ایس کے سینئر پرچارک اور ودربھ کے سربراہ شری دھر گھاڈگے نے مہاراشٹر کے ارکان اسمبلی کو اپنے صدر دفتر میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ، ’ہمیں اس(ذات پر مبنی مردم شماری) میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان نظر آتا ہے۔ یہ عدم مساوات کی جڑ ہے اور اسے فروغ دینا درست نہیں ہے۔امیت شاہ کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے گھاڈگے نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں کسی بھی معاملے پر اپنا موقف رکھ سکتی ہیں، لیکن آر ایس ایس یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ وہ ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت نہیں کرتی ہے۔
انہوں نے کہاتھا، ’آر ایس ایس سماجی مساوات کو فروغ دے رہی ہے۔ ہمارے ملک میں ذات پات کے نام پر پھوٹ اور دراڑپڑتی ہے۔ اگر ذات پات سماج میں عدم مساوات کی جڑ ہے تو آر ایس ایس کا ماننا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری جیسے اقدامات سے اس میں مزید اضافہ نہیں کیا جانا چاہیے‘۔ آر ایس ایس کے معروف دانشور اور قومی انتظامیہ کے رکن نیز بی جے پی کے سابق عہدیدار رام مادھو نے بھی بہار جیسی ریاستوں میں اپوزیشن حکومتوں کو خبردار کیا تھا کہ ذات پر مبنی مردم شماری سے ملک میں سماجی بد امنی پھیل سکتی ہے
ایک زمانے میں جب جن سنگھ یا بی جے پی آر ایس ایس کی مرہونِ منت تو وہ اس کے چشمِ ابرو پر سہم جاتی تھی مگر اب وقت بدل گیا۔ ویسے عمومی طور پر سنگھ کا مزاج اقتدار کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کا رہا ہے۔ انگریزوں اور کانگریس کے سامنے دُم ہلانے والے سنگھ پریوار کو خود اپنے ہی لوگوں کی ناز برداری میں کیا دقت ہوسکتی ہے؟ اس لیے ڈیمیج کنٹرول کی خاطرتنظیم کی نشرو اشاعت کے سربراہ سنیل امبیکر کو آگے کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک اور عدم مساوات سے پاک ہندو معاشرے کی تشکیل کے اپنے مقصد کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے ۔ امبیکر نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ، ’مختلف تاریخی وجوہات سے سماج کے بہت سے طبقے معاشی، سماجی اور تعلیمی نقطہ نظر سے محروم رہ گئے ہیں۔ ان کی ترقی کے لیے حکومتیں وقتاً فوقتاً مختلف اسکیمیں بناتی ہیں اور آر ایس ایس نے ہمیشہ اس کی حمایت کی ہے۔‘ اس تمہید کے بعد وہ بولے کہ ’’آر ایس ایس کی رائے ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کو سماج کی ترقی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے اور تمام جماعتوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس سے سماجی ہم آہنگی اور اتحاد کو نقصان نہ پہنچے‘‘۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی جانب سے اس نصیحت پر کانگریس مشتعل ہوگئی کیونکہ اس میں ذات پر مردم شماری کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہیں کرنے کی بات کہی گئی تھی ۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے سنگھ رہنما کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سوال کیا کہ آخر آر ایس ایس کے پاس ذات پر مبنی مردم شماری پر ویٹو کرنے کا اختیار کس نےدیا؟آر ایس ایس کے اکھل بھارتیہ پرچار پرمکھ سنیل آمبیکر نے کیرالہ کے پالکڑ میں کہا تھا کہ سنگھ کو ذات پر مبنی مردم شماری پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ڈیٹا عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر ہونہ کہ سیاسی ہتھیار کے طور پر انتخابی فوائد کے لیے اس کا استعمال کیا جائے۔ جئے رام رمیش نے اس وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ کے ذریعے مودی حکومت سے جو پانچ سوال کیے تھے وہ آج پھر پوچھے جانے چاہییں۔
سنگھ کو بھی نشانہ بناتے ہوئے جئے رام رمیش نے کہا تھا کہ ، ’’ذات پر مبنی مردم شماری پر آر ایس ایس کے پند و نصائح کچھ بنیادی سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ کیا آر ایس ایس کے پاس ذات پر مبنی مردم شماری پر ویٹو کا اختیار ہے؟ آر ایس ایس کون ہے جو ذات پات کی مردم شماری کی اجازت دے؟ آر ایس ایس جب کہتی ہے کہ انتخابی مہم کے لیے ذات پر مبنی مردم شماری کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیےتو اس سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ جج یا ایمپائر بننا نہیں ہے؟انہوں نے پوسٹ میں مزید پوچھا تھا کہ، "آر ایس ایس نے دلتوں، آدیواسیوں اور او بی سی کے ریزرویشن پر 50 فیصد کی حد کو ہٹانے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت پر پراسرار خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟ اب جب کہ آر ایس ایس نے ہری جھنڈی دکھا دی ہے، تو کیا غیر حیاتیاتی وزیر اعظم کانگریس کی ایک اور ضمانت کو ہائی جیک کرکے اور ذات پر مبنی مردم شماری کریں گے؟ اس آخری سوال کا جواب اس وقت تو نہیں مگر اب مل گیا ۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وزیر اعظم نے ان کی دانست میں ایک مہاپاپ کرہی دیا۔
کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے بھی نہایت سخت الفاظ میں آر ایس ایس کو گھیرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ اسے ملک کو واضح طور پر بتانا چاہئے کہ وہ ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں ہے یا اس کے خلاف ہے۔ کھڑگے نے نہایت لطیف طنز کستے ہوئے پوچھا تھاکہ، ’’قومی آئین کے بجائے منو اسمرتی کے حق میں رہنے والا سنگھ پریوار دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ طبقات، غریبوں اور محروم طبقہ کی شمولیت کو لے کر فکر مند ہے یا نہیں؟‘‘ کانگریس کے ایک دلت صدر کا یہ الزام حق بجانب تھا کہ ،’بی جے پی کو چلانے والی آر ایس ایس ہمیشہ ذات پر مبنی مردم شماری کے خلاف رہی ہے۔ اس پر آر ایس ایس اور بی جے پی کا موقف بالکل واضح ہے۔ دلتوں اور پسماندہ لوگوں کو ان کے حقوق کسی بھی قیمت پر نہیں ملنے چاہیے۔ اس نفرت انگیز سوچ کی وجہ سے پچھلے 100 سالوں میں آر ایس ایس کا ایک بھی صدر دلت یا پسماندہ طبقے سے نہیں بن سکا ہے۔‘ بہار میں آر جے ڈی کے ساتھ ذات کی بنیاد پر مردم شماری کرانے والے نتیش کمار چونکہ بی جے پی کے ساتھ جاچکے ہیں اس لیے آندھرا پردیش میں کانگریس نے اپنی حکومت کے ذریعہ یہ قدم اٹھا کر اپنی سنجیدگی کا ثبوت دیا۔
بی جے پی اس معاملے میں ہمیشہ ڈُھل مل رہی ہے۔ ونجارہ سماج سے تعلق رکھنے والے زعفرانی رکن سابق رکن پارلیمان گوپی ناتھ منڈے نے 2010 میں ذات پر مبنی مردم شماری کی وکالت کی تھی۔انھوں نے بڑی شد ومد کے ساتھ آواز اٹھائی تھی کہ اوبی سی کو سماجی انصاف دلانے کے لیے مذکورہ مردم شماری ضروری ہے۔ اس کے علاوہ 2018 میں سابق وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے یہ عندیہ دیا تھا کہ 2021 کی مردم شماری میں او بی سی کی تفصیلات جمع کی جائیں گی لیکن مرکزی حکومت نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا بلکہ اپوزیشن کے مطالبات کو سرد بستے کی نذر کر دیا۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نیتانند رائے نے 20 جولائی 2021 کو ایوانِ پارلیمان میں کہا تھا کہ فی الحال مرکزی حکومت نے درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے علاوہ دیگر ذاتوں کی گنتی کا کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود بی جے پی اس گاجر کو انتخابی فائدے کی خاطر لٹکائے رکھتی ہے مگر کھانے نہیں دیتی۔
آر ایس ایس کے لیے ذات پرمبنی مردم شماری بڑا نظریاتی مسئلہ ہو تب بھی نریندر مودی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ اپنے آپ کو متحدہ قومی محاذ (این ڈی اے) کا وزیر اعظم کہتے ہیں۔ اس محاذ کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ اس کی غرض و غایت اقتدار پر فائز رہ کر عیش کرناہے۔ اب مودی کے اندر بھی وہی قومی محاذ کی روح سرائیت کرچکی ہے۔پورا ملک جنگ جنگ کررہا تھا تو وزیر اعظم بیروزگار میلے میں شرکت فرما رہے تھے ۔ اس بیچ مودی جی نے اچانک ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کرکے یہ بتا دیا کہ ان کے نزدیک پہلگام سے زیادہ اہمیت کا حامل بہار ہے اور اس کی خاطر آریس ایس کے 100؍ ویں سال میں انہوں نے سنگھ کے نظریات کو بلی کا بکرا بنادیا ۔ یہ فیصلہ کرنے سے قبل انہوں نے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کو گیارہ سال بعد پہلی بار اپنے گھر بلا کر مشاورت کے لیے بلایا اور انہیں اعتماد میں لینے کے بعد اپنی ہی مادرِ تنظیم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر کمنڈل پر منڈل کی فتح کو تسلیم کرلیا ۔راہل نے ایوانِ پارلیمان میں یہی تو کہا تھاکہ ذات پر مبنی مردم شماری کےمخالف خواب دیکھ رہے ہیں ۔ یہ نہیں تو ان کے بعد والا وزیر اعظم اس کا فیصلہ کرے گا مگر کون جانتا تھا کہ خود مودی مجبور کردئیے جائیں گے ۔ اس لیے اب یہ نعرہ درست ثابت ہوچکا ہے کہ ’جھکتی ہے دنیا، بس جھکانے والا چاہیے‘۔
***

 

***

 ر ایس ایس کے لیے ذات پرمبنی مردم شماری بڑا نظریاتی مسئلہ ہو تب بھی نریندر مودی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ اپنے آپ کو متحدہ قومی محاذ (این ڈی اے) کا وزیر اعظم کہتے ہیں۔ اس محاذ کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ اس کی غرض و غایت اقتدار پر فائز رہ کر عیش کرناہے۔ اب مودی کے اندر بھی وہی قومی محاذ کی روح سرائیت کرچکی ہے۔پورا ملک جنگ جنگ کررہا تھا تو وزیر اعظم بیروزگار میلے میں شرکت فرما رہے تھے ۔ اس بیچ مودی جی نے اچانک ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کرکے یہ بتا دیا کہ ان کے نزدیک پہلگام سے زیادہ اہمیت کا حامل بہار ہے اور اس کی خاطر آریس ایس کے 100؍ ویں سال میں انہوں نے سنگھ کے نظریات کو بلی کا بکرا بنادیا ۔ یہ فیصلہ کرنے سے قبل انہوں نے سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کو گیارہ سال بعد پہلی بار اپنے گھر بلا کر مشاورت کے لیے بلایا اور انہیں اعتماد میں لینے کے بعد اپنی ہی مادرِ تنظیم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر کمنڈل پر منڈل کی فتح کو تسلیم کرلیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025