جنگوں کی نئی ٹیکنالوجی: سفید ہاتھی بنتی جارہی ہے

ڈرون، ڈوم اور دفاع: ٹیکنالوجی کے نام پر عسکری معیشت کا فریب

0

تحریر: پنکج پھٹسے
مترجم: ڈاکٹر ضیاءالحسن، ناندیڑ
q

آپریشن ’’سندور‘‘ میں استعمال ہونے والے خودکش ڈرونز سے لے کر غزہ میں آزمائی جانے والی خودکار ’’گاسپل‘‘ تکنیک تک کا مطالعہ اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی نے جنگوں کے نقشے کو بڑی حد تک بدل دیا ہے۔ کم خرچ میں دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا، جنگ کا بنیادی اصول مانا جاتا رہا ہے۔ یہی اصول سرد جنگ کے دوران "ٹیکنالوجی پر مبنی عسکری انقلابات” Revolution in Military Affairs(RMA) کے تصور کا محرّک بنا، جس کے تحت جنگی حکمت عملی میں ٹیکنالوجی نے مرکزی مقام حاصل کر لیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی پر مبنی جنگی طریقوں میں انسان کا کردار کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، جب کہ ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت میں زبردست اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث جنگی اخراجات بظاہر گھٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک مغالطہ ہے اور دراصل سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ کیا جنگیں واقعی سستی ہو رہی ہیں؟ یہی سوال جنگوں کی توسیع پر روک لگانے کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈرون انقلاب
ڈرون اور بغیر انسان کے چلنے والے اسلحے کی آمد سے جنگ میں انسانی شمولیت میں کمی آ چکی ہے۔ کارگل جنگ میں چونکہ دراندازوں نے اسٹریٹیجک مقامات پر پہلے سے قبضہ کر لیا تھا، ہمیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ مہنگی توپیں جیسے بوفورس اور فضائی حملے، جنگ کے خرچ کو مزید بڑھا گئے۔ لیکن اب خودکش ڈرونز کے ذریعے ایسی مہمات کم خرچ میں مؤثر طریقے سے انجام دی جا سکتی ہیں۔
یوکرین جنگ کی حالیہ مثالیں بتاتی ہیں کہ محض 500 ڈالر کی لاگت والا ڈرون لاکھوں ڈالر کے ٹینک اور گولہ بارود تباہ کر سکتا ہے۔ یہی دیکھتے ہوئے یوکرین نے 2024 میں ایک ملین ڈرون تیار کرنے کا ہدف رکھا۔ کم لاگت والے "کواڈ کاپٹر” ڈرونز نے کمزور فوجوں کو طاقتوروں کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔
تاہم ان ڈرونز کی مؤثر کارکردگی کے لیے ایک وسیع حفاظتی نظام، تربیت یافتہ کنٹرولر اور ڈرون شکن راڈار و جیمرز کی ضرورت پڑتی ہے، جو مجموعی طور پر لاگت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسرائیل کا ’’آئرن ڈوم‘‘ اس کی واضح مثال ہے، جہاں چند ڈالر کے راکٹ کو روکنے کے لیے ہزاروں ڈالر کا دفاعی میزائل داغا جاتا ہے۔ گویا چار آنے کی جنگ کے لیے بارہ آنے کا دفاع ناگزیر ہو چکا ہے۔
لڑاکا طیارے
روایتی بموں کو آج ’’غبی‘‘ یا ’’کم عقل‘‘ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے ہدف کی سمت میں کوئی ذہانت نہیں رکھتے۔ جب کہ "اسمارٹ بم” جنہیں کروز میزائل کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، اپنے ہدف کو ٹھیک نشانہ بناتے ہیں۔ کم عقل بم کو اسمارٹ بم بنانے کے لیے تقریباً دس ہزار ڈالر درکار ہوتے ہیں۔
امریکہ کا F-35 طیارہ جس کی لاگت 1.7 ٹریلین ڈالر ہے، دنیا کا مہنگا ترین دفاعی پراجیکٹ ہے۔ اسے اڑانے کے دوران درجۂ حرارت بڑھنے کے مسئلے پر تحقیق کے لیے بھی اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ بھارت نے بھی کئی میزائل بنائے، جیسے 3-MK، لیکن انہیں صرف ’’تیجس‘‘ طیارے میں خاطر خواہ کامیابی ملی۔
بھارت کا دفاعی بجٹ بڑھا ضرور ہے لیکن تنخواہوں اور پنشن کی کٹوتی کے بعد ٹیکنالوجی اپنانے کے لیے فوج کے پاس صرف 30 فیصد رقم بچتی ہے۔ چین کے مقابلے میں بھارت کو پانچ گنا زیادہ دفاعی خرچ کرنا پڑ رہا ہے جو اسے زبردست دباؤ میں رکھتا ہے۔
کثیر جہتی جنگیں
آج کی جنگیں صرف بندوقوں اور میزائلوں تک محدود نہیں رہ گئیں۔ ڈیجیٹل اور Cognitive Dimension کے سبب سائبر حملوں کو کم خرچ اور مؤثر حربے کے طور پر اپنایا جا رہا ہے۔ لیکن ایسے حملوں سے بچنے کے لیے بڑے پیمانے پر پیچیدہ دفاعی نظام قائم کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
2010ء میں ایران کے جوہری پروگرام پر مشہور سائبر حملہ ’Stuxnet‘ کے ذریعے کیا گیا جس کے نتیجے میں ایران کا جوہری منصوبہ تقریباً دو دہائی پیچھے چلا گیا۔ جنگی حملوں کے مقابلے میں ایسے سائبر حملے کہیں کم خرچ ہوتے ہیں، مگر ان کے ممکنہ جوابی ردِعمل، خاص طور پر روایتی طریقے سے ابھی بھی پوری طرح سمجھ میں نہیں آ سکے ہیں۔
مصنوعی ذہانت، الگورتھمز، مواصلاتی سیٹلائٹس، شہری علاقوں کو نشانہ بنانے کی حکمتِ عملی، اور ’ریل گن پراجیکٹ‘ جیسی نئی ٹیکنالوجیز—جس میں روایتی میزائلوں کے مقابلے میں برق رفتار (تقریباً پانچ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ) گولہ بارود فائر کیا جا سکتا ہے—کے استعمال سے جنگ کے اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسا بھی اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب فوجی کارروائیوں میں انسانی جانوں کے ضیاع کا امکان کم ہو تو سیاسی قیادت دشمن پر حملے کے لیے زیادہ آمادہ ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر افغانستان کی جنگ کے دوران امریکی افواج کی ہلاکتوں کے بعد جنگ مخالف فضا بن گئی تھی جس کے نتیجے میں وہاں ڈرون اور فضائی حملوں کو ترجیح دی گئی۔ تاہم، اس طرح کی خودکار تکنیکوں کی خامیوں کے باعث سرحد پار دشمن کو پہنچنے والی تکالیف اور جانی نقصانات، بین الاقوامی سطح پر اخلاقی ہمدردی اور حمایت حاصل کرنے کا جواز بن جاتے ہیں۔
جدید اسلحوں کا مقصد صرف جنگ جیتنا نہیں بلکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا اور حریفوں پر دھاک بٹھانا بھی ہے۔ شمالی کوریا کے کِم خاندان نے بین البراعظمی میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے ذریعے بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ چین نے بھی اسٹیلتھ فائٹر طیارے اور جدید بحری جہاز اپنے بیڑے میں اسی مقصد کے تحت شامل کیے ہیں تاکہ اپنی عسکری طاقت اور تکنیکی صلاحیتوں سے دنیا کو متاثر کیا جا سکے۔
میزائل تجربے مشترکہ فوجی مشقیں اور سائبر حملوں کی صلاحیت کو آج کی ٹیکنالوجی کی دنیا میں دشمنوں اور دوستوں دونوں کے لیے ایک پیغام کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی اب محض ہتھیار نہیں رہی بلکہ ایک سیاسی زبان بن چکی ہے۔
دنیا نے دیکھا کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے دوران اسلحہ کی دوڑ جاری تھی، جس پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ اگر اس وقت امن، طاقت کی اس دھاک کا نتیجہ تھا، تو آج کے دور میں اسی قسم کا امن قائم کرنا نہایت مہنگا ثابت ہوگا۔
ٹیکنالوجی کی جنگ کی صورتیں وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہیں، مگر ان کی بنیادی سیاسی معیشت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ سستے ڈرونز، انتہائی جدید اسمارٹ میزائل اور مصنوعی ذہانت (AI) سے چلنے والے سینسرز کی وجہ سے جنگی حکمتِ عملی میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں، جس سے انسانی جانوں کے ضیاع میں کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم، دفاعی اخراجات میں اضافے، غیر منقولہ جائیداد کے نقصانات اور کثیر جہتی تصادم کی صورت میں معیشت کے ساتھ ساتھ جنگ کی اخلاقی قدریں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
ٹیکنالوجی کی ترقی جنگی قدروں کے مرکزی دھارے کو بے شمار رگ و ریشوں میں بانٹ دیتی ہے، جس کے نتیجے میں بظاہر اس کے مثبت اثرات نظر آتے ہیں۔ لیکن جیسے داخلی خون رسنے (internal haemorrhage) کی صورت میں جسم کی ہزاروں رگیں خاموشی سے متاثر ہوتی ہیں، ویسے ہی جنگی ٹیکنالوجی کے اثرات بھی اندر ہی اندر معاشرے کے کئی پہلوؤں کو نقصان پہنچاتے ہیں جنہیں اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ (بشکریہ روزنامہ لوک ستا)
(نوٹ: مضمون نگار، ٹیکنالوجی اور سیاست کے موضوع پر تحقیق سے وابستہ ایک یونیورسٹی اسکالر ہیں)

 

***

 جدید اسلحوں کا مقصد صرف جنگ جیتنا نہیں بلکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا اور حریفوں پر دھاک بٹھانا بھی ہے۔ شمالی کوریا کے کِم خاندان نے بین البراعظمی میزائلوں اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے ذریعے بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ چین نے بھی اسٹیلتھ فائٹر طیارے اور جدید بحری جہاز اپنے بیڑے میں اسی مقصد کے تحت شامل کیے ہیں تاکہ اپنی عسکری طاقت اور تکنیکی صلاحیتوں سے دنیا کو متاثر کیا جا سکے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025