بہار میں ایک بحران کی تیاری

آدھار اور ووٹر فہرست تنازع کے درمیان سیمانچل کوبدنام کرنے کی مہم

سمیع احمد اور سید خلیق احمد

آدھار کی زیادتی کا بیانیہ گمراہ کن۔ مردم شماری کے بعد فطری اضافہ نظرانداز!
صرف مسلم اکثریتی اضلاع ہی میں نہیں، بہار کے بیشتر اضلاع میں آدھار کارڈ آبادی سے زیادہ
بہار کا خطہ سیمانچل — جس میں کشن گنج، ارریہ، پورنیہ اور کٹیہار کے اضلاع شامل ہیں — اپنی مسلم اکثریتی آبادی کی وجہ سے ایک بار پھر سیاسی جماعتوں اور مخصوص ذرائع ابلاغ کا ہدف بن گیا ہے۔ یہ سب اس وقت سے شروع ہوا جب بھارت کے الیکشن کمیشن (ECI) نے 24 جون کو ووٹر فہرست کی خصوصی جامع نظرثانی (SIR) کا اعلان کیا۔
ماضی میں بھی اس خطے کو بلا ثبوت "غیر قانونی غیر ملکی تارکین وطن” کی موجودگی کے الزام میں بدنام کیا گیا تھا۔ نہ صرف بی جے پی کے رہنماؤں نے ان اضلاع میں غیر ملکیوں کی غیر قانونی موجودگی کے الزامات لگائے بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی یہی دعویٰ کیا۔
سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دی گئی کہ آدھار کارڈ کو بھی ووٹر فہرست میں اندراج کے لیے قابل قبول ثبوت سمجھا جائے۔ اس کے بعد بی جے پی رہنماؤں اور گوڈی میڈیا نے ایک بار پھر سیمانچل کو نشانہ بنایا، حالانکہ آدھار کارڈ ان گیارہ دستاویزات میں شامل نہیں تھا جنہیں ECI نے SIR کے لیے ابتدائی طور پر منظور کیا تھا۔
ذرائع ابلاغ نے بڑھا چڑھا کر یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ ان چار اضلاع میں آدھار کارڈز کی تعداد وہاں کی آبادی سے زیادہ ہے، اور یوں بنگلہ دیش سے مبینہ "دراندازی” کے الزامات کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود الیکشن کمیشن نے بھی ان بے بنیاد الزامات کو اپنی سرکاری پریس ریلیز میں جگہ دی۔ اس پر اپوزیشن نے الیکشن کمیشن پر بی جے پی اور اس کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے سیاسی ایجنڈے کو دہرانے کا الزام عائد کیا، جن کا مقصد صرف مذہبی بنیادوں پر ووٹروں کو تقسیم کرنا ہے۔
آدھار کی "ضرورت سے زائد موجودگی” اور "غیر قانونی دراندازی” کے بیانیے نے میڈیا کی توجہ کو مکمل طور پر سیمانچل پر مرکوز کر دیا، جس کے نتیجے میں ووٹروں کے حقِ رائے دہی سے محرومی اور 2025 کے بہار اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی چالاکیوں کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ خصوصی نظرثانی بہار کی ووٹر لسٹ کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے تاکہ دہری، متوفی یا نااہل رائے دہندگان کو خارج کیا جا سکے، جن میں "غیر قانونی غیر ملکی تارکین وطن” بھی شامل ہوں گے۔
بی جے پی کے رہنما اور گودی میڈیا آدھار کی "زیادتی” کو "آدھار کارڈ گھوٹالے” سے تعبیر کر رہے ہیں جس میں بنگلہ دیشی یا روہنگیا پناہ گزینوں کے ملوث ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
یہ استدلال پیش کیا جا رہا ہے کہ آدھار کی "غیر فطری زیادتی” کا یہ جھوٹا بیانیہ محض اس لیے بنایا جا رہا ہے تاکہ آدھار کو SIR میں قابل قبول ثبوت کے طور پر شامل نہ کیا جا سکے۔
بی جے پی اور اس کے حامی ذرائع ابلاغ سیمانچل میں آدھار کارڈز کی تعداد کو وہاں کی آبادی سے زیادہ دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہاں غیر ملکی تارکین وطن موجود ہیں۔ مگر سیاست داں، میڈیا اور خود الیکشن کمیشن اس بنیادی نکتے کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ وہ یہ موازنہ مردم شماری 2011 کی پرانی آبادی کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ چونکہ پچھلے 14 برسوں میں آبادی میں فطری اضافہ ہوا ہے اور 2011 کے بعد کوئی نئی مردم شماری نہیں ہوئی اس لیے آدھار کارڈز کی تعداد آبادی سے زیادہ ہونا ایک فطری امر ہے۔ مگر الیکشن کمیشن نے اس فطری آبادیاتی اضافے کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے بی جے پی کے ان رہنماؤں کی زبان اختیار کر لی ہے جو مسلم اکثریتی علاقوں میں "غیر قانونی تارکین وطن” کے مسئلے کو ہوا دے کر عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن آدھار کارڈز کی یہ "ضرورت سے زیادہ موجودگی” صرف ان مسلم اکثریتی اضلاع میں نہیں، بلکہ بہار کے دیگر تقریباً تمام اضلاع میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں مسلم آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف جہان آباد واحد ضلع ہے جہاں یہ شرح 97 فیصد ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر ان اضلاع میں بی جے پی اور میڈیا خاموش کیوں ہے؟ اگر آدھار کارڈز کی زیادتی غیر ملکیوں کی نشاندہی کا معیار ہے تو پھر بہار کے دیگر اضلاع میں بھی "درانداز” موجود ہونے چاہئیں۔ مگر بی جے پی اور اُس کے حامی میڈیا کی خاموشی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اُن کا اصل نشانہ سیمانچل ہی ہے۔ یہ سیاسی تعصب اور ذرائع ابلاغ کی غیر پیشہ ورانہ روش کی کھلی مثال ہے۔
سرکاری ادارے UIDAI کی ویب سائٹ کے مطابق صرف جہان آباد کے سوا بہار کے تمام اضلاع میں آدھار کارڈز کی موجودگی صد فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ جدول میں اس کی مکمل تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
سیمانچل کو بدنام کرنے کی یہ منظم مہم علاقے میں شدید تشویش کا باعث بنی ہے، جہاں مسلمانوں کی آبادی 38 فیصد سے 68 فیصد کے درمیان ہے۔ بہار کا واحد مسلم اکثریتی ضلع کشن گنج ہے، جو بی جے پی کے رہنما اور ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ سمراٹ چودھری کی تنقید کا خاص ہدف رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جولائی کے پہلے ہفتے میں دو لاکھ سے زائد افراد نے سکونتی (ڈومیسائل) سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دی ہے، اور انتظامیہ کو ان درخواستوں کے اچانک اضافے پر کڑی نگرانی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے ریاستی صدر اور رکن اسمبلی اخترالایمان نے کہا کہ سمراٹ چودھری دانستہ طور پر حالات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں اور سیمانچل کی زمینی حقیقتوں سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، سیمانچل میں تعلیمی معیار نہایت کمزور ہے اور بہت قلیل تعداد ہی کے پاس دسویں جماعت کا سند ہوتا ہے، جو الیکشن کمیشن کی تجویز کردہ گیارہ دستاویزات میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا:
"بیشتر افراد بے زمین اور کم آمدنی والے ہیں، اس لیے وہ پاسپورٹ جیسے دستاویزات حاصل نہیں کرتے، جو کہ ECI کی فہرست میں شامل ہے۔ نیز، ہر سال آنے والے سیلابوں کی وجہ سے بہت سے افراد اپنے کاغذات کھو دیتے ہیں، اسی لیے وہ سکونتی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔”
اخترالایمان نے مزید کہا کہ بہار میں سرٹیفکیٹس کے لیے درخواست دینا معمول کی بات ہے اور کم از کم دو مواقع پر ایسی درخواستوں میں اچانک اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے — ایک، جب داخلے کا موسم آتا ہے اور دوسرا جب کوئی بڑی نوکری کا اشتہار جاری ہوتا ہے۔ "ایسے مواقع پر لوگ بڑی تعداد میں ڈومیسائل، کردار اور پیدائش کے سرٹیفکیٹ کے لیے رجوع کرتے ہیں، اس لیے سمراٹ چودھری کو لوگوں کو گمراہ کرنا بند کرنا چاہیے۔”
کشن گنج سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد جاوید نے واضح کیا کہ لوگ سکونتی سرٹیفکیٹ اس لیے بنوا رہے ہیں تاکہ اپنے ووٹر حقوق کی حفاظت کر سکیں نہ کہ کسی دھوکہ دہی کے لیے۔
ماہرین اور اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ آدھار کی "ضرورت سے زائد موجودگی” (Oversaturation) دراصل پرانی مردم شماری کے اعداد و شمار کی وجہ سے ہے، نہ کہ کسی جعل سازی کا نتیجہ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ آدھار کے بارے میں یہ بیانیہ، خاص طور پر آج تک جیسے ذرائع ابلاغ کے ذریعے، مسلمانوں کے خلاف شکوک و شبہات کو ہوا دیتا ہے۔ ترنمول کانگریس کی رہنما مہوا موئترا جیسے اپوزیشن رہنماؤں نے بی جے پی پر الزام لگایا ہے کہ وہ مسلمانوں کو "باہر سے آئے ہوئے” ظاہر کر کے انتخابی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔(بشکریہ انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 10 جولائی 2025 کو سپریم کورٹ نے اگرچہ SIR کے عمل کو روکنے سے انکار کر دیا، تاہم اس نے الیکشن کمیشن کو آدھار، ووٹر کارڈ اور راشن کارڈ جیسے دستاویزات کو قبول کرنے کی ہدایت دی اور اس بات کی ذمہ داری بھی کمیشن پر ڈال دی کہ وہ کسی دستاویز کو مسترد کرنے کی وجوہات معقول طور پر بیان کرے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ بی جے پی کی جانب سے سیمانچل کی آبادی کو بنگلہ دیش اور نیپال سے "دراندازی” کے زاویے سے جوڑنا، ہندوتوا کے وسیع تر بیانیے سے ہم آہنگ ہے۔ اس نے مقامی عوام میں شدید خوف پیدا کیا ہے، جو SIR کے عمل اور میڈیا مہمات کو اپنے سیاسی اور سماجی حاشیہ بردار بنانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں شائع ایک خبر — جس میں دعویٰ کیا گیا کہ موجودہ SIR کے دوران بڑی تعداد میں "غیر قانونی تارکین وطن” کی نشاندہی ہوئی ہے — اسی خوف کی ایک مثال ہے۔ یہ "پلانٹ کی گئی خبر” الیکشن کمیشن کے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے دی گئی، تاہم الیکشن کمیشن نے نہ اس کی تصدیق کی اور نہ ہی تردید۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے اہلکاروں (EROs) کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ مشتبہ غیر ملکیوں کو "نشاندہی” کر سکیں، جو سرحدی علاقوں میں لوگوں کو بلا جواز نشانہ بنائے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔
اگرچہ سپریم کورٹ کی نگرانی سے کچھ حد تک تحفظ ممکن ہوا ہے، مگر آنے والے مہینے یہ طے کریں گے کہ سیمانچل کے باشندے ان بڑھتی ہوئی سیاسی و سماجی کشیدگیوں کے درمیان اپنے جمہوری حقوق کی حفاظت کر پاتے ہیں یا نہیں۔
اپوزیشن رہنماؤں — جیسے راہل گاندھی (کانگریس) تیجسوی یادو (راشٹریہ جنتا دل) اور اسدالدین اویسی (آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین) — نے SIR کو "این آر سی” کا پچھلا دروازہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل خاص طور پر سیمانچل جیسے حزبِ اختلاف کے مضبوط گڑھ کو نشانہ بنانے کے لیے ہے تاکہ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (NDA) مخالف ووٹوں کو دبایا جا سکے۔ اندازہ ہے کہ بہار بھر میں دو کروڑ سے زائد ووٹر اس عمل سے متاثر ہو سکتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ زد سیمانچل کے عوام پر پڑے گی — ان کی آبادیاتی اور جغرافیائی حیثیت کی بنا پر۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025