
جنگی جنون، اس کے اسباب اور اسلام کا پیغامِ امن
اگر دنیا اسلامی اصولوں کو اختیار کرے تو جنگوں کے اسباب ختم ہو سکتے ہیں اور حقیقی امن کا قیام عمل میں آ سکتا ہے
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
دنیا میں اس وقت جنگی جنون پایا جاتا ہے۔ اسرائیل نے ایران پر کئی خطرناک حملے کیے ہیں، اور ان حملوں کا مقصد یہ ہے کہ ایران کو اس قدر تباہ و برباد کر دیا جائے کہ وہاں آیت اللہ خامنہ ای کی رہنمائی کا دور ختم ہو جائے اور وہاں امریکہ و اسرائیل کی ہم نوا حکومت قائم کی جا سکے۔ لیکن ایران نے جو جوابی حملہ کیا، اس نے اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے تمام اندازے غلط ثابت کر دیے۔ اسرائیل کو آج تک اتنے شدید نقصان کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا۔ شاید یہ حملہ اسرائیل کی بربریت پر روک لگانے میں اہم کردار ادا کرے گا اور اسرائیل کو مجبور کر دے گا کہ وہ فلسطین کی ریاست کے قیام کو تسلیم کرے۔
دوسری طرف، یوکرین اور روس کی جنگ میں شدت پیدا ہو چکی ہے، اور اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ جنگ یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے۔ غزہ میں اسرائیل کی بربریت ناقابلِ بیان حد تک بڑھ چکی ہے، اور اہلِ غزہ کے قتل عام کو جاری رکھنے کے لیے نئے طریقے ایجاد کیے جا رہے ہیں۔ کچھ لوگ بمباری سے شہید ہو رہے ہیں، تو کچھ بھوک سے۔ امدادی مراکز (ایڈ سینٹرز) پر، جہاں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے، وہاں کھانا لینے والوں کو گولیاں مار کر ہلاک یا زخمی کیا جا رہا ہے۔ کھانے کے بدلے موت تقسیم کی جا رہی ہے۔
برِصغیر میں بھی جنگ بڑے پیمانے پر پھیلنے سے قبل ہی سیزفائر کے باعث روک دی گئی۔ چین کسی بھی وقت تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے، جبکہ تائیوان کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
جب بھی جنگ ہوتی ہے جان و مال کا بھاری نقصان ہوتا ہے۔ جنگ کا آغاز کرنا اختیار میں ہوتا ہے لیکن جنگ کو روکنا اختیار سے باہر ہو جاتا ہے۔ چونکہ حکم رانوں کے ہاتھ میں وسائل کے ساتھ لا محدود اختیارات ہوتے ہیں اس لیے ان کے غلط استعمال کے ہر وقت اندیشے موجود ہوتے ہیں اور جنگ کسی بھی سبب سے چھڑ سکتی ہے اور امن وامان جنگ وجدل میں بدل سکتا ہے۔ دنیا میں جب بھی امن و امان قائم ہوا، انسانیت نے ترقی کی، علم و ہنر پھلا پھولا، تہذیبیں بنیں زندگی آسان ہوئی۔ مگر جب جنگوں کا آغاز ہوا تو خونریزی، تباہی، غربت، فاقہ کشی اور اخلاقی انحطاط نے انسانیت کو گھیر لیا۔ تاریخ کی بڑی بڑی جنگیں نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنیں بلکہ دنیا کے نقشے کو بدل دینے والی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی بنیں۔ اس مضمون میں ہم عالمی جنگوں کے اسباب، حالیہ جنگوں کی نوعیت اور اسلام کے اصولِ جنگ و امن پر روشنی ڈالیں گے۔
جنگوں کے اسباب:
جنگوں کے عمومی اسباب میں نسلی برتری، طاقت ور ملکوں کا کم زور ملکوں کے وسائل پر قبضہ، خود غرض قوم پرستی، توسیع پسندی اور مذہبی عصبیت شامل ہیں۔
۱۔ نسلی برتری (Racial Supremacy):
سفید فام نسل کی برتری کے نظریے کی بنیاد پر امریکہ اور آسٹریلیا کی مقامی قبائلی آبادی کا یورپی اور برطانوی نوآبادیاتی طاقتوں کے ہاتھوں قتلِ عام کیا گیا۔ لاکھوں افراد مارے گئے اور جو بچے، وہ بھی بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے۔
نازی جرمنی میں ’’آریائی نسل‘‘ کو باقی تمام نسلوں سے برتر سمجھا گیا۔ اس نظریے کے تحت لاکھوں یہودی، جپسی اور دیگر اقلیتیں قتل کر دی گئیں۔ یہی نسل پرستی دوسری جنگِ عظیم کا بنیادی سبب بنی۔ جب ہٹلر نے پولینڈ، فرانس، روس اور چیکوسلواکیہ پر حملے کیے تو نتیجتاً وہ ہول ناک جنگ برپا ہوئی جس میں 7 کروڑ سے زائد انسان مارے گئے۔
بھارت میں گپتا اور شنگ سلطنتوں کے دوران بودھ مذہب کے ماننے والوں کا قتلِ عام ہوا اور ان کے مذہبی مقامات پر قبضہ کرلیا گیا۔ بودھ مت کی پسپائی بارہویں صدی تک جاری رہی۔
جب کوئی قوم یا ریاست یہ سمجھنے لگے کہ ان کی نسل باقی انسانوں سے افضل ہے تو وہ دوسروں کو کمتر جان کر ان پر ظلم، استحصال اور جارحیت کو جائز سمجھنے لگتی ہے۔ یہی تعصب انسانوں کو ’’اعلیٰ‘‘ اور ’’ادنیٰ‘‘ طبقات میں تقسیم کرکے ظلم کو جواز فراہم کرتا ہے۔
بھارت میں ذات پات کا نظام اسی احساسِ برتری کا شاخسانہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرستی نے اپارتھائیڈ جیسی صورتحال پیدا کی، جہاں تعلیم، روزگار اور رہائش کو’’اعلیٰ نسل‘‘ سے جدا کر دیا گیا۔
اسی طرح یہودی صہیونیت ، جو اپنے آپ کو ’’خدا کا چنا ہوا گروہ‘‘ قرار دیتی ہے ، فلسطینیوں کو کمتر سمجھتی ہے، اور ان پر مسلسل 77 سال سے فوجی تسلط اور ظلم کی بدترین مثال پیش کرتی آ رہی ہے۔ صہیونی ذہنیت بچوں اور عورتوں کو بمباری کا نشانہ بنانے کو ’’ضروری‘‘ سمجھتی ہے، جیسے کسی کیڑے کو مارنا ہو۔
اگر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فضیلت دی تھی تو وہ فضیلت مشروط تھی، جیسا کہ امتِ مسلمہ سے متعلق فرمایا گیا (آل عمران: 110)۔ لیکن ان وعدوں کو نسل پرستی کی بنیاد بنا کر دیگر اقوام پر ظلم کو جائز سمجھنا بہت بڑی گم راہی ہے۔
۲۔ وسائل پر قبضہ:
طاقت ور اقوام کی جانب سے کم زور ممالک کے تیل اور معدنیات جیسے وسائل پر قبضہ جنگوں کا بڑا محرک رہا ہے۔ نوآبادیاتی نظام اسی سوچ کا نتیجہ تھا، جس میں یورپی طاقتوں نے کم زور قوموں پر سیاسی، معاشی اور فوجی غلبہ قائم کیا۔ پھر ان کے تعلیمی نظام کو بدل کر ذہنی غلامی پیدا کی گئی، جس کے نتیجے میں وہ اپنی تہذیب، ثقافت اور زبان سے محروم ہو گئیں۔
برصغیر پر برطانیہ کا تسلط (1858–1947) اس کی نمایاں مثال ہے۔ آغاز ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہوا، اور 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد تاجِ برطانیہ نے براہِ راست حکومت سنبھال لی۔ اس کے بعد وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کی گئی۔
1943ء کا بنگال قحط، جس میں 30 تا 40 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے، برطانوی سامراج کی ظالمانہ پالیسیوں کا نتیجہ تھا، جہاں جان بوجھ کر اناج ضبط کیا گیا۔
اسی طرح برطانیہ نے جنوبی افریقہ، نائجیریا، گھانا، کینیا، یوگنڈا وغیرہ پر قبضہ کیا، جہاں آزادی کی تحریکوں کو سختی سے کچلا گیا۔ افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ بدترین نسل پرستی برتی گئی۔
1917ء کے بالفور اعلامیہ نے فلسطین میں یہودی آبادکاری کی بنیاد رکھی، جو 1948ء میں اسرائیل کے قیام پر منتج ہوئی۔ تب سے فلسطینیوں کی زمین پر مسلسل قبضے اور ان کی جبری بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر جنگ اسرائیل کے رقبے میں اضافہ کا ذریعہ بنتی ہے۔
اسی طرح فرانس نے الجزائر (1830-1962) پر قبضہ کیا، لاکھوں افراد قتل کیے اور ان کی زبان و مذہب کو مٹانے کی کوشش کی۔ ویت نام، لاوس اور کمبوڈیا میں فرانس کے نوآبادیاتی تسلط (1887-1954) کے بعد امریکہ نے ویتنام پر تسلط کی کوشش کی جو 20 سالہ طویل جنگ کے بعد ناکام ہوئی۔
اٹلی نے لیبیا پر قبضہ کیا (1911-1943) اور عمر مختار جیسے مجاہدین کی مزاحمت کو کچلا۔ ایتھوپیا پر 1935-1941 میں حملے کے دوران کیمیکل ہتھیار استعمال کیے گئے، جس میں ایک لاکھ افراد مارے گئے۔
امریکہ کا جدید نوآبادیاتی نظام (Neo-Colonialism)
امریکہ نے افغانستان پر 2001ء میں القاعدہ کے خلاف کارروائی کی آڑ میں حملہ کیا اور 20 سال تک قابض رہا۔ 2003ء میں عراق پر مہلک ہتھیاروں کی جھوٹی بنیاد پر حملہ کیا گیا، جس سے لاکھوں افراد ہلاک اور ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔
امریکہ نے جنوبی امریکہ کے کئی ممالک (جیسے وینزویلا، چلی، کیوبا) میں حکومتیں گرانے اور معاشی پابندیاں لگانے کی کوشش کی۔ اس طرح وہ نوآبادیاتی نظام کے جدید ورژن کے ذریعے کم زور اقوام کو غلامی، فقر و فاقہ اور بدامنی کی دلدل میں دھکیلتا رہا۔
۳۔ خود غرض قوم پرستی (Nationalism):
اپنی زبان، ثقافت، وطن اور قومی ورثے سے محبت فطری جذبہ ہے، لیکن جب یہی جذبہ دوسروں کو حقیر سمجھنے لگے تو وہ نسل پرستی یا قوم پرستی کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جہاں قومی مفاد کے نام پر ظلم کو بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔
برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے اسی سوچ کے تحت دوسری اقوام پر مظالم ڈھائے۔
یہودیوں کا گریٹر اسرائیل کا خواب لاکھوں فلسطینیوں کی تباہی کا سبب بن چکا ہے۔
بھارت میں برہمن قوم پرستی نے صدیوں سے دیگر ذاتوں اور قبائل پر ظلم ڈھایا ہے۔ اسی پس منظر میں ہندو قوم پرستی (ہندوتوا) نے اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
انگریزوں نے ہندو مسلم اتحاد کو نقصان پہنچانے کے لیے تاریخی حقائق کو مسخ کیا اور مسلم حکم رانوں کو ظالم قرار دے کر نفرت کی بنیادیں رکھیں، جنہیں ہندوتوا تحریک نے اپنایا۔
یہی نظریہ بھارت کی تقسیم کا سبب بنا۔ اگر یہ جھوٹا اور زہریلا نظریہ ایجاد نہ کیا جاتا تو ملک متحد رہ سکتا تھا۔
بدھ قوم پرستی نے بھی روہنگیا مسلمانوں کو بے دخل کرکے انسانی بحران کو جنم دیا۔
۴۔ توسیع پسندی اور طاقت کا جنون:
بڑی طاقتوں کے درمیان فوجی اور عسکری مقابلہ بازی نے دنیا کو مختلف بلاکس میں تقسیم کر دیا۔ ان کے براہِ راست ٹکراؤ کی بجائے کم زور ممالک کو جنگوں میں جھونکا گیا۔
اسلحہ، قرض، معاہدے، میڈیا، تعلیم اور ثقافت کے ذریعے مغربی طاقتیں اب بھی اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہیں۔
وہ غریب ممالک میں اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرتے ہیں، چاہے وہ بدعنوان اور عوام دشمن ہوں۔
مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل السیسی کو اقتدار سونپنا اس کی ایک مثال ہے۔
میڈیا کے ذریعے مظلوم کو دہشت گرد اور ظالم کو ’’امن پسند‘‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
اسی منفی کھیل میں اسرائیل کی بمباری ’’دفاع‘‘ کہلاتی ہے اور فلسطینی مزاحمت ’’تشدد‘‘!
۵۔ مذہبی جارحیت:
تاریخ کی بعض جنگیں مذہب کے نام پر لڑی گئیں، جن میں صلیبی جنگیں نمایاں مثال ہیں۔ یہ سلسلہ ۱۱ویں صدی کے آخر میں پاپائے روم کی اپیل پر ۱۰۹۵ء میں شروع ہوا اور تقریباً دو صدیوں تک جاری رہا۔ ان جنگوں کا بظاہر مقصد بیت المقدس کو ’’مسلمانوں سے آزاد‘‘ کرانا تھا، لیکن درحقیقت رومن کیتھولک چرچ اپنے سیاسی اور مذہبی اقتدار کو وسعت دینا چاہتا تھا۔ مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کر کے چرچ نے یورپی عوام کے جذبات کو بھڑکایا، جبکہ بادشاہوں اور امراء نے اس موقع کو اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے استعمال کیا۔
پہلی صلیبی جنگ میں ہزاروں یورپی عیسائی ’’مقدس جنگ‘‘ کے نعرے کے تحت مشرقِ وسطیٰ پہنچے اور ۱۰۹۹ء میں بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ اس حملے میں ستر ہزار سے زائد مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ دوسری صلیبی جنگ (۱۱۴۷ء۔۱۱۴۹ء) میں مسلمان حکم رانوں نے کچھ علاقے بازیاب کرائے، جس کے بعد نورالدین زنگی اور عمادالدین نے صلیبیوں کو شکست دی۔ تیسری صلیبی جنگ کے بعد بالآخر صلاح الدین ایوبی نے ۱۱۸۷ء میں بیت المقدس کو دوبارہ فتح کیا، لیکن اپنی بے مثال رحم دلی اور عدل کے مظاہرہ سے کوئی قتل عام نہیں کیا، عیسائیوں کو امان دی، ان کے چرچ محفوظ رکھے اور قیدیوں کو رہا کیا۔ یورپی مؤرخین نے بھی صلاح الدین ایوبی کے انصاف اور انسان دوستی کی تعریف کی ہے۔
۱۲۹۱ء میں جب مسلمانوں نے عکہ کا قلعہ فتح کیا تو صلیبی جنگوں کا اختتام ہوا۔ ان جنگوں میں لاکھوں افراد جان سے گئے، شہر تباہ ہوئے، لیکن اس کا ایک غیر متوقع اثر یہ ہوا کہ یورپی اقوام نے مسلمانوں سے سائنس، طب، اور فلسفہ کا علم حاصل کیا، جو آگے چل کر یورپ کی نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کی بنیاد بنا۔
عالمی جنگیں، اسباب اور تباہ کاریاں:
اب ہم بیسویں صدی کی دو عظیم جنگوں پر نظر ڈالتے ہیں، جنہوں نے دنیا کی سیاست، معیشت اور جغرافیہ کو بدل کر رکھ دیا۔
جنگِ عظیم اوّل (۱۹۱۴۔۱۹۱۸)
اس جنگ میں ایک کروڑ سے زائد انسان ہلاک ہوئے اور یورپ کی معیشت تباہ ہو گئی۔ سلطنتِ عثمانیہ کا زوال بھی اسی جنگ کا ایک اہم نتیجہ تھا۔ انیسویں صدی کے اختتام پر بڑی طاقتیں— برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، آسٹریا-ہنگری اور خلافتِ عثمانیہ— ایک دوسرے پر سبقت لینے کی دوڑ میں شامل تھیں۔ قومی تفاخر، عسکری جنون اور سامراجی حرص اس جنگ کے بنیادی محرکات بنے۔
جنگ کی چنگاری اس وقت بھڑکی جب آسٹریا کے ولی عہد کو ایک سرب قوم پرست نے قتل کر دیا۔ جواب میں آسٹریا نے سربیا پر حملہ کیا جس کے بعد یورپ بھر میں جنگ بھڑک اٹھی اور دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہو گئی:
مرکزی طاقتیں (Central Powers): جرمنی، آسٹریا-ہنگری، سلطنتِ عثمانیہ
اتحادی طاقتیں (Allied Powers): برطانیہ، فرانس، روس، امریکہ، اٹلی
عثمانی خلافت نے جرمنی کا ساتھ دیا، جس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں بھی جنگ پھیل گئی۔ ۱۹۱۷ء میں امریکہ کی شمولیت سے اتحادیوں کو فیصلہ کن برتری حاصل ہوئی۔ اس جنگ کا سب سے بڑا نقصان خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کی صورت میں ہوا، جو ٹکڑوں میں بٹ کر ۳۰ سے زائد ممالک میں تقسیم ہو گئی۔
اسی جنگ کے دوران روس میں بالشویک انقلاب برپا ہوا اور کمیونزم کا آغاز ہوا۔ امریکہ ایک اقتصادی سوپر پاور بن کر ابھرا۔ برطانیہ نے بالفور ڈکلیریشن (۱۹۱۷ء) کے تحت فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ جنگ کے بعد وارسا معاہدہ (۱۹۱۹ء) کے تحت جرمنی کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھیرا کر اس پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں، جس نے جرمن عوام میں شدید غصہ اور انتقام کے جذبات پیدا کیے۔ یہی جذبات بعد میں ہٹلر کے عروج اور دوسری جنگِ عظیم کا سبب بنے۔
جنگِ عظیم دوم (۱۹۳۹–۱۹۴۵):
یہ جنگ ہٹلر کی توسیع پسندی اور نازی نسل پرستی کے نظریے کا شاخسانہ تھی۔ ۱۹۱۹ء کے وارسا معاہدے کی سخت شرائط نے جرمنی کی معیشت کو تباہ کر دیا تھا، جس کا فائدہ ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی نے اٹھایا۔
یکم ستمبر ۱۹۳۹ء کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں برطانیہ اور فرانس نے جنگ کا اعلان کر دیا۔ جلد ہی جرمنی نے فرانس، ناروے، ڈنمارک، یوکرین اور نیدرلینڈز سمیت یورپ کے بیشتر حصوں پر قبضہ کر لیا۔ ۱۹۴۱ء میں جاپان کے پرل ہاربر پر حملے کے بعد امریکہ بھی جنگ میں شریک ہو گیا۔ ادھر سوویت یونین نے بھی جرمنی کے خلاف مشرقی محاذ کھولا۔
ہٹلر نے آریائی نسل کو برتر قرار دے کر یہودیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف منظم نسل کشی کی، جسے ہولوکاسٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی جنگ میں تاریخ میں پہلی بار ایٹم بم کا استعمال ہوا، جب امریکہ نے جاپان کے دونوں شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملہ کیا۔
جنگ کے بعد اسرائیل کا قیام (۱۹۴۸ء) عمل میں آیا اور فلسطین کا المیہ شروع ہوا۔ دنیا دو عالمی طاقتوں— امریکہ اور سوویت یونین— میں تقسیم ہو گئی۔ اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا، لیکن ویٹو پاور نے اسے عالمی انصاف کے بجائے بڑی طاقتوں کا آلہ کار بنا دیا۔
اسلام کا نظریہ جنگ:
اسلام میں جنگ کو صرف دفاع اور ظلم کی روک تھام کے لیے جائز قرار دیا گیا ہے، نہ کہ طاقت، توسیع یا مفادات کے لیے؟ اسلام ظلم کو سختی سے منع کرتا ہے اور عدل کو بنیادی قدر قرار دیتا ہے:
’’اللہ انصاف کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (النحل: ۹۰)
’’اور حد سے نہ بڑھو، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(البقرہ: ۱۹۰)
اسلامی تعلیمات کے مطابق جنگ صرف انہی کے خلاف کی جا سکتی ہے جو خود حملہ آور ہوں اور اس میں بھی اخلاقی حدود کا پاس ضروری ہے۔
اسلام ان تمام منفی محرکات کی نفی کرتا ہے جو دنیا کی جنگوں کا سبب بنے، جیسے نسل پرستی، تعصب، خود غرضی اور طاقت کی ہوس۔ وہ ظلم کے مقابلے میں عدل اور انتقام کے بجائے عفو و درگزر کی تعلیم دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کو ’’رحمت للعالمین‘‘ بنا کر بھیجا گیا، جن کی پوری حیات امن، معاہدے، حسنِ سلوک اور درگزر سے معمور ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:
’’کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر، اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔‘‘ (مسند احمد)
اسلام وحدتِ انسانیت کا علم بردار ہے اور ہر انسان کو برابر تسلیم کرتا ہے (الحجرات: ۱۳)۔ خلفائے راشدین نے مفتوحہ علاقوں میں اقلیتوں کو مذہبی، ثقافتی اور شہری آزادی دی، ان کے وسائل کی حفاظت کی اور عدل کا نظام قائم کیا۔اگر دنیا اسلامی اصولوں کو اختیار کرے تو جنگوں کے اسباب ختم ہو سکتے ہیں اور حقیقی امن کا قیام عمل میں آ سکتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025