جامعہ میں دوبارہ فائرنگ کے بعد ہزاروں افراد جامعہ نگر پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوئے، بندوق بردار کی گرفتاری کا کیا مطالبہ

نئی دہلی، فروری 03— جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سی اے اے مخالف مظاہرے پر اتوار کی آدھی رات کو فائرنگ کے خلاف سینکڑوں طلبا اور مقامی باشندے جامعہ نگر پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوئے۔ وہ پولیس کے خلاف نعرے بلند کررہے تھے اور نامعلوم مسلح افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے۔

ہجوم میں اضافے کے بعد سینئر پولیس افسران پولیس اسٹیشن پہنچ گئے اور مشتعل ہجوم کو پرسکون کرنے کی کوشش کی جو بندوق برداروں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ صورت حال پر قابو پانے کے لیے مسلح پولیس اہلکاروں کو بھی طلب کیا گیا تھا۔

اتوار (2 فروری) کی درمیانی رات سے تھوڑا پہلے جامعہ میں سی اے اے مخالف مظاہرے کے قریب دو نامعلوم افراد نے فائرنگ کی۔ جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی جو ڈیڑھ ماہ سے احتجاج کا اہتمام کررہی ہے، نے بتایا کہ سرخ رنگ کی اسکوٹی پر سوار مسلح افراد فائرنگ کے بعد وہاں سے فرار ہوگئے۔ کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ جامعہ میں پچھلے تین دنوں میں فائرنگ کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔

جمعرات (30 جنوری) کو بھی ایک مسلح ہندو دائیں بازوں کے نوجوان نے پولیس کی موجودگی میں جامعہ کے احتجاج کرنے والے طلبا پر فائرنگ کی تھی، جس میں گولی ایک طالب علم کے ہاتھ پر لگی تھی۔

وہیں یکم فروری کو پولیس کی موجودگی کے باوجود ایک اور بندوق بردار نے جامعہ سے تقریبا تین کلومیٹر دور شاہین باغ احتجاجی مقام پر فائرنگ کی تھی۔ مظاہرین نے اس پر قابو پا کر اسے پولیس کے حوالے کردیا تھا۔ اس نے اپنی شناخت کپل گجر کے نام سے کی۔ جب پولیس اسے لے جارہی تھی تو کسی نے اس سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا: "ہمارے دیش میں صرف ہندوؤں کی چلے گی اور کسی کی نہیں”۔

دوسری طرف الیکشن کمیشن نے اتوار کی شاہم شاہین باغ واقعے کے بعد جنوب مشرقی دہلی کے ڈی سی پی چمنے بسوال کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔