عبید احمد آخون، سری نگر
پہلے ہر شخص گریبان میں اپنے جھانکے
پھر بصد شوق کسی اور پہ تنقید کرے
جب ہم لفظ تنقید سُنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں بہت سارے خیالات گردش کرتے ہیں اور زیادہ تر خیالات اتنے محدود ہوتے ہیں کہ ہم اسے اپنی یا کسی اور کی مخالفت پر محمول کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم تنقید میں دیگر پہلووں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مثبت نتائج اخذ کرنے کی کوشش کریں تو یہ تنقید برائے تعمیر کہلائے گی۔ اور یہ تنقید ہی ہے جو ادیب کو یا ایک فرد کو یا ایک حکومت کو جواب دہ بنانے اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے پر آمادہ کرتی ہے کہ آپ پر نظر ہے، نظر انداز نہ کریں۔
اردو ادب میں لفظ تنقید دراصل انگریزی لفظ Criticism کا ترجمہ ہے جس کے معنی Appreciation, Estimate, Assessment, Judgement, Evaluation وغیرہ غرض ہر مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اردو ادب میں لفظ تنقید کے لغوی معنی ہیں کسی ادب پارے کی ہر ایک زاویہ سے جانچ، پرکھ یا تفتیش کے بعد کوئی نتیجہ بغیر کسی تعصب کے قاری کے سامنے پہنچانا تاکہ اُس میں نکھار پیدا ہو جائے اور قاری صحیح اور غلط میں فرق کر سکے۔
بچپن سے ہم دیکھتے آئے ہیں کہ ہمارے والدین جب ہمیں کسی بھی کوتاہی کا مرتکب پاتے تو ہمیں کسی دوسرے دوست، احباب یا جان پہچان والے شخص کی مثال دے کر اُس شخص کی خوبیوں سے سبق حاصل کرنے کی نصیحت کرتے۔ یہ تنقید بھی برائے تعمیر کہلائے گی لیکن والدین کا یہ عمل روز کا معمول بن جائے تو یہ منفی تنقید کی راہ کو ہموار کرتا ہے کیونکہ ہر شخص کی صلاحیت جداگانہ ہوتی ہے۔ موازنہ تب تک ٹھیک ہے جب تک حدود کا خیال رکھا جائے اگر نہ رکھا جائے تو بچے احساسِ کمتری کا شکار ہو کر ذہنی امراض میں بھی مبتلا ہو سکتے ہیں اور والدین اور بچوں میں ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جس کو پُر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ادیب بھی جب قلم اُٹھاتا ہے تو اسے بھی بہت سارے پہلووں کو ذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔ ادب کا اثر سماج پر گہرا پڑتا ہے۔ ادیب سماج کا ترجمان ہوتا ہے وہ جو کچھ بھی سماج میں دیکھتا ہے اسے قلمبند کرتا ہے اگر ادیب خامیوں کو نظر انداز کر کے صرف خوببوں کو اُجاگر کرے تو یہ ادب کی موت ہے، اسی طرح اگر صرف خامیوں کو اُجاگر کرے تو وہ بھی ایک ادیب کو زیب نہیں دیتا اور اُسے ادیب کی نا اہلی ہی تصور کیا جائے گا گویا ادیب کا ترازو میزان کے اصولوں کا پابند ہے۔ الطاف حسین حالی نے جب اپنے دور میں اردو ادب کی ہر دل عزیز اصناف غزل میں کوتاہی دیکھی یہاں تک کہ بہت سارے ادیبوں نے اسے نیم وحشی صنف بھی مان لیا تھا اور اسے ادب سے خارج کرنے کی آواز بھی زور پکڑ رہی تھی تب حالی نے ’مقدمہ شعرو شاعری‘ لکھ کر غزل کے اوزان مقرر کیے اور بہت ساری تبدیلیاں اس میں لانے کی ادیبوں سے درخواست کی اور آج غزل کو اردو ادب کی آبرو کہا جاتا ہے۔ یہ الطاف حسین حالی کا ادب پر احسان ہے ورنہ اگر وہ بھی منفی تنقید کی پذیرائی کرتے اور مثبت پہلووں کو نظر انداز کرتے تو آج ان کا نام ادب کی دنیا میں زندہ جاوید نہ ہوتا۔ اگر ادیب کا ذہن عداوت، نفرت، رنجش سے لبریز ہو تو وہ تنقید نگاری سے وفا نہیں کر سکتا۔ یاد رہے کہ شخصی تنقید ادب کی موت ہے۔
کروں جو تنقید ظلمتوں پر
تو آئے گا حرف حکمتوں پر
دنیا کی طرح آج ہندوستان میں بھی Covid-19 کا اثر روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے، حکومت کوشش کر رہی ہے کہ وبا پر قابو پالے اور اپوزیشن پارٹیاں حکومت پر شعبہ صحت کی ناکامیابیوں پر تنقید کر رہی ہیں اگر اس پر ہم بھی تنقید کریں تو اس میں بھی ہمیں خوبیاں اور خامیاں دونوں ملیں گی مثلاً اپوزیشن کی تنقید کی وجہ سے ابھی حکومت کی پوری توجہ شعبہ صحت پر مرکوز ہے اور آنے والے وقت میں شعبہ صحت، حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہوجائے گا۔ اگر ہم منفی تنقید اس میں نکالنے کی کوشش کریں تو آنے والی حکومتوں کے لیے یہ ووٹ حاصل کرنے کا ایک نیا منشوربن جائے گا جس کا غلط استعمال ہونے کا اندیشہ ہے۔
اردو ادب میں تنقید کو باقاعدہ صنف ادب کی حیثیت کے فن سے آشنائی کرانے میں پروفیسر آلِ احمد سرور ایک معتبر حیثیت رکھتے ہے ان کا جو بھی ادبی و تنقیدی سرمایہ ہے وہ اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ انہوں نے تنقید کے مطالبات اور اس کی تعریف و توضیح کے ضمن میں نہایت ہی بلیغ اشارے کیے ہیں۔ اپنے مجموعہ مضامین ’تنقید کیا ہے؟‘ کے دبیاچے میں وہ یوں رقم طراز ہیں
’’میں تنقید کو ایک سنجیدہ، اہم اور مشکل کام سمجھتا ہوں اور اس کا لطفِ سخن نہیں بلکہ قدروں کی اشاعت جانتا ہوں۔ اس لیے پڑھنے والوں سے بھی سنجیدگی اور متانت اور غور و فکر کا مطالبہ کرتا ہوں‘‘
تنقید کرو خوب مگر دیکھتے رہنا
بیکار نہ جائے گا ہنر دیکھتے رہنا۔
[email protected]
***
دنیا کی طرح آج ہندوستان میں بھی Covid-19 کا اثر روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے، حکومت کوشش کر رہی ہے کہ وبا پر قابو پالے اور اپوزیشن پارٹیاں حکومت پر شعبہ صحت کی ناکامیابیوں پر تنقید کر رہی ہیں اگر اس پر ہم بھی تنقید کریں تو اس میں بھی ہمیں خوبیاں اور خامیاں دونوں ملیں گی مثلاً اپوزیشن کی تنقید کی وجہ سے ابھی حکومت کی پوری توجہ شعبہ صحت پر مرکوز ہے اور آنے والے وقت میں شعبہ صحت، حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہوجائے گا
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021