جماعت اسلامی ہند پر حکومت کیرالا کے بے بنیاد الزامات کا پردہ چاک
وزیر اعلیٰ پنارائی وجین دائیں بازو گروپوں کے ساتھ اپنے سمجھوتوں سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں
ارشد شیخ، نئی دلی
جماعت ہمیشہ سے’سدبھاونا منچ‘ اور ’دھارمک جن مورچہ‘ جیسے پلیٹ فارموں کے قیام میں پیش پیش رہی ہے تاکہ معاشرے میں فرقہ وارانہ اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے
کیرالا کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے حال ہی میں ایک کتاب کی رسمِ اجرا کی تقریب میں کہا کہ جماعت اسلامی ہند ایک "جمہوریت مخالف” اور "سامراجی” تنظیم ہے۔ معلوم ہو کہ وزیر اعلیٰ کی یہ باتیں بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔ ان بیانات سے نہ صرف ایک آئینی دائرے میں کام کرنے والی قانونی تنظیم پر حملہ ہوا ہے بلکہ اس سے ایک وقتی سیاسی فائدے کے لیے عوامی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش بھی ظاہر ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی ہند انصاف، بھائی چارہ اور پُر امن بقائے باہمی کے فروغ کے لیے پُر عزم ہے، اور ایسے بیانات جو کسی اعلیٰ سرکاری عہدے دار کی جانب سے دیے جائیں ان کی وضاحت اور مخالفت ضروری سمجھتی ہے۔ جماعت اسلامی کے نزدیک اس طرح غلط فہمیوں کو دور کرنا، بے بنیاد الزامات کا جواب دینا اور ان بیانات کے پیچھے موجود سیاسی مقاصد کو بے نقاب کرنا بھی ضروری ہے۔
بے بنیاد الزامات
وزیر اعلیٰ وجین نے اپنی جماعت کے رکن پی جیاراجن کی کتاب "کیرالا مسلم راشٹریہ اور راشٹریہ اسلام” کی تقریب میں جماعت اسلامی ہند پر الزام لگایا کہ وہ معاشرے کو خلافت کے دور میں لے جانا چاہتی ہے اور ایک اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے جماعت کو آر ایس ایس کے "اسلامی ورژن” سے تعبیر کرتے ہوئے دونوں کو سیکولر جمہوریت کے مخالف قرار دیا۔ مزید براں، انہوں نے جماعت اسلامی ہند پر یمن کے شیعہ گروہوں، مصر کے اخوان المسلمون اور امریکہ کے ساتھ روابط رکھنے کا الزام بھی عائد کیا۔ ان کے بقول جماعت اسلامی ہند تشدد پر مبنی بغاوتوں میں ملوث ہے اور ریاستوں کو محض مذہبی تناظر میں دیکھتی ہے۔
جماعت اسلامی کو ایک انتہاپسند تنظیم کے طور پر پیش کرنا ایک سنگین بدگمانی ہے۔ جماعت اسلامی ہند ہندوستان میں دہائیوں سے تعلیم، سماجی خدمت اور عدل و اخلاقیات کے لیے پرامن جدوجہد کر رہی ہے۔ جماعت کو آر ایس ایس کے ساتھ موازنہ کرنا اور اسے تشدد سے جوڑنا اس کے مشن کو مسخ کرنا ہے جو کسی بھی اسلامی تنظیم کو باغی اور غیر آئینی ظاہر کرنے کی بدنیتی کو آشکار کرتا ہے۔
جماعت اسلامی ہند: آئین پر کاربند ایک تحریک
جماعت اسلامی ہند کی اصل، پُر امن جدوجہد اور بھارتی آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنے پر مبنی ہے۔ یہ سامراجی طاقت نہیں بلکہ اخلاقی اقدار، سماجی انصاف اور مختلف معاشرتی گروہوں کے درمیان یکجہتی کے فروغ کی داعی ہے۔ تعلیم، سماجی فلاح اور انسانی خدمات میں اس کی سرگرمیاں ملکی ترقی میں اس کے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جماعت اسلامی ہند ملک میں موجود مختلف عناصر کے برعکس جو اقلیتوں و کمزوروں کے ساتھ تصادم یا ان پر بالا دستی کے خواہاں ہیں، پُر امن بقائے باہم کی قائل ہے اور ہندوستان کی کثرتیت کا احترام کرتی ہے۔ وزیر اعلیٰ وجین کا جماعت اسلامی ہند پر سامراجی عزائم کا الزام محض بے بنیاد ہی نہیں بلکہ غیر ذمہ دارانہ بھی ہے۔ یہ مسلمانوں کی تنظیموں کو بے بنیاد دقیانوسی تصورات سے جوڑنے کا ایک تشویش ناک رجحان ہے۔ ایسی باتیں، چاہے ان کا مقصد کچھ بھی ہو عوام کے ایک بڑے حصے کو مسلمانوں سے بیگانہ کرنے اور اسلام مخالف بیانیے کو فروغ دینے کا باعث بن سکتی ہیں۔
وجین کا توجہ ہٹانے کا حربہ
جماعت اسلامی ہند کیرالا کے صدر پی مجیب الرحمان کے مطابق وزیر اعلیٰ کے بیانات ایک سیاسی چال ہیں جن کا مقصد ان کے اپنے متنازعہ روابط سے، جن میں آر ایس ایس بھی شامل ہے توجہ ہٹانا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کو نشانہ بنا کر وجین اپنے دائیں بازو کے گروپوں کے ساتھ اپنے سمجھوتوں سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں اور اپنی جماعت کی نظریاتی تضادات پر تنقید سے بچنا چاہتے ہیں۔ مجیب الرحمان نے واضح کیا کہ وزیر اعلیٰ کا کتاب کی تقریب میں خطاب، کتاب کے موضوع پر توجہ دینے کے بجائے جماعت اسلامی پر حملہ کرنے پر مرکوز تھا۔ وزیر اعلیٰ کی حکمت عملی یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ سنگھ پریوار کی بیان بازی کے طریقے کو اپنانا چاہتے ہیں اور جماعت اسلامی ہند پر وہی الزامات لگا رہے ہیں جو وہ آر ایس ایس پر طویل عرصے سے لگا رہے ہیں۔ اس قسم کی بیان بازی نہ صرف جماعت اسلامی کے کام کی اصل نوعیت کو متاثر کرتی ہے بلکہ کیرالا کے متنوع معاشرے میں اتحاد اور مکالمے کی روح کو بھی کمزور کرتی ہے۔
انتہا پسندی کے دقیانوسی تصورات کا جواب
سی پی آئی (ایم) کا جماعت اسلامی ہند کو انتہا پسند قرار دینے کا رویہ نیا نہیں ہے اور یہ الزامات قطعی بے بنیاد ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کا ریکارڈ کسی مجرمانہ یا دہشت گردانہ سرگرمی سے بالکل پاک ہے، اور تنظیم نے ہمیشہ تشدد سے بے زاری کا اعلان کیا ہے۔ جیسا کہ مجیب الرحمان نے کہا "کیرالا میں کوئی انتہا پسند مسلم تنظیم نہیں ہے” اور سی پی آئی (ایم) میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اسی طرح کے انتہا پسند لیبل کو کسی اور کمیونٹی پر لگائے۔ یہ دوہرا معیار اس وقت واضح ہوتا ہے جب سی پی آئی (ایم) کی سابقہ مسلم رہنماؤں کے ساتھ کی گئی شراکت داری کو یاد کیا جائے، جن میں پی ڈی پی کے عبدالناصر مدنی بھی شامل ہیں۔ آج جبکہ آج سی پی آئی (ایم) جماعت اسلامی جیسے اداروں کے مقاصد پر سوال اٹھاتی ہے تو وہ اس حقیقت کو بھول جاتی ہے کہ وہ خود ماضی میں ان افراد کے ساتھ اسٹیج شیئر کر چکی ہے جن پر شدت پسندی کے الزامات عائد تھے۔ یہ انتخابی ناراضگی ایسے الزامات کی موقع پرستی کو ظاہر کرتی ہے۔
سماجی ہم آہنگی میں جماعت کا کردار
جماعت اسلامی ہند طویل عرصے سے ملک کے تمام فرقوں میں اتحاد کے فروغ اور تشدد کی روک تھام کے لیے سرگرم ہے۔ تنظیم نے ہجومی تشدد اور فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے مسلم کوآرڈی نیشن کمیٹیوں کے ذریعے امن کی کوششیں کی ہیں۔ وجین کے برخلاف جماعت نے کبھی بھی آر ایس ایس کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے ہیں۔ یہ کہنا کہ جماعت اسلامی مذہبی شناختوں کو تقسیم پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے، انتہائی گمراہ کن ہے۔ جماعت اسلامی ہند کا اسلامی بھائی چارے کا اصول اسے تمام برادریوں کو برابری اور احترام کی نگاہ سے دیکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ جماعت اسلامی ہمیشہ سے "سدبھاونا منچ” اور "دھارمک جن مورچہ” جیسے پلیٹ فارموں کے قیام میں پیش پیش رہی ہے تاکہ معاشرے میں فرقہ وارانہ اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات واپس لینے کی ضرورت پنارائی وجین کے بیانات صرف سیاسی محرکات کے حامل نہیں بلکہ خطرناک رجحانات کے حامل بھی ہیں۔ بغیر کسی ثبوت کے جماعت اسلامی کو عالمی دہشت گرد تنظیموں سے جوڑنا غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔ جیسا کہ مجیب الرحمان نے درست مطالبہ کیا کہ اگر وزیر اعلیٰ کے پاس جماعت کے عالمی دہشت گردی سے روابط کے ثبوت ہیں تو انہیں عوام کے سامنے پیش کریں ورنہ ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے ان بے بنیاد بیانات کو واپس لیں اور آئندہ ایسے الزامات لگانے سے گریز کریں۔ سرکاری عہدہ داروں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ایسے اشتعال انگیز بیانات سے پرہیز کرنا چاہیے جو معاشرے میں مزید تقسیم پیدا کر سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند: سچائی اور دیانت کی علم بردار
جماعت اسلامی ہند انصاف، اخلاقی اقدار اور پرامن بقائے باہمی کے لیے پرعزم ہے۔ اسے تشدد یا انتہا پسندی کی حمایت کرنے کے الزام میں ملوث کرنا نہایت غیر منصفانہ اور بے جا حرکت ہے۔ کیرالا کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین کا جماعت اسلامی پر حملہ ایک ایسی سیاسی حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے جس کا مقصد عوام کی توجہ ان کی حکومتی ناکامیوں اور تضادات سے ہٹانا ہے۔ لیکن اس طرح کی تفرقہ انگیز تدبیریں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ جماعت اسلامی ہند اپنی جدوجہد کو امن، اتحاد اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے جاری رکھے گی۔ سِول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ ان الزامات کے پس پردہ حقیقت کو سمجھے اور جماعت جیسے عظیم اداروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرے، جو عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کے لیے انتھک کوششیں کر رہے ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 نومبر تا 11 نومبر 2024