(دعوت نیوز ڈیسک)
اتر اکھنڈ کے ضلع ہلدوانی میں آباد لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں
ہائی کورٹ میں کیس ہارے ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔بلڈوزر کارروائی کی تیاری مکمل
دہائیوں سے بسے بسائے بے شمار خاندان اجاڑ دیے جائیں گے اور ہزاروں لوگوں کو بے گھر کر دیا جائے گا۔ کیا مسلمان کیا ہندو سب کے گھر ڈھا دیے جائیں گے۔ مسجدوں مندروں آشرموں گرودواروں اور تعلیمی اداروں کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ بقول بشیر بدر:
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
اتر اکھنڈ کے ضلع ہلدوانی میں آباد ہزاروں گھروں پر بلڈوزر چلانے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے۔ وہاں کے مکین اپنا کیس ہار چکے ہیں۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا جا چکا ہے۔ کیا بوڑھے کیا بچے کیا مرد کیا عورتیں سب سڑکوں پر اتر چکے ہیں۔ شاید بھارت کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں گھروں پر بلڈوزر چلے گا۔ جس وقت پوری دنیا نئے سال کے جشن میں ڈوبی ہوئی تھی ہلدوانی کے باشندے کڑاکے کی سردی میں امید کی لو جلاتے ہوئے کینڈل مارچ نکال رہے تھے۔ وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ انہیں متبادل مقام پر بسایا جائے تاکہ ان کی زندگی سڑکوں پر نہ گزرے لیکن مین اسٹریم میڈیا کے بڑے حصے نے اس اہم خبر کو اپنے چینلوں میں دکھایا ہی نہیں۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
ایک رپورٹ کے مطابق اتر اکھنڈ میں ہلدوانی ریلوے اسٹیشن کے قریب غیر مجاز کالونیوں میں رہنے والے چار ہزار سے زیادہ خاندانوں کو بے دخلی کے نوٹسیں دی گئیں۔ یہ فیصلہ اتر اکھنڈ ہائی کورٹ کے جاری کردہ حکم کے بعد لیا گیا ہے۔ نوٹسوں کے بعد گھروں کو خالی کرنے کے لیے سات دن کا وقت دیا گیا۔ ضلع نینی تال کے حکام کے مطابق اس علاقے سے کل 4,365 تجاوزات ہٹائی جائیں گی۔ ہندی اخبار جن ستا کے مطابق ریلوے حکام نے بتایا کہ انہوں نے 2.2 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک پر بنائے گئے مکانات اور دیگر ڈھانچوں کو گرانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ عزت نگر کے ریلوے پی آر او راجندر سنگھ نے کہا کہ ’’ہلدوانی میں ریلوے کی زمین پر تمام تجاوزات کو ہٹانے کا ہائی کورٹ کا فیصلہ کئی دن پہلے ہی آ چکا تھا۔ جملہ تجاوزات 4365 ہیں۔ یکم جنوری 2023ء کو مقامی اخبارات کے ذریعے نوٹسیں دی گئیں۔ مکینوں کو دوسرے مقام پر منتقل ہونے کے لیے سات دن کی مہلت دی گئی ہے۔ اس کے بعد ہم کارروائی کریں گے‘‘۔
مقامی لوگوں کی ریاستی حکومت سے ناراضگی:
ایک رپورٹ کے مطابق سماعت کے دوران ریاستی حکومت نے کہا کہ وہ مذکورہ جائیداد پر اپنا کوئی موقف نہیں رکھتی ہے۔ ریلوے نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی قبضہ کرنے والا مذکورہ زمین پر دعویٰ کرنے کے لیے کوئی قانونی دستاویز پیش نہیں کر سکتا۔ تقریباً ایک دہائی سے چلنے والے اس کیس میں تمام فریقین کو سننے کے بعد عدالت نے ریلوے کے حق میں فیصلہ دیا۔مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ اس معاملے میں حکومت کو عوام کی جانب سے اپنا موقف پیش کرنا چاہیے تھا۔ ’جب اس علاقے میں حکومت کی جانب سے سرکاری اسکولس ہیں، پانی کی ٹنکیاں ہیں اور دیگر ادارے ہیں تو پھر حکومت کس بنیاد پر اپنا موقف پیش کرنے سے قاصر ہے؟’
انتظامیہ کی جانب سے علاقے کا ڈرون سروے کیا گیا
عدالت کے حکم کے بعد ریلوے اور ریونیو حکام کی مشترکہ ٹیم نے تجاوزات کے علاقے کا ڈرون سروے کیا۔ مقامی باشندوں کے احتجاج کے درمیان انہوں نے تجاوزات والے علاقوں کی حد بندی شروع کر دی۔ دوسری طرف کانگریس نے اس اقدام کی مخالفت کی ہے اور ریاستی حکومت پر عدالت میں مناسب بحث نہ کرنے اور بعد میں بہانے بنانے کا الزام لگایا ہے۔
’بستی بچاؤ سنگھرش سمیتی’ قانونی لڑائی میں آگے
‘ویب دنیا ہندی’ کی رپورٹ کے مطابق علاقے کو بچانے کے لیے سڑک سے لے کر ہائی کورٹ تک کی لڑائی لڑنے والی ’بستی بچاؤ سنگھرش سمیتی’ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ہلدوانی میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ریلوے نے اس زمین پر دعوے کے ثبوت میں جو نقشہ عدالت میں پیش کیا ہے جس کی بنیاد پر ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ہے وہ نقشہ 1969ء کا ہے جبکہ یہاں کے باشندوں کے پاس 1937ء کی بھی لیز ہے۔یعنی بستی کے لوگوں کا دعویٰ ریلوے کے دعوے سے بھی پرانا ہے۔ دوسری بات کمیشن یہ کہہ رہا ہے کہ ریلوے نے جو نقشہ دیا وہ ریلوے کی پلاننگ کا حصہ ہے۔ صرف پلاننگ کی بنیاد پر اس زمین کو ریلوے کی زمین کیسے مانا جا سکتا ہے۔ صرف ون بھول پورا بستی نہیں جو نزول زمین میں آباد ہے اتر اکھنڈ کے کئی علاقے نزول زمین پر قائم ہیں۔ ایسے میں اگر ریلوے کی ایک پلاننگ کی بنیاد پر ون بھول پورا کو اجاڑا گیا تو ریاست کے کئی حصوں میں دیگر محکموں کی بھی ایسی ہی کسی پرانی پلاننگ کی بنیاد پر لوگوں کو اجاڑنا آسان ہو جائے گا۔
کچھ لوگوں کادعویٰ
ایک رپورٹ کے مطابق یہاں کچھ لوگ تو یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہلدوانی میں ایک سیاسی پارٹی اس بات کو لے کر پریشان رہتی ہے کہ ہلدوانی میں اس کے امیدوار کو کبھی یہاں سے کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے اور وہ اس کی وجہ یہاں آباد اقلیتی آبادی کو مانتے ہیں۔ اس لیے اگر ون بھول پورا بستی کو توڑ کر یہاں رہنے والے قریب پچاس ہزار لوگوں کو بے دخل کر دیا جاتا ہے تو آنے والے وقت میں پارٹی کی کامیابی کی راہ آسان ہو جائے گی۔
ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ‘ہر سر پر چھت’ کا نعرہ کیا واقعی کھوکھلا تھا؟ کیا پی ایم آواس یوجنا کے تحت ہر شخص کو مکان دینے کا وعدہ غلط ہے؟ اگر ہلدوانی میں یہ کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو تقریباً پچاس ہزار لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔ایسے میں مرکزی وریاستی حکومتیں کیا ان لوگوں کو چھت مہیا کریں گی؟
***
***
‘نزول بھومی’ (زمین) کیا ہے؟
’لائو لا اِن‘ کے مطابق زمین خریدتے وقت بہت سی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ کئی مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ کسی زمین پر نزول زمین کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ نزول زمین کیا ہے اور کیا نزول زمین خریدی اور بیچی جا سکتی ہے؟ ہندوستان میں اس سے متعلق ایک مکمل قانون موجود ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق ہوتے ہیں۔ حکومت کے پاس بھی زمین ہوتی ہے جسے سرکاری زمین کہا جاتا ہے، ان سرکاری زمینوں میں ایک زمین وہ ہوتی ہے جسے نزول زمین کہتے ہیں۔
انگریزوں کی حکومت سے پہلے بھارت کوئی ایک ملک نہیں تھا بلکہ مختلف علاقوں پر مختلف بادشاہوں کی حکومت تھی، کئی شاہی ریاستیں تھیں، ان شاہی ریاستوں میں کچھ ریاستیں انگریزوں کا ساتھ دیتی تھیں اور بہت سی ریاستیں انگریزوں کے خلاف بغاوت کرتی تھیں۔ اسی طرح عام لوگوں میں اکثر انگریزوں کی مخالفت کرتے تھے اور بعض موافقت۔ انگریز ان لوگوں کو جو ان کی مخالفت کرتے تھے انہیں مجرم قرار دیتے تھے۔ ان پر مقدمہ چلایا جاتا اور سزا دی جاتی۔ باغیوں میں امیر و غریب دو طرح کے لوگ ہوتے تھے۔ بہت سے لوگ زراعت پیشہ تھے جن کے پاس زمینیں ہوتی تھیں۔ یہ لوگ جب انگریزوں کی مخالفت کرتے تو انگریز ان کی زمینیں ضبط کر لیتے تھے۔ بہت سے معاملات میں لوگ زمینیں چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ انگریز انہیں مفرور قرار دیتے تھے۔ اس طرح ان لوگوں کی زمینیں انگریزوں کے قبضے میں آتی تھیں۔ ایسی زمین کو نزول کی زمین کہا جاتا تھا۔
آزادی کے بعد یہ زمینیں ان زمینداروں کے ورثاء کو واپس کر دی گئیں جن سے انگریزوں نے چھینی تھی۔ لیکن بہت سی زمینیں ایسی تھیں جن کے وارث باقی نہیں رہے۔ لوگ اپنے شہر اور دیہات چھوڑ کر واپس نہیں آئے، کیونکہ کافی عرصہ گزر چکا تھا۔ جیسے 1857ء میں کسی جنگجو نے بغاوت کی اور اس وقت اپنا گاؤں چھوڑ دیا۔ پھر سو سال بعد آزادی ملی، پھر ان جنگجوؤں کے مبینہ وارثوں کے پاس ریکارڈ پر کچھ نہیں بچا کہ یہ ثابت کر سکیں کہ وہ زمین کے وارث ہیں۔ لہذا ایسی زمین نزول ہو گئیں۔
کوئی بھی زمین جو سرکاری ریکارڈ میں نزول کے نام سے درج ہے، وہ منتقل تو کی جا سکتی ہے لیکن اس کی ملکیت تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ حکومت اس زمین کی مالک رہتی ہے، صرف اس کا استعمال تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ زرعی اراضی کو سیرابی، غیر آبپاشی اور بنجر نام کے مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023