تفتیشی صحافت کے عالمی نیٹ ورک پر بی جے پی چراغ پا
اڈانی قضیہ کی بین الاقوامی میڈیا کووریج سے بے چینی، امریکہ نے صفائی دی
شہاب فضل، لکھنؤ
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کچا چٹھا سامنے لانے کے بہترین وسیلے، یوٹیوب چینلوں پر بھی کارآمد اور معلوماتی مباحث
امریکی محکمہ انصاف نے اڈانی گروپ کے مالک گوتم اڈانی کے خلاف امریکہ میں سیکورٹیز فراڈ اور رشوت کی سازشوں کے الزامات لگائے ہیں جس میں امریکی نظام فوجداری انصاف کے مطابق انہیں پانچ سے بیس سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ ویب پورٹل دی نیوز منٹ ڈاٹ کام نے اس موضوع پر سپریم کورٹ آف انڈیا کے وکیل کے وی دھننجے کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں انہوں نے اس معاملہ کے قانونی پہلوؤں اور امریکی عدالت میں گوتم اڈانی اور دیگر کے خلاف فرد جرم عائد کیے جانے کے قانونی مضمرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔
دراصل اس پورے معاملے کی تحقیق چند صحافی بشمول آنند منگنالے، روی نائر اور این بی آر ارکاڈیو، عالمی تفتیشی صحافت کے معروف ادارے آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن پروجیکٹ (او سی سی آرپی ڈاٹ او آر جی) کی مدد سے گزشتہ سال سے کررہے تھے اور یہ رپورٹیں برطانیہ کے مشہور اخبار فائنانشیل ٹائمز اور گارجین میں شائع ہوئیں، مگر بھارت میں ان پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ امریکہ محکمہ انصاف کی جانب سے گوتم اڈانی کے خلاف عدالت میں چارج شیٹ کے بعد یہ معاملہ سرخیوں میں آیا۔
دراصل او سی سی آر پی تفتیشی صحافت کا ایک عالمی پروجیکٹ ہے جس کا صدر دفتر ایمسٹرڈم میں واقع ہے۔ اس ادارے کی ابتداء 2007 میں سینئر تفتیشی رپورٹر ڈریو سلیوان اور پال راڈو نے مشرقی یوروپ میں کی تھی۔ اس کا بنیادی کام دنیا بھر میں تفتیشی صحافیوں کی مدد سے منظم جرائم اور بدعنوانی کے واقعات کی گہرائی سے تفتیش کرکے اور شواہد جمع کرکے ان سے پردہ اٹھانا ہے۔ یہ ادارہ صحافیوں کے ساتھ اشتراک و تعاون کرکے انہیں تفتیشی ٹیکنالوجی سے لیس کرتا ہے، حقائق و معلومات کی تصدیق کے ڈیجیٹل وسائل فراہم کرتا ہے اور انہیں قانونی ہراسانی سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے نے الف نام سے ایک سافٹ ویئر ٹول تیار کیا ہے جو چار ملین سے زائد دستاویزات پر مشتمل ایک ڈاٹا پلیٹ فارم ہے۔ تفتیشی صحافیوں کے لیے یہ معلومات کا خزانہ ہے۔ ادارے کے ریسرچ ایکسپرٹ اور ڈاٹا ماہرین، افراد، اداروں، کمپنیوں اور املاک کا پتہ لگانے میں شریک کار تفتیشی صحافیوں کی مدد کرتے ہیں۔ تفتیشی صحافیوں کی قانونی حفاظت کے لیے او سی سی آر پی نے رپورٹرز شیلڈ نام سے ایک ممبر شپ پروگرام بھی متعارف کرایا ہے تاکہ صحافیوں کو بے جا قانونی ہراسانی سے بچایا جاسکے۔ مفاد عامہ کی رپورٹنگ میں اس ادارے کو سندِ اعتبار حاصل ہے۔
حالانکہ ان رپورٹوں کے سامنے آنے کے بعد اڈانی گروپ کے دفاع میں بی جے پی نے یہ الزام عائد کیا کہ امریکی محکمہ خارجہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتی کاروباری گوتم اڈانی کو نشانہ بنا رہا ہے اور او سی سی آر پی کے پس پشت امریکی محکمہ خارجہ کا ہاتھ ہے۔پارٹی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر یکے بعد دیگرے یہ الزامات پوسٹ کیے، جن میں او سی سی آر پی کی تفتیشی رپورٹنگ کے پیچھے امریکی محکمہ خارجہ کا ہاتھ بتایا گیا ہے۔ اس میں یو ایس ایڈ کا بھی نام لیا گیا جو امریکی محکمہ خارجہ کا ترقیاتی امدادی ادارہ ہے۔ بی جے پی نے او سی سی آر پی کی رپورٹوں کو مشہور امریکی کاروباری جارج سوروس سے بھی جوڑا ہے۔ ایک بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے اوسی سی آر پی کو کانگریس سے جوڑ دیا اور بعض نے اسے امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والا ادارہ قرار دیا ۔
امریکہ نے حکم راں بی جے پی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ خارجہ پر اینٹی مودی ایجنڈے کا الزام افسوسناک ہے۔بھارت میں امریکی سفارت خانہ کے ترجمان نے کہا کہ ’’امریکہ پوری دنیا میں میڈیا کی آزادی کا چیمپیئن ہے اور وہ میڈیا اداروں کی ادارتی پالیسی پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ ایک آزاد پریس کسی بھی جمہوریت کا اہم حصہ ہے جس سے مثبت اور معلوماتی بحث کی گنجائش پیدا ہوتی ہے اور حکومت کو جواب دہ بنایا جاتا ہے‘‘۔
امریکی سفارت خانہ کے ترجمان نے اس سے انکار نہیں کیا کہ امریکی حکومت او سی سی آر پی کو فنڈ مہیا کرتی ہے تاہم یہ واضح کیا کہ ’’امریکی حکومت آزاد اداروں کے ساتھ ایسے پروگراموں پر کام کرتی ہے جن سے صحافیوں کی پیشہ ورانہ ترقی اور صلاحیت کے فروغ کی تربیت میں مدد ملتی ہے اور یہ ان اداروں کے ادارتی فیصلوں کو متاثر نہیں کرتا‘‘۔
یوٹیوب، فیس بک اور ایکس سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کا مثبت استعمال بی بی سی کے سابق صحافی قربان علی 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کے انہدام کے وقت ایودھیا میں موجود تھے۔ وہ مسجد کے انہدام کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے 1987 میں میرٹھ فساد اور ہاشم پورہ وملیانہ کے قتل عام کی بھی رپورٹنگ کی تھی۔ انہوں نے 2021 میں ہریدوار دھرم سنسد میں نفرت انگیز تقریروں کے خلاف مفاد عامہ کی عرضی داخل کی۔ 2024ء کے عام انتخابات میں نفرت انگیز تقریر پر نریندر مودی کے خلاف بھی انہوں نے عدالت میں کیس درج کرایا ہے۔
یوٹیوب چینل ناؤس نیٹ ورک پر 35 سال کا صحافتی تجربہ رکھنے والے اس سینئر صحافی سے علی جاوید نے تقریباً دو گھنٹے تک بات چیت کی اور مذکورہ بالا تمام امور کا احاطہ کیا ہے۔ یہ پوڈ کاسٹ ملک کی سیاست، ماضی کی کانگریس پارٹی کے مختلف چہروں، سماجوادی تحریک، نفرت کی سیاست اور حالات حاضرہ کے تمام واقعات پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کس طرح سیاسی طاقتوں بشمول کانگریس اور سوشلسٹوں نے ہندتوا کے ابھار کی راہ ہموار کی۔
اس پوڈ کاسٹ سے سوشل میڈیا کی افادیت کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ نام نہاد مین اسٹریم میڈیا میں جو باتیں جان بوجھ کر نظر انداز کی جاتی ہیں انہیں متبادل میڈیا میں آسانی سے نشر اور شائع کیا جا سکتا ہے اور مثبت بیانیہ کو تشکیل و ترتیب دیا جاسکتا ہے ۔
اسی بات کو کرانتی کمار نے اپنے ایکس پوسٹ میں کچھ اس طرح سمجھانے کی کوشش کی ہے: ’’ہم مین اسٹریم نیوز چینل کے دروازے پر گئے۔ ہم نے کہا ایک ضروری اطلاع ہے اسے نشر کر دیجیے۔ آج تک والوں نے پوچھا کیا ہے؟ ہم نے کہا، بودھ تہذیب آٹھ سوسال پرانی ہے، وادی سندھ کی تہذیب بھی بودھ تہذیب تھی۔ سنسکرت سے بھی پرانی زبان پراکرت اور پالی زبان ہے۔آج تک والا یہ سن کر بولا: ہمارے باس شکلاجی ہیں ان سے پوچھنا ہوگا۔ ہم لوگ آپ کو فون کریں گے۔ لیکن فون نہیں آیا، ہم ساری بات سمجھ گئے۔ اس کے بعد ہم اے بی پی نیوز، زی نیوز، انڈیا نیوز وغیرہ چینلوں کے دروازے پر گئے۔ ہمارا سامنا ترپاٹھی، شرما، تیواری، اپادھیائے، دوبے، باجپئی نام کے صحافیوں سے ہوا۔۔۔۔۔۔ ہم واپس گھر آئے، اپنی جانکاری کو فیس بک اور ایکس (ٹوئٹر) پر نشر کردیا۔ لاکھوں لوگوں نے پڑھا، بودھ تہذیب سب سے قدیم تہذیب ہے۔ ویدک ثقافت اس کے بعد کی ہے۔ ۔۔۔۔۔ سوشل میڈیا ہی سچا میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا ہی بہوجن میڈیا ہے۔سوشل میڈیا پر لکھنے بولنے والا ہر شخص صحافی ہے۔ سوشل میڈیا آپ کی آواز ہے۔ہم یہاں پے آؤٹ کے لیے آئے ہیں۔ ہم نے نو سو روپے میں ایلن مسک کو خریدا ہے۔ کیا ہم نو سو روپے ماہانہ ادا کرکے سچے میڈیا کو زندہ نہیں رکھ سکتے؟‘‘
بدایوں کی شاہی جامع مسجد کو بھارت کی تیسری سب سے قدیم مسجد اور ساتویں سب سے بڑی مسجد بتایا جاتا ہے جس میں تیئس ہزار سے زائد افراد بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں۔اس مسجد پر مندر کا دعویٰ کیے جانے کے بعد سے یہ تاریخی مسجد سرخیوں میں آگئی ہے۔یوٹیوب چینل ’دیش بھکت‘ پر اس قضیہ پر بات کرتے ہوئے یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مسجدوں پر اس طرح کے دعوے کرکے مسلمانوں کے خلاف زہر بونے اور انہیں دشمن ثابت کرنے کے طویل مدتی منصوبہ کا یہ ایک حصہ ہے۔دیش بھکت چینل کے اس ویڈیو کو چار دن میں اٹھارہ لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں۔ چینل کے سبسکرائبرز کی تعداد باون لاکھ سے زائد ہے۔
اسی طرح معروف قانون داں کپل سبّل نے اپنے یو ٹیوب چینل ’دل سے وِد کپل سبّل‘ پر ملک میں عدلیہ کی صورت حال پر سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو سے بات چیت کی ہے۔ پینتیس منٹ کے اس پوڈ کاسٹ کو دو ہفتہ میں تقریباً ترتالیس ہزار لوگ دیکھ چکے ہیں جب کہ اسی پوڈ کاسٹ کو ’لا ٹوڈے‘ یوٹیوب چینل پر بارہ دنوں میں تقریباً ڈھائی لاکھ لوگوں نے دیکھا ہے۔
صحافیوں کی آزادی پر قدغن اور جھوٹے پروپیگنڈے
وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں میڈیا ادارے ایک خاص انداز میں کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے صحافیوں کو ادارے کے منشا و مرضی کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے اور جو اپنی آزادی برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں نوکری چھوڑنی پڑتی ہے۔ نیٹ ورک 18 میڈیا گروپ کے ریلائنس کی ملکیت میں جانے کےبعد اس ادارے کے حال چال پر انگریزی کے میگزین ’کارواں‘ نے طویل کَور اسٹوری شائع کی ہے جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح اس میڈیا ادارے کے اب صرف دو ایجنڈ ے رہ گئے ہیں: ریلائنس کا کاروباری مفاد اور نریندر مودی کے مفادات۔
کاررواں میگزین نے اپنے ایکس ہینڈل پر اس کووریج کی ایک جھلک پیش کرتے ہوئے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ نیٹ ورک 18 کے ہندی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے سربراہ دیا شنکر مشرا نے کانگریس سربراہ راہل گاندھی پر 2023ء میں ایک کتاب لکھی تھی، جس کی وجہ سے انہیں نیٹ ورک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ۔حالانکہ اسی ادارے سے وابستہ نلین مہتا، راہل شیو شنکر اور اجے سنگھ نے نریندر مودی پر کتابیں لکھیں مگر ان سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی اور دماغی صحت پر دیا شنکر مشرا کی ایک دیگر کتاب پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ البتہ راہل گاندھی پر کتاب کی وجہ سے انہیں عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔
کارپوریٹ میڈیا کی جانب داری کی نشان دہی سندیپ منودھانے نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: پوری کارپوریٹ میڈیا 2009 سے راہل گاندھی کی شبیہ بگاڑنے میں لگی ہوئی ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے جواب میں کچھ نہیں کیا۔اس بیہودگی کو وہ خاموشی سے دیکھتے رہے۔کوئی کاؤنٹر پروپیگنڈہ یعنی سچائی سامنے لانے کی حکمت عملی نہیں اپنائی۔ سچ کو جھوٹ میں تبدیل ہوتا دیکھتے رہے۔کانگریس کے زیادہ تر عہدیدار کاہل یا نکمے ہیں۔ لیگل سیل تقریباً مُردہ ہے۔
پوری وہاٹس ایپ مشینری اب نومبر 2024ء سے پرینکا گاندھی کی شبیہ کو خراب کرنے میں لگ گئی ہے۔پندرہ سال ہوگئے، انڈین نیشنل کانگریس نے کوئی جوابی پروپیگنڈہ نظام ترتیب دینے میں دلچسپی نہیں لی۔ عجب کی پارٹی ہے!
مسٹر سندیپ کی کانگریس سے یہ جھنجھلاہٹ بھری ناراضگی عوامی سطح پر کارپوریٹ میڈیا کے تئیں پائی جانے والی ناراضگی کا بھی اشارہ ہے، جس کی وجہ سے کارپوریٹ میڈیا نے اپنا اعتبار اور وقار کھویا تو دوسری طرف متبادل میڈیا کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
***
***
’’ہم مین اسٹریم نیوز چینل کے دروازے پر گئے۔ ہم نے کہا ایک ضروری اطلاع ہے اسے نشر کر دیجیے۔ آج تک والوں نے پوچھا کیا ہے؟ ہم نے کہا، بودھ تہذیب آٹھ سوسال پرانی ہے، وادی سندھ کی تہذیب بھی بودھ تہذیب تھی۔ سنسکرت سے بھی پرانی زبان پراکرت اور پالی زبان ہے۔آج تک والا یہ سن کر بولا: ہمارے باس شکلاجی ہیں ان سے پوچھنا ہوگا۔ ہم لوگ آپ کو فون کریں گے۔ لیکن فون نہیں آیا، ہم ساری بات سمجھ گئے۔ اس کے بعد ہم اے بی پی نیوز، زی نیوز، انڈیا نیوز وغیرہ چینلوں کے دروازے پر گئے۔ ہمارا سامنا ترپاٹھی، شرما، تیواری، اپادھیائے، دوبے، باجپئی نام کے صحافیوں سے ہوا۔ ہم واپس گھر آئے، اپنی جانکاری کو فیس بک اور ایکس پر نشر کردیا۔ لاکھوں لوگوں نے پڑھا، بودھ تہذیب سب سے قدیم تہذیب ہے۔ ویدک ثقافت اس کے بعد کی ہے۔ سوشل میڈیا ہی سچا میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا ہی بہوجن میڈیا ہے۔سوشل میڈیا پر لکھنے بولنے والا ہر شخص صحافی ہے۔ سوشل میڈیا آپ کی آواز ہے۔ہم یہاں پے آؤٹ کے لیے آئے ہیں۔ ہم نے نو سو روپے میں ایلن مسک کو خریدا ہے۔ کیا ہم نو سو روپے ماہانہ ادا کرکے سچے میڈیا کو زندہ نہیں رکھ سکتے؟‘‘
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 دسمبر تا 21 دسمبر 2024