تاریخِ فلسطین: میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
ٹرمپ اور نیتن یاہو کا مشترکہ مذموم منصوبہ ،ایک خواب ہی رہے گا ،شرمندہ تعبیر نہ ہوگا
ڈاکٹر سلیم خان
ابتدا سے حماس کی کامیاب فوجی کارروائیاں: اسرائیل کے خلاف ایک منظم مزاحمت کا عروج
ڈونالڈ ٹرمپ کی احمقانہ تجویز،ان کی فلسطینی تاریخ اور مسلسل جدوجہد سے عدم واقفیت کی دلیل
نیتن یاہو کی موجودگی میں پیش کردہ ٹرمپ کا مذموم منصوبہ دراصل غزہ میں دونوں کی مشترکہ شکست کا اعتراف ہے۔ ان دونوں نے ساری دنیا کے سامنے بلا واسطہ طور پر یہ تسلیم کرلیا کہ لاکھ تباہی و بربادی کے باوجود نہ تو بزور قوت غزہ پر قبضہ کیا جاسکتا ہے اور نہ وہاں کےجانباز عوام کو نقل مکانی پر مجبور کرنا ممکن ہوا ۔ اس حقیقت کا ادراک اس بدمعاش جوڑی کو پندرہ ماہ کی جنگ میں شکست فاش کے بعد ہوا ۔ اس لیے اب وہ دونوں چور دروازے سے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے سازش کر رہے ہیں مگر یہاں بھی انہیں پہلے کی طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا ۔ غزہ کی پٹی میں فلسطین اور اسرائیل کے بیچ لڑی جانے والی حالیہ جنگ کا آغاز 7اکتوبر 2023 کے حملے سے ہوا۔ اس بیچ 24 نومبر 2023 کو عارضی جنگ بندی کے تحت کچھ یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی ترسیل عمل میں آئی مگر دوبارہ حملے شروع ہو گئے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان دوسرا جنگ بندی کا معاہدہ 15 جنوری 2025 کو طے پایا اور اس کاپہلا مرحلہ تمام تر اندیشوں کے باوجود ہنوز جاری ہے اور اسے ماضی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ بقول علامہ اقبال؎
یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اِکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
غزہ کی تاریخ ویسے تو پانچ ہزار سال پرانی ہے مگر ماضی قریب کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1949 سے لے کر اب تک یہ ننھا سا علاقہ تقریباً 15 مرتبہ میدانِ جنگ میں نبرد آزمائی کر چکا ہے۔ 1950 میں غزہ کے اندر مصر کی عمل داری قائم ہوئی ۔ اسی زمانے میں مغربی کنارے کو اردن کی انتظامی حکم رانی میں دیا گیا۔ ارضِ فلسطین کے حریت پسندقوم ہمیشہ اسرائیلی جارحیت سے برسرِ پیکار رہی مگر تحریک آزادی کا باقائدہ اور منظم آغاز 1964 میں اس وقت ہوا جب آزادی کے متوالوں نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) قائم کی اور ایک سال بعدمغربی کنارے میں الفتح نامی سیاسی جماعت کی بنیاد بھی رکھ دی گئی۔ اس تحریک کو ابھی تین سال بھی نہیں گزرے تھے کہ 5 جون 1967 کو اسرائیل اور عرب افواج کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ عربی اتحاد کو6 روزہ جنگ میں شکست دے کر اسرائیل نے غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، شام میں گولان کی پہاڑیوں اور مصری جزیرہ نما سینائی سمیت باقی ماندہ فلسطین پر بھی قبضہ کر لیا۔
قیامِ اسرائیل کے بعد فلسطینیوں کو پہلی مرتبہ ہجرت پر مجبور ہونا پڑا تھا مگر 6 روزہ جنگ کے بعد دوسری بار جبری نقل مکانی کی نوبت آن پڑی ۔ مگر اب ڈونالڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو تیسری بار غزہ کے باشندوں کو وہاں سے نکالنے کی نئی سازشیں رچ رہے ہیں۔ لیکن اس دوران مجاہدین کا ایک زبردست لشکر تیار ہوچکا ہے اس لیے اب یہ ہدف ناممکن لگتا ہے۔ اسرائیل اور امریکی استعمار کے راستے میں یہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کیسے تعمیر ہوئی اس کی ایمان افروز تفصیل یہ آیت ہے جس میں فرمایا گیا (ترجمہ) ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ ہوا یہ کہ دسمبر 1987 میں غزہ کے اندرایک اسرائیلی ٹرک نے فلسطینی مزدوروں کو لے جانے والی دو وینوں کو ٹکرماردی ۔ اس ظلم کے خلاف نوجوان فلسطینیوں نے اسرائیلی فوج کے ٹینکوں اور فوجیوں پر پتھراؤ کرنا شروع کردیا۔اسرائیل نے مظاہرین کو کچلنے کے لیے چار فلسطینیوں کو شہیدکردیا مگر پھر بھی یہ احتجاج تیزی کے ساتھ مغربی کنارے تک پھیل گیا ۔
یہ پر عزم مزاحمت مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر پہلی فلسطینی انتفاضہ یا بغاوت کا آغازتھا ۔ اس احتجاج کے بطن سے حماس نامی تحریک کا جنم ہوا۔ اخوان المسلمون کی یہ فلسطینی شاخ اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کی قائل تھی اور اب بھی ہے۔ عالمی قوانین بیرونی تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد کے حق کو تسلیم کرتے ہیں ۔ حماس کےقیام نے فلسطینی آزادی کی تحریک کو ایک نئے دور میں داخل کردیا کیونکہ اب اس کی کمان دین بیزار قیادت کے بجائے دیندار مجاہدین کے ہاتھ میں تھی۔ دو سال بعد( 1989میں) حماس نے اسرائیلی فوجی اہداف پر اپنا پہلا حملہ کیا جس میں دو اسرائیلی فوجیوں کا اغوا اور قتل شامل تھا۔7 ستمبر 2023کے حملے اور یرغمال بنانے کے واقعہ پر حیرت کا اظہار کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ چھوٹے پیمانے پر اسی حکمتِ عملی پر 34 سال قبل عمل ہوچکا ہے۔ انتفاضہ نامی یہ عوامی تحریک صرف فوجی حملوں تک محدود نہیں تھی بلکہ اس کے تحت بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے۔ سِول نافرمانی کے ساتھ باہمی تعاون کے ساتھ منظم ہڑتالیں بھی کی گئیں ۔
اس ہمہ گیر مزاحمت نے ساری دنیا کی توجہ مسئلہ فلسطین کی جانب مبذول کروادیں اور امریکہ و روس دونوں نے مل کر میڈرڈ میں اسے حل کرنے کے لیے گفت و شنید کا آغاز کیا۔ پہلی انتفاضہ کی یہ بڑی کامیابی تھی کہ 1993 میں خود سر اسرائیل کو اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔اس معاہدے کا مقصد اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم کرنا تھا۔ حماس نے اس کی مخالفت کی اور اسرائیل میں بم دھماکوں اور اور فائرنگ کے متعدد واقعات انجام دیے۔ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھاریٹی کا قیام عمل میں آیا اور انتفاضہ کا خاتمہ ہو گیا۔ فلسطینی اتھاریٹی کی عبوری حکومت قائم ہوئی تو اس کو مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے کچھ حصوں میں محدود خود مختاری بھی ملی۔4 مئی 1994 کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان غزہ-جیریکو معاہدے پر دستخط کے ساتھ اوسلو معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوا۔اس کے تحت اسرائیلی انتظامیہ نے نوتشکیل شدہ فلسطینی اتھاریٹی کو اقتدار منتقل کیا نیز، غزہ اور مغربی کنارے کے شہر جیریکو سے اسرائیلی افواج کو نکلنا پڑا۔
سامنے رکھتا ہوں اس دورِ نشاط افزا کو مَیں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میَں
1995 میں اوسلو معاہدے کی آڑ میں اسرائیل نے بڑی چالاکی سے غزہ کی پٹی کے گرد الیکٹرانک باڑ اور کنکریٹ کی دیوار تعمیر کرکے فلسطینی علاقوں کے درمیان رابطہ منقطع کردیا۔اسرائیل کو امن کا علم بردار بتا کر فلسطینی مجاہدین آزادی پر دہشت گردی کا الزام لگانے والا مغربی میڈیا یہ نہیں بتاتا کہ اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے والے پانچویں اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو کس نے اور کیوں گولی مار کر ہلاک کیا تھا اور اس قتل کا مقصد کیا تھا ؟کیونکہ اس کی حقیقت کچھ ایسی ہے کہ 4 نومبر 1995 کو وزیر اعظم اسحاق رابن تل ابیب میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی امن ریلی کو مخاطب کرکے نکلے ہی تھے کہ 20 سالہ دہشت گرد یگل امیر نے خود اپنے ہی ملک کے وزیر اعظم کا قتل کردیا ۔ گرفتاری کے بعد ناتھو رام گوڈسے کی ماننداس سفاک قاتل نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ اس کے اس جرم کی بنیاد مذہبی تھی۔ وہ اوسلو معاہدے کی مخالفت اس لیے کررہا تھا کیونکہ اسے مقدس سرزمین کو فلسطینیوں کے حوالے کرناگوارہ نہیں تھا۔یگل امیر نے فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمین واپس کرنے سے روکنے کے لیے یہ قتل کیا تھا۔
اسرائیل میں موجودہ برسرِ اقتدار لیکوڈ پارٹی کے انتہائی شر پسند اپوزیشن لیڈر ایریل شیرون نے28 ستمبر 2000 کو ہزاروں سیکورٹی فورسز کے ساتھ مسجد اقصیٰ پر چھاپہ مارا۔اس بے حرمتی کے خلاف احتجاج کے دوران دو دنوں میں مظاہرین اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں پانچ فلسطینی شہید اور 200 زخمی ہو گئے۔ اس طرح دوسری انتفاضہ کا آغاز ہوگیا ۔25 سال قبل بھی اسرائیل نے فلسطینیوں کی مزاحمت کو کچلنے کے نہ صرف بے شمار لوگوں کو شہید کیا بلکہ معیشت اور انفراسٹرکچر کو بھی زبردست نقصان پہنچایا تھا ۔ اس لیےاس کی حالیہ تباہی و بربادی بھی نئی نہیں ہے۔ اسرائیل جس طرح اب حماس کو غزہ کے اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتا ہے اسی طرح اس نے دوسری انتفاضہ کا بہانہ بناکر فلسطینی اتھاریٹی کے زیر انتظام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا اور فلسطینی خطے کو تقسیم کرنے والی دیواروں کی تعمیر شروع کر دی تھی ۔ یہ دراصل بڑے پیمانے پر یہودی بستیاں تعمیرکرکے فلسطینیوں کو تباہ کرنے کی ایک سازش تھی۔ اس کے تحت لاکھوں یہودی غاصب فلسطینیوں کی ہڑپ کردہ زمین پر بنائی گئی کالونیوں میں منتقل کیے گئے اور ٹرمپ پھر ایک بارغزہ میں رویرا کا خواب دِ کھا کر یہی کرنا چاہتا ہےبقول اقبال؎
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات
ایک چوتھائی صدی قبل اسرائیل نے جو لوٹ مار مچائی اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اوسلو معاہدے پر دستخط کے وقت مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں صرف ایک لاکھ دس ہزار یہودی رہتے تھے۔ آج یہ تعداد سات لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ یہ سارے لوگ فلسطینیوں سے چھینی گئی ایک لاکھ ہیکٹر سے زیادہ زمینوں پر قابض ہیں۔ 2004 میں پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات کا انتقال ہوا نیز پی ایل او زوال پذیر ہوگئی۔ اس کے بعد فلسطینی عوام کے سامنے حماس ایک واحد متبادل رہ گیا۔ اسرائیل نے حماس کے حوصلے پست کرنے کے لیے 22 مارچ 2004ء کو ایک میزائل حملے میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو فجر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے شہید کردیا ۔ اس حملے میں ان کے دو محافظ سمیت لوگ جاں بحق ہوگئے۔ان کے بعد حماس کی کمان سنبھالنے والے عبدالعزیز رنتیسی کو بھی شہید کیا گیا مگر مزاحمت جاری رہی ۔ موجودہ مزاحمت کے دوران اسماعیل ہنیہ اور یحیٰ سنوار کو شہید کرنے والے بھول گئے کہ اگر اس طرح کے بزدلانہ حملوں سے حماس کو روکنا اگر ممکن ہوتا تو وہ 20 سال قبل ختم ہوجاتی لیکن ان کا عقیدہ تو یہ ہے کہ ’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا
2005میں جب دوسری انتفاضہ اختتام پذیر ہو ئی تو اس کے نتیجے میں غزہ سے اسرائیلی فوجی سمیت 9 ہزار یہودی آباد کار پٹی چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ یہ حماس کی دوسری بڑی فوجی کامیابی تھی ۔ 2006 میں فلسطین میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے تو امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے اس الیکشن کے شفاف اور غیر جانب دار ہونے کی گواہی دی ۔ عوام نے انتخاب میں حسب توقع حماس کو اکثریت سے نواز ا مگرالفتح نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ حماس کے خلاف اسرائیل کے ساتھ ملی بھگت کرکے سازش میں ملوث ہوگئی مگر اسے بھی ناکام کردیا گیا۔ الفتح کی غداری کے بعد غزہ سے نکاسی ہوگئی اوراس کا دائرہ کار مغربی ساحل کے کچھ حصوں تک محدود ہوگیا۔ حالانکہ انتخابی نتائج کے مطابق وہاں بھی حماس کا ہی حق تھا۔اپنی تمام تر کوششوں اور سازشوں میں ناکامی کے بعد جون 2007 میں اسرائیل نے حماس پر دہشت گردی کا الزام لگاکر غزہ کی زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کر دی۔ اس طرح گویا غزہ کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کرنے کی سازش رچی گئی ۔لہذا 7 اکتوبر کا حملہ اسی غیر قانونی حصار کو توڑنے کی ایک کامیاب کوشش تھی۔ علامہ اقبال کی شاعری میں اس کی منظر کشی ملاحظہ فرمائیں ؎
ہُوئے احرارِ مِلّت جادہ پیما کس تجمّل سے
تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زِندانی
اسرائیل کے اندر منعقد ہونے والے مختلف انتخابات کے موقع پر اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے نہ صرف بائیں بازو کے انتہا پسندوں نے بلکہ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے بھی غزہ کو تختۂ مشق بنایا ۔ 2008، 2012، 2014 اور 2021 میں اسرائیل نے چار بار جنگ چھیڑ کر غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ۔ ان جنگوں میں ہزاروں فلسطینی شہید ہوئےجن میں زیادہ تر بچے اور خواتین تھے ۔ ان حملوں میں ہزاروں گھر، مدارس اور دفاترا ور عمارتیں تباہ ہوئیں۔ جمہوریت نواز روشن خیال اسرائیل نے اپنے حملوں میں بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ ہتھیارمثلاً فاسفورس گیس تک کا استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا ۔ حالیہ جنگ کو بھی نیتن یاہو کے اقتدار کو بچانے کے لیے طول دیا گیا ۔ اس دوران حماس نے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیا اور جب ٹرمپ کی قیادت میں دسمبر 2017 میں امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیاتو فلسطینیوں نے احتجاج کرنا شروع کردیا۔
2018 میں غزہ اور اسرائیلی سرحد پر مظاہرین نے پتھراؤ اور پٹرول بم پھینکےتو اس کے جواب میں اسرائیل فوجی کارروائی کرنے لگا ۔اسی سال نومبر میں اسرائیل نے غزہ میں خفیہ حملہ کرکے 8 فلسطینی عسکریت پسندوں کو شہید کیا تو جواب میں اسرائیل کا بھی ایک سینئر فوجی اہلکار واصلِ جہنم کردیا گیا ۔ اس کے بعد جب اسرائیل پر حماس نے سیکڑوں راکٹ داغ دیے تو اس حملے سے صہیونیوں کے ہوش اڑگئے۔ اسرائیل نے مئی 2021 تک کسی طرح خود کو قابو میں رکھا مگر پھر مسجد اقصیٰ پر چھاپہ مارا تو اس کے جواب میں بھی حماس نے دوبارہ احتجاجاً ہزاروں راکٹ داغ کر یہ پیغام دیا کہ اب یہ جنگ یکطرفہ نہیں ہوگی ۔ حماس تنظیم اب اسرائیل کے خلاف محض مدافعت میں نہیں بلکہ اقدامی پوزیشن میں آگئی ہے ۔ 22 مارچ سے 8 اپریل 2022 کے درمیان فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل میں کیے گئے حملوں میں 14 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔اس کے جواب میں اسرائیل نے مغربی ساحل پر "بریک دی ویو” نامی فوجی آپریشن کے تحت 2022 میں 146 فلسطینی شہید کیے۔
سات اکتوبر 2023 کے حملے کو اس تاریخی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی کہا تھا کہ یہ حملہ خلا میں نہیں ہوا ہے۔ پہلے تو حماس کی جانب سے میزائل آکر اسرائیلیوں کو بنکر میں چھپنے پر مجبور کرتے تھے مگر اس بار مجاہدین نے اسرائیل میں داخل ہوکر ایک فوجی چھاونی کو نشانہ بنایا ۔ اس مزاحمت میں کم از کم 1,139 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا ۔ حماس کے اس جرأت مندانہ اقدام نے اسرائیل سمیت اس کے سارے حلیفوں کو حیران کردیا اور ان لوگوں نے مل جل کر پندرہ ماہ تک ایسی تباہی مچائی کہ اب غزہ کی تعمیر نو میں تقریباً مزید 15 سال لگیں گے۔ اس جنگ بندی کے دوران غیر معمولی استقامت کا مظاہرہ کرنے والے لاکھوں فلسطینی جب شمالی غزہ میں اپنے تباہ شدہ گھروں کو واپس ہو رہے تھے تو اچانک امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ان مظلوم مگر حوصلہ مند فلسطینیوں کے جبری نقل مکانی کا شرمناک بیان دے دیا لیکن اب یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اگر فلسطینیوں کے اس تابناک ماضی سے واقف ہوتے تو یہ احمقانہ تجویز پیش نہیں کرتے جس نے انہیں امریکہ سمیت دنیا بھر میں ذلیل و رسوا کردیا ہے۔ فلسطینیوں کی حالیہ تاریخ فیض کےان اشعار کی مصداق ہے:
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025