
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
پہلگام حملہ کی آڑ میں کلمہ توحید کو ٹارگیٹ کرنے کی مذموم کوشش
مشتاق عامر
اسلام میں امن اور سلامتی کو بنیادی اصول قرار دیا گیا ہے ۔انسانی جانوں کا احترام اور زندگی جینے کا حق ان اقدار میں شامل ہے جسے قرآن مجید نے خود طے کر دیے ہیں ۔اسلام میں انسانی جان کی حرمت کا اندازاہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے اور ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کو بچانے کے برابر قرار دیا ہے۔انسانی جانوں کی قدر کی اتنی بڑی مثال کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ انسانی احترام کی یہی اسپرٹ اسلام کے پر امن اور آفاقی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انسانی حقوق ( حقوق العباد ) کو اس کی پوری تعلیمات پر فوقیت حاصل ہے ۔اسلام کی اس شبیہ کو مسخ کرنے کی کوشش عرصہ دراز سے ہوتی رہی ہے۔اسلاموفوبیا سے مغلوب طاقتیں ایسے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں جن سے اسلام کے پر امن چہرے کو داغ دار بنایا جا سکے۔یہ طاقتیں کبھی دہشت گردی کی شکل میں ، کبھی مذہبی منافرت کی شکل میں تو کبھی میڈیا کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں ۔ گزشتہ دنوں کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے نے ہر امن پسند شہری کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ۔یہ نہایت تکلیف دہ واقعہ ہے۔ اس حملے نے انسانیت کے چہرے پر ایک ایسا گہرا زخم لگا دیا ہے جسے مندمل ہونے میں کافی وقت لگے گا۔ نیشنل اور سوشل میڈیا میں مستقل اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ دہشت گردوں نے سیاحوں کو مارنے سے پہلے ان کے مذہب کے بارے میں پوچھا اور بعض سیاحوں سے کلمہ پڑھوا کر اس کی تصدیق کی کہ آیا وہ مسلمان ہیں یا نہیں۔ میڈیا کے ذریعے اس بیانیہ کو بہت شدومد سے پیش کیا جارہا ہے کہ پہلگام میں سیاحوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ اس بیانیہ نے ایک ایسی غلط فہمی کو جنم دیا ہے جس پر کھل کر گفتگو کرنا ضروری ہو گیا ہے ۔
یاد رہے کہ اسلام کا کلمہ توحید دراصل کلمہ امن ہے ۔یہ کلمہ کسی کی جان لینے کے لیے نہیں بلکہ زندگی بخشنے کے لیے آیا ہے۔کلمہ توحید میں انسان کے لیے موت نہیں بلکہ زندگی اور عافیت پنہاں ہے۔ قرآن کہتا ہے’’ایک بے قصور انسان کو قتل کرنا ساری انسانیت کو قتل کرنا ہے‘‘۔
پہلگام کے واقعے سے دوسرا گہرا زخم ہمارے پاک کلمے کو لگا ہے۔ انسانوں کو امن وآشتی عطا کرنے والے اس مقدس کلمے کو انسانیت کا خون کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کلمہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ساری انسانیت اور پوری کائنات کا کلمہ ہے۔اس کلمے کے ذریعے پوری انسانیت اپنے معبود حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے وہ سب اسی ایک کلمہ کی طرف دعوت دینے کے لیے آئے تاکہ لوگ اپنے معبود حقیقی کی پناہ میں آ جائیں۔ اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ تمام انسانوں کے پیغمبر بن کر آئے اور انہوں نے بھی تمام انسانوں کو اسی کلمہ کی طرف بلایا۔اسی کلمے نے دنیا سے جہالت ،غیر برابری ، نسلی عصبیت ، رنگ بھید ، ظلم ، بے انصافی ، استحصال ، قتل وغارت گری اور انسانی غلامی کا خاتمہ کیا ۔ اس کلمے نے دنیا کو انسانی آزادی ، مساوات ، اخوت اور اعلیٰ اخلاقی قدروں سے روشناس کرایا ۔ اس کلمے سے انسانوں کو نفرت نہیں محبت ہونی چاہیے۔ یہ کلمہ انسانوں کی حقیقی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ لوگوں کو پکار پکار کر کہا کرتے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ تُفْلِحُوا۔ اے لوگو! لاالہ الا اللہ کہہ دو، کامیاب ہوجاؤ گے۔
یہ کلمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان نے اپنے مالک حقیقی کو پہچان لیا ہے۔ وہ اندھیرے سے نکل کر اجالے کی طرف آگیا ہے۔ وہ ہر کسی کی غلامی سے آزاد ہوگیا ہے اور اب وہ پوری آزادی کے ساتھ صرف اپنے مالک کا بندہ ہے۔ غرض یہ کلمہ معرفت، روشنی اور آزادی کا نشان ہے۔
یہ کلمہ کسی سے زبردستی کہلوانے کی چیز نہیں ہے۔نہ ہی اس کے لیے کسی پر دباؤ بنایا جاسکتا ہے ۔اس کلمے کی معرفت جسے حاصل ہو جائے تو وہ خود بہ خود اپنے مالک حقیقی کو پکار اٹھے گا۔ اسے تو انسان کو اپنے دل کی مرضی سے کہنا ہے۔ جب دل سے اپنے مالک پر یقین ہو، جب دل سے اپنے مالک سے محبت ہو، جب دل سے اپنے مالک کی عبادت کا جذبہ ہو، تب یہ کلمہ زبان سے ادا ہونے لگتا ہے۔
تاریخ میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے کہ کسی بے گناہ کو مارنے میں اس کلمے کا استعمال کیا گیا ہو۔ اس کے برعکس انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کلمے کو ادا کرنے والوں نے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں، بڑے خطروں کا سامنا کیا، بڑی قربانیاں دیں، لیکن اس کلمے سے پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا۔یہ کلمہ عزیمت ، استقلال اور رحم دلی کا کلمہ ہے نہ کہ کسی بے گناہ کی جان لینے کا؟ پورا قرآن درحقیقت اسی کلمے کی دعوت ہے۔ قرآن مجید میں طرح طرح کے دلائل دے کر اور انداز بدل بدل کر اس کلمے کو سمجھایا گیا ہے۔ لیکن پورے قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جو یہ کلمہ نہ پڑھے اسے قتل کردو۔ بلکہ کہیں یہ بھی نہیں کہا گیا کہ جو یہ کلمہ نہیں پڑھے اسے کسی بھی طرح کی تکلیف دو۔ قرآن مجید تو بار بار یہ کہتا ہے کہ انسان کو آزادی کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ اسے کلمہ پڑھنے کی آزادی دی گئی ہے بلکہ قر آن میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی زور و زبردستی نہیں ہے ۔یہ بھی کہا گیا کہ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔اللہ کے رسول ﷺ نے زندگی بھر سارے انسانوں کو اسی کلمہ کی طرف دعوت دی۔ لیکن کبھی کسی کو زبردستی یا ڈرا دھمکا کر یا لالچ دلاکر کلمہ نہیں پڑھایا۔ آپ نے کبھی کسی کو کلمہ نہ پڑھنے پر کوئی ہلکی سی بھی سزا نہیں دی۔
مکہ میں اللہ کے رسول ﷺ کو بہت تنگ کیا گیا اور ان کے ساتھیوں کو بہت ستایا گیا، صرف اس وجہ سے کہ وہ کلمہ پڑھنے والے تھے۔ لیکن جب ان کے پاس قوت اور اقتدار آگیا تو انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے کبھی کسی کو کلمہ پڑھنے کے لیے مجبور نہیں کیا نہ ہی اس بنا پر کسی کو ذرہ برابر کوئی تکلیف دی ۔پوری اسلامی تاریخ میں زبردستی کلمہ پڑھوانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔زبردستی کلمہ پڑھوانا، کلمہ نہ پڑھنے والے کو قتل کردینا یا اسے تنگ کرنا، اس عظیم کلمے کی شان اور اس کی روح کے خلاف ہے۔ جو ایسا کرتا ہے وہ اس کلمے کی توہین کرتا ہے۔اس کے اس عمل کا اسلامی اصول و تعلیمات سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
کلمہ توحید کو پڑھنے کی پاداش میں تو بے شمار لوگوں کو ظالموں نے قتل کیا لیکن اس کلمے کو پڑھنے والوں نے کبھی کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کی۔ کیوں کہ یہ کلمہ ظلم وجبر سے روکتا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے رسول سے صاف صاف کہا ہے کہ تم ان کے اوپر داروغہ بناکر مسلط نہیں کیے گئے ہو۔ تمہارا کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ اسلام کا کام صرف لوگوں کو حق کی طرف دعوت دینا ہے ۔اللہ کی طرف سےتمام بندوں کے لیے یہ دعوت عام ہے ۔اس میں کسی طرح کا جبر و تشدد شامل نہیں ہے۔یہ کلمہ انسانیت کا سب سے پیارا نغمہ ہے۔ محبت اور ہم دردی، امن اور آشتی جیسے الفاظ سارے انسان بہت شوق سے گنگناتے ہیں۔ اس کلمے میں دنیا کے سارے کے سارے حسین و جمیل معانی سمائے ہوئے ہیں۔ یہ کلمہ اس لائق ہے کہ سارے انسان مل کر اسے گنگنائیں۔ بدقسمتی سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا جس کی رَو میں ایک بڑا طبقہ بہہ گیا ہے۔ پہلگام دہشت گرد حملے کی ابھی منصفانہ جانچ ہونا باقی ہے تاکہ تفصیلی طور پر حقائق لوگوں کے سامنے آسکیں لیکن میڈیا نے کسی جانچ سے پہلے ہی مذہبی منافرت کا جو کھیل کھیلا ہے اس کے مہلک اثرات ملک کے مختلف حصوں میں دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔اس واقعے کی آڑ میں مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے کے ساتھ کلمہ توحید کو ٹارگیٹ کرنے کے پیچھے یہ مذموم مقصد کار فرما ہے کہ اسلام کی بنیاد پر چوٹ کیا جائے تاکہ اس کی آڑ میں پوری اسلامی تعلیمات اور اس کے عظیم دعوتی مشن کی بیخ کنی کی جائے۔ایسے عناصر کے لیے قرآن میں کہا گیا ہے کہ وَمَكَرُوۡا وَمَكَرَاللّٰهُ ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمَاكِرِيۡنَ
اور دشمنوں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کے خلاف خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے عمدہ تدبیر فرمانے والا ہے۔
کلمہ توحید صرف ایک مذہبی کلمہ نہیں ہے بلکہ یہ انسانی فلاح اور نجات ضامن ہے ۔یہ کلمہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر آزادی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ کلمہ انسان کے اندر عزت نفس ، غیرت اور حمیت پیدا کرتا ہے ۔یہ ایک ایسا نغمہ ہے جس سے حقیقی معرفت الٰہی اور روحانی سرشاری حاصل ہوتی ہے ۔یہ خدا کی یکتائی کا کلمہ ہےاس کے بندوں کے لیے ۔اس نغمہ کی صدا ازل سے ابد تک یوں ہی جاری و ساری رہے گی ۔
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
[email protected]
***
کلمہ توحید صرف ایک مذہبی کلمہ نہیں ہے بلکہ یہ انسانی فلاح اور نجات ضامن ہے ۔یہ کلمہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر آزادی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ کلمہ انسان کے اندر عزت نفس ، غیرت اور حمیت پیدا کرتا ہے ۔یہ ایک ایسا نغمہ ہے جس سے حقیقی معرفت الٰہی اور روحانی سرشاری حاصل ہوتی ہے ۔یہ خدا کی یکتائی کا کلمہ ہےاس کے بندوں کے لیے ۔اس نغمہ کی صدا ازل سے ابد تک یوں ہی جاری و ساری رہے گی ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025