
محمد مجیب الاعلیٰ
’’تعلیم میں مدد کرو، نسل کشی میں نہیں‘‘ طلبہ کا طاقتور پیام
جولائی 2025 کی دھوپ سے نہائی صبحوں میں، جب ایڈنبرگ یونیورسٹی کے تاریخی ہال اپنی گریجویشن تقریبات کے رنگوں سے جگمگا رہے تھے، ایک ایسی انقلابی لہر اٹھی جس نے ہر اس دل کو جھنجھوڑ دیا جو انسانیت کا ذرا سا بھی درد رکھتا ہو۔ سیاہ گاؤنوں میں ملبوس طلبہ نے جن کے چہروں پر اپنی محنت کی کامیابی کی چمک ہونی چاہیے تھی اپنے فخر کے لمحات کو ایک عظیم مقصد کے لیے قربان کر دیا۔ فلسفہ، نفسیات، بایومیڈیکل سائنسز اور سماجی علوم کے طلبہ نے 4 تا 10 جولائی تک اپنی تقریبات کو ایک احتجاجی میدان میں بدل دیا۔ یہ کوئی معمولی شورش نہیں تھی، یہ ایک پرجوش آواز تھی جو ایڈنبرگ کی دانش گاہ سے گونجی اور عالمی ضمیر تک جا پہنچی۔ یہ احتجاج یکم؍ جولائی سے 15 جولائی 2025 کے دوران مختلف شعبوں کی تقریبات میں منظم انداز میں سامنے آیا:
• 4 جولائی: فلسفہ، نفسیات اور لسانیات کے طلبہ نے اپنی تقریب میں فلسطینی پرچم بلند کیے۔
• 5 جولائی: میڈیکل کے طلبہ نے موافق فلسطین نعروں کے ساتھ احتجاج کیا۔
• 8 جولائی: بزنس اسکول کے طلبہ نے یونیورسٹی کے مالی روابط کے خلاف آواز اٹھائی۔
• 9 جولائی: بایومیڈیکل سائنسز کے طلبہ نے اپنے بینروں پر "No graduates in Gaza” لکھ کر اپنا پیغام واضح کیا۔
• 10 جولائی: سماجی و سیاسی علوم کے طلبہ نے بڑے پیمانے پر واک آؤٹ کیا جو ایک علامتی بغاوت بن گیا۔
یہ احتجاج ایڈنبرگ یونیورسٹی کے اسرائیل سے منسلک کمپنیوں اور اداروں، مثلاً لیونارڈو، SPA اور بین-گوریئن یونیورسٹی کے ساتھ مالی اور تحقیقی تعلقات کے خلاف تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، یونیورسٹی کی 25.5 ملین پاؤنڈز کی سرمایہ کاری ایسی کمپنیوں میں ہے جو فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے منسلک ہیں، جیسے کہ الفابیٹ، ایمیزون اور مائیکروسافٹ وغیرہ۔
طلبہ نے اپنی گریجویشن تقریبات کو صرف ایک ذاتی کامیابی کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ اسے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا تاکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیں۔ ان کے بینروں پر درج نعرے—”Fund teaching not genocide”، "No universities in Gaza”، "Disclose, divest, we will not stop, we will not rest”—صرف الفاظ نہیں تھے، بلکہ ایسی زبردست گونج تھی جو غزہ کی تباہ شدہ گلیوں سے ایڈنبرگ کے ایوانوں تک جا پہنچی۔ یہ پرجوش نعرے یونیورسٹی سے شفافیت اور سرمایہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ احتجاج صرف ایک ردعمل نہیں تھا بلکہ ایک اخلاقی موقف تھا۔ طلبہ نے اپنی ذاتی خوشیوں کو قربان کر کے یہ اعلان کیا کہ وہ ایک ایسی یونیورسٹی کے گریجویشن جشن کا حصہ نہیں بننا چاہتے جو نسل کشی میں ملوث اداروں کی حمایت کرتی ہو۔ انہوں نے فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دیا اور یہ ثابت کیا کہ ان کے لیے انسانی حقوق ان کی ڈگریوں سے زیادہ اہم ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی تنقید اور طلبہ کا عزم
یونیورسٹی انتظامیہ، خاص طور پر نائب پرنسپل پروفیسر کولم ہارمون نے اس احتجاج کو "دھمکی آمیز” اور "غیر مہذب” قرار دیا۔ لیکن طلبہ نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے اسے پُر امن اور جائز احتجاج قرار دیا۔ یونیورسٹی نے ایک ذمہ دار سرمایہ کاری ایڈوائزری گروپ بنانے کا اعلان کیا لیکن طلبہ کا مؤقف تھا کہ یہ محض ایک رسمی عمل ہے جو ان کے مطالبات کو پورا نہیں کرتا۔
یہ احتجاج ایڈنبرگ کے طلبہ کی ہمت اور عزم کی داستان ہے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی آواز بلند کی بلکہ اسے سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی سطح پر پھیلایا۔ ویڈیوز اور تصاویر میں طلبہ کو فلسطینی پرچم اٹھائے ہوئے، ان کے حق میں نعرے لگاتے اور اپنی تقریبات سے واک آؤٹ کرتے دیکھا گیا، جنہیں ان کے والدین، سینئر طلبہ اور عالمی برادری نے ستائشی کلمات سے نوازتے ہوئے ’تاریخی‘ قرار دیا۔
عالمی تناظر میں طلبہ کے احتجاج کی اہمیت
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر فرانسیسکا البانیز کی رپورٹ نے ایڈنبرگ یونیورسٹی کو برطانیہ کی "سب سے زیادہ مالی طور پر ملوث” یونیورسٹیوں میں سے ایک قرار دیا۔ اس تناظر میں طلبہ کا احتجاج نہ صرف ایک مقامی بغاوت تھا بلکہ عالمی انسانی حقوق کی تحریک کا حصہ تھا۔ یہ ایک ایسی دنیا کے لیے جدوجہد تھی جہاں تعلیمی ادارے علم کی روشنی پھیلائیں، نہ کہ ظلم و نسل کشی کی حمایت کریں؟
طلبہ کا یہ اقدام ایک یاد دہانی ہے کہ جب ضمیر جاگتا ہے تو کوئی بھی تقریب، کوئی بھی ڈگری اور کوئی بھی ادارہ اس کی آواز کو دبا نہیں سکتا۔ ایڈنبرگ کے طلبہ نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف علم کے متلاشی ہیں بلکہ انصاف کے علم بردار بھی ہیں۔ ان کا پیغام واضح تھا کہ: جب تک غزہ میں یونیورسٹیاں تباہ ہوتی رہیں گی تب تک فلسطین میں طلبہ اپنی ڈگریوں کے خواب نہیں دیکھ سکتے لہٰذا ایڈنبرگ کے طلبہ خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ ایک ایسی آواز ہے جو وقت اور سرحدوں سے ماورا ہے اور جو گونجتی رہے تو اچھا ہے۔
***
طلبہ کا یہ اقدام ایک یاد دہانی ہے کہ جب ضمیر جاگتا ہے تو کوئی بھی تقریب، کوئی بھی ڈگری اور کوئی بھی ادارہ اس کی آواز کو دبا نہیں سکتا۔ ایڈنبرگ کے طلبہ نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف علم کے متلاشی ہیں بلکہ انصاف کے علم بردار بھی ہیں۔ ان کا پیغام واضح تھا کہ: جب تک غزہ میں یونیورسٹیاں تباہ ہوتی رہیں گی تب تک فلسطین میں طلبہ اپنی ڈگریوں کے خواب نہیں دیکھ سکتے لہٰذا ایڈنبرگ کے طلبہ خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ ایک ایسی آواز ہے جو وقت اور سرحدوں سے ماورا ہے اور جو گونجتی رہے تو اچھا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025