جامعہ اور اے ایم یو طلبا کی حمایت میں سامنے آئے فلمی ستارے
نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا کے ساتھ پولیس کی بربریت کے بعد فلمساز انوراگ کسیپ نے ٹوئٹر پر واپسی کی اور انہوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے ۔قابل ذکر ہے کہ اس سال اگست میں انہوں نے ٹوئٹر کو الوداع کہہ دیا تھا۔ کیوں کہ ان کو ٹوئٹر پر جہاں ٹرول کیا جارہا تھا وہیں ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دی جارہی تھیں ۔انہوں نے طلبا پر پولیس کی کارروائی مذمت کرتے ہوئے مودی حکومت کو فاشسٹ حکومت قرار دیا ۔
انہوں نے کہا کہ اب وہ اور خاموش نہیں رہ سکتے۔ انوراگ نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ بات بہت دور نکل چکی ہے اب اور خاموش نہیں رہا جاسکتا۔ یہ حکومت واضح طو رپر فاشسٹ ہے ۔ مجھے اس بات کا بہت غصہ ہے کہ ایک آواز جس سے فرق پڑسکتا ہے وہ چپ ہے۔
فلم انڈسٹری سے اٹھنے والی دوسری آوازوں میں مہیش بھٹ، تاپسی پنو، رچا چڈھا، ذیشان ایوب، انوبھوسنہا، وکرانت میسی ، ریما کاگتی، سید احمد افضال، فہیم خان،اویناش داس اورمیر علی فیضل کے نام قابل ذکر ہیں ۔
تاپسی پنو نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ کیمپس کے اندر پولیس کی کارروائی کے ویڈیو دل دہلا دینے والے ہیں۔ یہ ویڈیوز دل شکن ہیں اور ساتھ ہی امید شکن بھی ہیں ۔
فلمساز سدھیر مشرا نے ٹوئٹ کیا کہ میں نے 1987 میں طلبا کی سیاست کے پس منظر میں ایک فلم یہ وہ منزل تو نہیں بنائی تھی ۔ اس فلم کے کلائمکس میں پولیس کیمپس میں داخل ہو کر طلبا کو بے رحمی سے پیٹتی ہے۔ اب بھی کچھ نہیں بدلا ۔
اداکارہ کونکنا سین نے ٹوئٹ کیا کہ ہم طلبا کے ساتھ ہیں، دہلی پولیس شرم کرو۔
راج کمار راؤ نے طلبا کے خلاف پولیس کارروائی کی مذمت کی اور پرامن احتجاج کی اپیل کی ۔ انھوں نے لکھا کہ میں سخت لفظوں میں پولیس کی کارروائی کی مذمت کرتا ہوں ۔ ایک جمہوریت میں شہری کو پرامن احتجاج کرنے کا حق ہے۔ انھو ں نے یہ بھی کہا کہ میں کسی بھی طرح کی پبلک پراپرٹی کونقصان پہنچانے کی مذمت کرتا ہوں ۔ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
فلم اسٹار ذیشان ایوب نے لکھا کہ جو لوگ آج چپ ہیں یا تالیاں بجارہے ہیں ، فکر نہ کریں ، جب یہی پولیس اور لوگ آپ کے ساتھ یہ سب کریں گے ۔ ہم آپ کے لیے بولیں گے اور لڑیں گے۔
سورا بھاسکر نے کہا کہ طلبا کے ساتھ مجرموں کی طرح سلوک کیوں کیا جارہا ہے۔ ہاسٹل میں آنسو گیس کیوں چھوڑے جارہے ہیں ۔ یہ کیا چل رہا ہے دہلی پولیس ۔ شرمناک۔
اسی طرح رچا چڈھا نے طلبا کے خلاف پولیس کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کئی ٹوئٹ کیے اور کہا کہ کیرل، چنئی، حیدرآباد، کولکاتہ، آسام، میگھالیہ، تریپورہ، میزورم، علی گڑھ، دہلی، ممبئی، کشمیر کو احتجاج کی اجازت نہیں ہے ۔ عوام اور طلبا ہر جگہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔ اس کو جھٹلانے کی ضرورت نہیں ہے۔
پاروتی ٹی نے جامعہ اور علی گڑھ کے طلبا پر ہونے والی بربریت کو دہشت گردی سے تعبیر کیا۔
کرکٹر عرفان پٹھان نے اتوار کوٹوئٹ کیا کہ سیاسی الزام تراشیاں چلتی رہیں گی، لیکن جہاں تک میرا اور ہمارے ملک کا تعلق ہےتو ہم جامعہ کے طلبا کو لے کر فکرمند ہیں ۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کررہے طلبا کی بے رحمی سے پٹائی کے بعد رات بھر پولیس ہیڈکوارٹر کے باہر طلبا کا مظاہرہ جاری رہا۔ جامعہ کے ساتھ جے این یو اور ڈی یو کے طلبا جامعہ کے طلبا کی حمایت میں جمع ہوئے اور پولیس اور سرکار کے خلاف نعرےبازی کی۔