محمد آصف اقبال، نئی دہلی
سائبر کرائم اور متعلقہ جرائم کے سلسلے میں عوام چوکنا رہیں
یہ صورتحال کتنی تکلیف دہ اور مایوس کن ہے کہ انسان اپنی حیثیت ہی سے واقف نہ ہو کہ وہ کس مقصد سے دنیا میں آیا ہے اور دنیا کے بعد کہاں جائے گا۔دنیامیں انجام دی جانے والی سرگرمیاں اس کو کن حالات سے دوچار کریں گی اور اس کے منفی و مثبت اثرات سے وہ کس طرح متاثر ہوگا۔اگر ان بنیادی سوالات کے جوابات انسان پر واضح نہ ہوں تو پھر وہ دنیا اور اس کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔یہاں تک کہ ہر قسم کے نقصان دہ کام انجام دیتا ہے۔نتیجے میں کبھی دیر تو کبھی بہت جلد اپنوں اور غیروں کے درمیان ذلت و رسوائی سے دوچار ہوتا ہے۔چہار جانب سےمسائل اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔پریشانیاں اس کو حواس باختہ کردیتی ہیں ۔ناکامی و نامرادی اس کے حصہ میں آتی ہے۔اس کے باوجود یہ واقعات صبح و شام رونما ہوتے رہتے ہیں۔لیکن انسان کےفکر و نظر اور رویہ و عمل میں تبدیلی کی خواہش پروان نہیں چڑھتی۔ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس صورتحال کے پیچھےکون سی طاقت ہے جو اسے درست راستہ سے ہٹا کر غلط راستے پر گامزن کردیتی ہے؟یہ سوال بہت اہم ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ جعل سازی اور دھوکہ دہی دراصل فساد فی الارض ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں جس طرح تعلیم اور صحت عامہ نے خدمت کی بجائے صنعت کی شکل اختیار کرلی ہے اسی طرح زندگی کے تمام امور میں جعل سازی کی صنعت بھی خوب پھل پھول رہی ہے۔آج جعل سازی تعلیم،صحت عامہ، میڈیا، ملازمت، تجارت،سیاست،ناگہانی صورتحال میں دھوکہ دہی،آن لائن گھوٹالے،ڈاٹا کی چوری،سائبر جرائم اور نہ جانے کس کس صورت میں ظاہر ہورہی ہے۔یہاں تک کہ خاندانی رشتوں اور میاں بیوی کے تعلقات میں بھی مکر و فریب اور دھوکہ دہی جاری ہے۔لیکن فی الوقت ہم جس واقعہ کو یہاں بیان کررہے ہیں اس کا تعلق ریاست گجرات سے ہے۔جہاں جعلی سرکاری دفتر، جعلی سرکاری افسر، جعلی ٹول پلازہ اور جعلی بینک کے بعد اب ایک جعلی اور فرضی عدالت کا واقعہ سامنے آیا ہے۔جہاں نہ صرف جعلی جج، جعلی وکیل اور جعلی اردلی موجود ہوا کرتےتھے بلکہ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر مقدمات کی سماعت بھی ہوتی تھی اور فیصلے سنائے جاتے تھے۔احمد آباد پولیس کے مطابق ایک شخص کے خلاف فرضی ثالثی ٹربیونل چلانے اور سنہ 2019 اور 2024 کے درمیان ثالثی کے متعدد احکامات پاس کرنے کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے جس کے بعد پولیس نے گاندھی نگر کے رہائشی 37 سالہ مورس سیموئل کو گرفتار کیاجو اس ثالثی عدالت میں جج کا کردار ادا کرتا تھا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ ابھی کچھ دن پہلے ایک اور ریاست چھتیس گڑھ میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی جعلی برانچ کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا جس میں جعلی تقرریوں کے عوض شہریوں سے لاکھوں روپے بٹورے گئے تھے۔
پولیس نے بتایا کہ مورس سیموئل گذشتہ کئی سالوں سے ثالثی پر مبنی فیصلے بھی سنا رہا تھا۔ سنہ 2019 میں اس نے ایک شخص چندا جی ٹھاکر کے حق میں زمین کی ملکیت کے ایک تنازعے سے متعلق فیصلہ سنایا تھا۔ مورس سیموئل مبینہ طور پر گزشتہ کئی برسوں سے ان لوگوں کو نشانہ بنا رہا تھا جن کے زمین کی ملکیت سے متعلق تنازعات سِول کورٹ میں زیر التوا تھے۔ وہ انہیں اپنے مقدمات کے حل کے لیے فیس ادا کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ مورس سیموئل خود کو عدالت کے مقرر کردہ سرکاری آربٹریٹر یا منصف کے طور پر پیش کرتا، اپنے مؤکل کو اپنے نجی دفتر بلاتا جو ایک عدالت کے کمرے کی طرح نظر آتا تھا۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس نے اپنے دفتر میں کمرہ عدالت جیسا ماحول قائم کیا ہوا تھا۔ اس کے ساتھی عدالتی عملے یا وکیل کے طور پر اس کے سامنے پیش ہوتے اور وہ جج کی شکل اختیار کر کے ثالثی پر مبنی جھوٹے احکامات جاری کرتا۔پولیس کے مطابق جھوٹی عدالتی کارروائیوں کے ذریعے وہ مبینہ طور پر قیمتی سرکاری اراضی کی ملکیت کے فیصلے نجی افراد کو منتقل کرنے کے دعوے تیار کرواتا اور اس ضمن میں فیصلے سناتا تھا۔احمد آباد زون-2 کے ڈی سی پی شریپال شیشاما نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مورس سیموئل دراصل سابرمتی کا رہنے والا ہے۔ کرائم برانچ میں درج تفصیلات کے مطابق جھوٹے دستاویزات کی بنیاد پر سنہ 2015 میں اس کے خلاف دو مقدمات دائر کیے گئے تھے۔مورس کے ایک پرانے پڑوسی سیموئیل فرنانڈس نے بتایا کہ مورس بچپن سے ہی بڑے خواب دیکھنے والا شخص تھا۔ فرنانڈس نے کہا کہ اس کی لوگوں سے پیسے ادھار لے کر واپس نہ کرنے کی عادت تھی اور اسی نوعیت کے تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے اسے اپنے پرانے علاقے سے نکلنا پڑا تھا۔ اس کے مطابق مورس نے اسے بتایا تھا کہ اس نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے جس کے بعد وہ جج بن گیا ہے۔گجرات بار کونسل کی ڈسپلنری کمیٹی کے چیئرمین انیل کیلا نے بتایا کہ سنہ 2006 کے آخر میں ہم ایک تیس سالہ نوجوان کو کالے کوٹ میں وکلا کے ساتھ گھومتے دیکھتے تھے۔ہمیں لگا کہ یہ کسی کا معاون بن کر سیکھنے آ رہا ہے۔ ایک بار جب ہم نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے اور اس کے پاس ہر ملک میں قانون کی پریکٹس کرنے کے لیے ڈگری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں شک گزرا کہ اگر کوئی غیر ملکی شخص بڑی ڈگری لے کر آتا ہے تو وہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتا ہے وہ نچلی عدالت میں پریکٹس کیوں کرے گا؟ لہٰذا بار کونسل نے اس کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کی تو وہ جعلی ثابت ہوئیں، اس کے پاس وکالت کا لائسنس بھی نہیں تھا، اس لیے ہم نے اس کے خلاف شکایت درج کروائی تھی۔انہوں نے کہا کہ احمد آباد میں کئی وکلاء اس کے کرتوتوں سے واقف تھے مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ اپنی فرضی عدالت بھی چلا رہا ہے۔سِٹی سِول کورٹ کے مطابق مورس سیموئل نے متنازع اراضی کے مقدمات میں ایک سال کے دوران 500 فیصلے سنائے ہیں۔ نیہرہو نامی ایک صارف نے خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’تصور کریں کہ وہ پانچ سالوں تک یہ کام کرتا رہا اور کسی کی توجہ نہیں گئی۔ جعلی کرنسی، جعلی ڈگریاں، جعلی تاجر، جعلی عالمی رہنما، جعلی جج، جعلی عدالت۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ گجرات میں ایک ہی چیز اصلی ہے اور وہ ہے منشیات، جو وہ پکڑتے ہیں اور ہر کوئی اسی میں مست ہے۔
گجرات ماڈل کو سمجھنا چاہیں تو آپ کو یاد ہوگا کہ احمدآباد میونسپل کارپوریشن (اے ایم سی) کے محکمہ صحت نے 6 ستمبر 2024 کو احمدآباد کے سات زونس کے دس ڈاکٹروں کے کلینکوں کو سیل کیا تھا۔اے ایم سی کے انچارج میڈیکل آفیسر آف ہیلتھ، ڈاکٹر بھاوین سولنکی نے بتایا کہ "ایلوپیتھک علاج کی مشق کرنے کے لیے ڈاکٹروں کی میڈیکل ڈگریوں کی محکمہ صحت نے چھان بین کی جس میں تسلیم شدہ ڈگری نہ ہونے کے باوجود، ان ڈاکٹروں نے زیر علاج مریضوں کوIV سیال اور ایلوپیتھک انجیکشن لگائےتھے۔اسی طرح گجرات کے ضلع کھیڑا کا وہ واقعہ بھی آپ کو یاد ہوگا جہاں متعدد افراد نے دھوکہ دہی کے ذریعے سرکاری تدریسی عہدے حاصل کیے۔رپورٹوں کے مطابق 23 افراد نے درخواستیں نہ بھرنے کے باوجود تدریسی ملازمتیں حاصل کیں۔ وہ جعلی جسمانی فٹنس سرٹیفکیٹ پیش کرکے ان پوسٹوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ مزید برآں، گجرات کبڈی ایسوسی ایشن کے جاری کردہ جعلی سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر 32 اساتذہ کی تقرری کی گئی۔ اس سے پہلے جام نگر میں 33 اساتذہ کو فرضی سرٹیفکیٹ پر برطرف کیا گیا تھا، جب کہ وڈودرا میں 32 کو برخاست کیا گیا تھا۔اسی طرح ایک الگ واقعہ میں، سورت میونسپل کارپوریشن کے ایک اسکول میں ایک ٹیچر کو حاضری کے ریکارڈ میں جعلسازی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ ونود ٹنگلے، اسکول نمبر 6، اتھوالائنس کے شری وسیشورایا نگر پرائمری اسکول کا ٹیچر اسکول سے غیر حاضر ہونے کے باوجود اپنی حاضری کو نشان زد کرتا ہوا پایا گیا۔ دونوں واقعات گجرات کے تعلیمی شعبے کی لاپروائی کی نشاندہی کرتے ہیں۔اسی طرح 9جولائی 2024، احمد آباد A Division ٹریفک پولیس نے اوگناج رنگ روڈ پر پولیس اہلکار ظاہر کر کے لوگوں سے پیسے بٹورنے والے دو فرضی پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا تھا۔اور غالباً یہ خبر بھی آپ کو یاد ہوگی کہ 4 دسمبر کو گجرات پولیس نے جعلی ٹول پلازہ کے معاملے میں شکایت درج کی تھی اوراس معاملے میں دلچسپ انکشافات سامنے آئے تھے۔ گجرات میں وینکانیر سے موربی جاتے ہوئے دو ٹول پلازہ تھے۔ ایک اصلی اور ایک جعلی۔ اصل ایک نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا (NHAI) کا سرکاری ٹول پلازہ ہے۔ یہاں گاڑیوں کا ٹول 110 روپے ہے۔ یہ قیمت گاڑی کے پہیوں کی تعداد کے لحاظ سے بڑھ جاتی ہے۔ دوسری گاڑیوں کے لیے اس کی قیمت 380 سے 720 روپے ہے۔انڈین ایکسپریس سے وابستہ گوپال بی کٹیشیا کی رپورٹ کے مطابق کچھ لوگ اس اصلی ٹول پلازہ سے 600 میٹر دور کھڑے رہتے تھے۔ یہ لوگ وہاں سے گزرنے والے لوگوں کو جعلی ٹول پلازہ سے جانے کے لیے کہتے تھے۔ بہت سے لوگ ان کی بات مان بھی لیتے۔ وجہ یہ تھی کہ جعلی ٹول پلازہ سے گزرنے پر کم رقم ادا کرنی پڑتی تھی۔جعلی ٹول پلازہ سے گزرنے کے لیے گاڑی کے لیے دس روپے اور ٹرک کے لیے پچاس روپے ادا کرنے پڑتے تھے۔ جو کہ اصلی ٹول پلازہ سے بہت سستا تھا۔ یہ ٹولہ لوگوں کو بتاتا کہ اس رقم کا استعمال گاؤں میں مندر بنانے میں کیا جائے گا۔رپورٹ کے مطابق اس جعلی ٹول پلازہ سے گزرنے کے لیے دو کلومیٹر کا چکر لگانا پڑتا تھا۔ گجرات میں اس طرح کے فریب اور دھوکہ دہی کے بے شمار واقعات اور حادثات کس طرف اشارہ کرتے ہیں اور کیوں بدقماش لوگوں کو جعل سازی کرنے کا حوصلہ فراہم ہوتا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو ریاست کے خستہ لاء اینڈ آرڈر کے نظام کو واضح کرتا ہے اور اس سے معاشرہ میں بڑھتی ہوئی کرپشن کی صورتحال بھی ظاہر ہوتی ہے۔ دھوکہ دہی اور فریب کاری کا معاملہ صرف گجرات تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک کے طول و عرض ہر ریاست اور ہر مقام پر جعل سازی کے اڈے قائم ہیں ۔یہ خبر بھی اسی ماہ اکتوبر 2024 کی ہے کہ معروف کاروباری شخصیت ایس پی اوسوال حال ہی میں ایک ایسے سائبر فراڈ کا نشانہ بنے جس میں انہیں کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ 82 سالہ تاجر ایس پی اوسوال ٹیکسٹائل انڈسٹری کا ایک بڑا نام ہیں اور وردھمان گروپ کے سربراہ ہیں۔ مگر ایک گینگ نے ‘جعلی سپریم کورٹ’ اور اس کی ‘جعلی آن لائن سماعت’ کے ذریعے ایک ایسا جال بچھایا کہ وہ سات کروڑ روپے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ لدھیانہ میں پولیس کے مطابق مجرموں نے سی بی آئی افسروں کی شکل اختیار کرکے ان سے رابطہ کیا اور انہوں نے اوسوال کو جعلی گرفتاری کا وارنٹ دکھا کر دعویٰ کیا کہ اس وارنٹ کو ممبئی میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے جاری کیا ہے۔پولیس کے مطابق اوسوال کو سپریم کورٹ کا جعلی حکمنامہ بھی دکھایا گیا اور کہا گیا کہ وہ ایک سیکرٹ سپرویژن اکاؤنٹ (ایس ایس اے) میں سات کروڑ روپے جمع کرائیں۔پولیس نے اس کیس میں ایک بین الریاستی گینگ کی نشاندہی کی ہے اور اس کے دو مبینہ ارکان کو آسام کے شہر گوہاٹی سے گرفتار کیا ہے جبکہ باقی سات کی تلاش اب بھی جاری ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ یہ گینگ آسام، مغربی بنگال اور دہلی میں سرگرم ہے۔ اس طرح کے معاملات میں پولیس ایڈوائزری میں شہریوں کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ انہیں ایسے حالات میں فوراً سائبر کرائم کی ہیلپ لائن پر کال کرنی چاہیے تاکہ پولیس جلد بینک اکاؤنٹ کو بند کروادے۔
متذکرہ واقعات اور حالات ان کھوکھلے تصورات،عقائد،نظریات اور نظام کو ظاہر کرتے ہیں جہاں انسانی معاشرہ ‘وہن ‘کی بیماری میں مبتلا ہے۔اگرچہ یہ وہن کی بیماری خصوصیت کے ساتھ حقیقی علم رکھنے والوں سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ دیگر یا تو شرک میں مبتلا ہیں یا انکار میں، اس کے باوجود یہ بیماری ایسی ہے جو انسانوں سے تعلق رکھتی ہے، ان کے عقیدہ اور فکر سے اس کا گہراتعلق ہے اورآخرت کے انکار اور دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لینے سے پیدا ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فرمایا گیا کہ ‘وہن’ یہ ہے کہ انسان دنیا سے محبت اور موت کو ناپسند کرنے لگے۔ چونکہ بیماری کے اثرات اور نتائج بھی نہایت خطرناک، مہلک اور تباہ کن ہیں اس لیےاگر یہ بیماری کسی مرد مومن کو لگ جائے تو اس کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوجاتی ہیں۔اس پس منظر میں ایک چیز اور ہے اور وہ ہے ‘حق کی شہادت’، قول سے، رویہ سے اور عمل سے۔ اس ملک میں جتنی بھی بیماریوں میں آج اہل ملک مبتلا ہیں اس کا حل یہی ہے کہ جن لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ‘حق کا علم’ ہے، وہ اس علم کو اپنے قول اور عمل، ہر دو محاذ پر ظاہر کریں۔ اور اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ اقامت دین اور اظہار دین کا فریضہ اداکرتے ہوئے دنیا و آخرت میں نہ صرف خود سرخ رو ہوں گے بلکہ اہل ملک بھی اس سے مستفید ہوں گے، کامیابی و کامرانی ان کے حصہ میں بھی آئے گی اور ملک بھی ہرقسم کی جعل سازی سے پاک،امن کا گہوار بن جائے گا۔
***
***
اس ملک میں جتنی بھی بیماریوں میں آج اہل ملک مبتلا ہیں اس کا حل یہی ہے کہ جن لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ‘حق کا علم’ ہے، وہ اس علم کو اپنے قول اور عمل، ہر دو محاذ پر ظاہر کریں۔ اور اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ اقامت دین اور اظہار دین کا فریضہ اداکرتے ہوئے دنیا و آخرت میں نہ صرف خود سرخ رو ہوں گے بلکہ اہل ملک بھی اس سے مستفید ہوں گے، کامیابی و کامرانی ان کے حصہ میں بھی آئے گی اور ملک بھی ہرقسم کی جعل سازی سے پاک،امن کا گہوار بن جائے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024