جنوب مشرقی فرانس میں توہین آمیز خاکوں پر احتجاج کی پاداش میں دس سالہ مسلم طلبا کے گھروں پر پولیس کا چھاپہ

 

جنوب مشرقی فرانس کے شہر البرٹ ویل میں پولیس نے ’’دہشت گردی کی ستائش‘‘ کے لیے چار اسکولی بچوں کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے کیونکہ10 سالہ بچوں کو اپنے عقیدے کے مطابق، خدا کے آخری رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے قبول نہیں تھے نہیں۔

سرکاری اسکولوں میں مبینہ طور پر منعقدہ ایک مشاورتی اجلاس کے دوران ، فرانس میں ترک نژاد تین مسلمان طلباء اور عرب نسل سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ فرانسیسی اسکول ٹیچر سموئیل پیٹی کے قتل پر معذرت خواہ ہیں جس کونبی ﷺ کے توہین آمیز کارٹون پیش کرنے پر گذشتہ ماہ ایک نوعمر طالب علم نے قتل کردیا تھا۔

ان تینوں نے کہا کہ انہوں نے پیٹی کے قتل کی مذمت کی ہے ، لیکن غیر سنجیدہ خاکوں کو بھی قبول نہیں کیا ہے ۔

مشاورتی اجلاس ختم ہونے کے بعد ، فرانسیسی پولیس نے ان کے گھروں پر چھاپے مارے۔ ٹی آر ٹی ورلڈ سے بات کرتے ہوئے ، ان طلبا میں سے ایک کےوالد نے اس خوفناک چھاپے کا ذکر کرتے ہوئے، کہا ’’ہم اپنے دروازوں پر مسلح پولیس کے ساتھ جاگےتھے۔ ان میں سے 10 کے قریب لمبے بیرل والے ہتھیاروں سے ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔ بچے اپنی نیند سے بیدار ہوئے اور انہوں نےہمیں پاجامے میں لونگ روم میں اکٹھا کیا۔ گھر کی تلاشی لیتے ہوئے انہوں نے ہمیں بٹھائے رکھا ، خصوصاً میری بیٹی کا کمرہ زیادہ محتاط انداز میں چیک کیا، اس کی کتابیں یہاں تک کہ ہماری دیواروں پر موجود اسلامی خطاطی کے فریموں کی تصاویر بھی چیک کیں۔‘‘

پولیس ان کی بیٹی کو ’’دہشت گردی کی ستائش‘‘ کے الزام میں تھانے لے گئی۔ انہوں نے اس کے والدین سے پوچھ گچھ کے لیے صبح 9 بجے تھانے آنے کو کہا۔

’’پولیس نے ہم سے ، میری اور میری اہلیہ سے دو دو گھنٹے تک پوچھ گچھ کی کہ’ کیا آپ نماز کے لیے مسجد جاتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا آپ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں؟ کیا آپ کی مسجد میں کوئی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں؟ آپ مزاحیہ خاکوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ ‘وغیرہ۔ میں نے ان سے کہا ، ہمارا نبی ہم سب کو، تمام مسلمانوں کو عزیز ہے اور ہمیں یہ مناسب نہیں لگتا، لیکن میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ ہم اساتذہ کے قتل کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔”

بچی کے والد کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران ان کی اہلیہ اور خاندان کے باقی افراد سے ایک جیسے سوالات پوچھے گئے تھے۔

’’ہمارے ساتھ دہشت گردوں کی طرح سلوک کیا گیا۔ انہوں نے ہمارے مگ شاٹس ، فنگر پرنٹس لیے اور انہوں نے میری بیوی سے بھی کہا کہ وہ فوٹو گراف کے لیے اس کا ہیڈ اسکارف اتار دیں۔ ہم پچھلے 20 برسوں سے یہاں بغیر کسی مجرمانہ ریکارڈ کے رہ رہے ہیں۔ میرے چاروں بچوں میں سے کسی کو بھی اسکول یا پولیس سے کبھی تکلیف نہیں ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ مجھ سے پوچھ گچھ کے دوران حالیہ اردگان میکروں تنازع پر میری رائے کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔ میں نے فرانسیسی پولیس سے زور دے کر کہا کہ وہ ہمیں اپنی سیاست میں شامل نہ کریں۔

والدین کو اپنی بیٹی کو تھانے میں دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ طالبہ کوجمعرات کی شام 5:30 بجے کے قریب رہا کیا گیا تھا۔ اس کے والد کا کہنا ہے کہ ، ’’جب پولیس اسے صبح لے گئی تو وہ رو رہی تھی۔ بعد میں اسے تھانے لے جایا گیا جہاں ان سے تفتیش کی گئی اور پوچھ گچھ کے دوران فلم بندی کی گئی۔ اس کی رہائی کے عدالتی فیصلے تک اسے قریب 11 گھنٹے رکھا گیا تھا۔ اسے اپنے بیان پر دستخط کرنے تھے لیکن پولیس نے ہمیں کسی دستاویزات کی کاپی دینے سے انکار کردیا۔

اہل خانہ کو لگتا ہے کہ انہیں پولیس اور اسکول نے بلیک لسٹ کیا ہے۔وہ کہتے ہیں، ’’ہم اپنے 22 سالہ بیٹے کو گھر سے نکلتے وقت مزید محتاط رہنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ ہم طالبہ کی میڈیکل رپورٹ کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے کیونکہ وہ صدمے سے باہر نہیں آئی ہے۔ ہم اب یہ اسکول تبدیل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔‘‘