تبلیغی جماعت میڈیا کوریج: متعصبانہ ٹی وی پروگراموں پر پابندی نہ لگانے پر سپریم کورٹ نے مرکز سے پوچھے سوال
نئی دہلی، جنوری 28: جمعرات کو سپریم کورٹ نے تبلیغی جماعت کے خلاف بعض ٹیلی وژن پروگراموں پر پابندی لگانے کے لیے سنجیدہ اقدام نہ اٹھانے پر مرکز کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سپریم کورٹ نے ان خبروں کا بھی نوٹس لیا جن سے تشدد بھڑکانے کی اطلاعات ہیں۔
چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے اور جسٹس ایس اے بوپنا اور وی رام سبرامنیم کے ایک بینچ ایک درخواست کی سماعت کررہی تھی، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ گذشتہ سال دہلی میں تبلیغی جماعت کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے میڈیا کے کچھ حصوں نے ’’فرقہ وارانہ سرخیاں‘‘ اور ’’متعصبانہ بیانات‘‘ استعمال کیے تھے۔
دی ہندو کے مطابق آج سماعت کے دوران چیف جسٹس بوبڈے نے اس طرح کی نشریات کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر مرکز کی نمائندگی کرنے والے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا سے پوچھ گچھ کی۔
بوبڈے نے کہا ’’عام طور پر منصفانہ اور سچائی پر مبنی رپورٹنگ کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب اسے دوسروں کو مشتعل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسی نشریات، پروگرام موجود ہیں جن کا اثر لوگوں کو بھڑکانے کے لیے کافی ہے، نہ صرف ایک برادری کے بلکہ کسی بھی برادری کے خلاف۔ آپ ان سے چشم پوشی کیوں کر رہے ہیں… آپ ان کے بارے میں کچھ نہیں کرتے ہیں؟‘‘
پی ٹی آئی کی خبر میں بتایا گیا کہ کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد عدالت نے اس کی مثال بھی پیش کی کہ منگل کے روز دہلی کے کچھ حصوں میں حکومت نے انٹرنیٹ بند کردیا تھا۔ بوبڈے نے کہا ’’آپ نے موبائل انٹرنیٹ بند کردیا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو کہیں بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کل ٹی وی میں کیا ہوا تھا۔‘‘
مواد کی نشریات پر قابو پانے کے لئے کیبل ٹی وی نیٹ ورکس (ریگولیشن) ایکٹ 1994 سمیت قوانین کے ممکنہ استعمال کی نشان دہی کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اس طرح کے اقدامات ضروری ہیں۔
دی ہندو کے مطابق بوبڈے نے کہا ’’کسی خاص قسم کی خبروں پر قابو رکھنا جو لوگوں کو تشدد اور فسادات پر اکساتا ہے، امن و امان کا مسئلہ ہے۔‘‘
بوبڈے کے مشاہدات کے جواب میں مہتا نے بتایا کہ مرکز قابل اعتراض مواد کی نشریات کو روک سکتا ہے اور وہ ان واقعات کی تفصیلات ریکارڈ کرائے گا جہاں کیبل ٹی وی ایکٹ کے تحت حکومت نے اپنے اختیارات استعمال کیے ہیں۔