
بھارت کا انتخابی نظام زوال کی طرف گامزن؟
راہول گاندھی کے الزامات کے بعد الیکشن کمیشن پر اعتماد کا بحران!
نوراللہ جاوید، کولکاتا
انتخابی فہرست میں خامیوں کی نشان دہی۔بہارمیں ایس آئی آر کے ذریعے بڑے پیمانے پرووٹروں کے نام حذف
مسلم رائے دہندو ں کو نشانہ بنایا گیا؟ ۔ الیکشن کمیشن کا بنیادی ذمہ داری ادا کرنے سے گریز!
پوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے کرناٹک کے مہا دیو پورہ اسمبلی حلقے میں بڑے پیمانے پر جعلی ووٹروں کی موجودگی کا انکشاف کرتے ہوئے، اپنے دعوے کے ثبوت میں ٹھوس اعداد و شمار پیش کیے۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا جس پر الیکشن کمیشن کو خود نوٹس لیتے ہوئے شفاف جانچ کرنی چاہیے تھی، تاکہ ووٹروں کا اعتماد اور بھروسا قائم رہتا۔ مگر اس کے برعکس، کمیشن نے بار بار راہل گاندھی کو ہی نوٹس بھیج کر اپنے غیر جانب دار کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
مزید برآں، راہل گاندھی نے جو سنجیدہ سوالات کمیشن کے سامنے رکھے، ان کا جواب دینے کے بجائے کمیشن خاموش رہا، جبکہ بی جے پی کے رہنما میدان میں اتر آئے اور قومی دھارے کا میڈیا یکطرفہ طور پر راہل گاندھی کے خلاف صف آرا ہو گیا۔ یہ صورتحال ایک "ناپاک کٹھ جوڑ” کی بو دیتی ہے۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس مرتبہ پرنٹ میڈیا نے بھی اپنی ساکھ کی پروا کیے بغیر، اپوزیشن لیڈر کی پریس کانفرنس کو اپنے پہلے صفحے پر جگہ دینا ضروری نہ سمجھا۔ یہ محض اتفاق ہے یا کسی اشارے پر کیا گیا عمل؟ اس پر بحث اپنی جگہ، مگر اصل توجہ راہل گاندھی کے ان انکشافات اور بہار میں ایس آئی آر کے تحت 46 لاکھ سے زائد ووٹروں کے اخراج کے پس منظر کو سمجھنے پر ہونی چاہیے۔
بادی النظر میں واضح ہے کہ بھارت کا جمہوری نظام، جس پر کبھی دنیا بھر میں فخر کیا جاتا تھا، پچھلی ایک دہائی میں عوام کے اعتماد اور انتخابی عمل کی شفافیت کے حوالے سے شدید بحران کا شکار ہوا ہے۔ آج راہل گاندھی سمیت اپوزیشن جماعتیں انتخابی عمل پر جس عدم اطمینان کا اظہار کر رہی ہیں، حالات و شواہد بھی اس کی تائید کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔
اگر کمیشن اور ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اس معاملے پر فوری اور سنجیدہ توجہ نہ دی تو وہ دن دور نہیں جب بھارت بھی ان ممالک کی صف میں جا کھڑا ہوگا جہاں جمہوریت اور انتخاب محض ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تباہی کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا سیاسی جماعتیں اپنی ناکامی چھپانے کے لیے انتخابی دھاندلی کا بہانہ بنا رہی ہیں یا الیکشن کمیشن، جو ایک خود مختار ادارہ ہے، حکومت کے زیرِ اثر آ کر اپنی غیر جانب داری اور وجود کے جواز کو کھو رہا ہے؟
گزشتہ برسوں میں کمیشن کی ساکھ کو زک پہنچانے والے عوامل واضح ہیں: الیکشن کمشنروں کے انتخاب میں حکومت کا بڑھتا ہوا عمل دخل، سپریم کورٹ کے فیصلے کو بدلنے کی کوشش، وزیر اعظم اور وزراء کی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں، حکم راں جماعت کے اشارے پر انتخابی شیڈول کا اعلان اور اب ووٹر لسٹ میں کھلم کھلا ہیرا پھیری۔ یہ سب عوامل اس آزاد آئینی ادارے کو مشکوک بنا رہے ہیں۔
اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اگر بھارت کا انتخابی عمل زوال کا شکارہوتا ہے تو اس کی قیمت سب سے زیادہ کون چکائے گا؟
الیکشن کمیشن کی جانب داری پر سوالات پہلے بھی اٹھتے رہے ہیں۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی، جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، سابق چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن اور پھر جیمز لنگڈوہ پر ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر تنقید کر چکے ہیں۔ وقتاً فوقتاً نہ صرف وہ بلکہ کئی دیگر سیاسی جماعتیں بھی کمیشن کے کردار پر انگلیاں اٹھاتی رہی ہیں۔
تاہم اس بار راہل گاندھی نے جو شواہد اور اعداد و شمار پیش کیے ہیں، وہ ایک عام شہری کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ممکن ہے ان کے پیچھے سیاسی مقاصد ہوں اور وہ اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہوں — جو کہ سیاست کا حصہ ہے — مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بار انہوں نے ٹھوس ثبوت عوام کے سامنے رکھے ہیں اور ملک کی ایک بڑی آبادی ان شواہد کو سنجیدگی سے تسلیم کرنے لگی ہے۔
راہل گاندھی نے بنگلور سنٹرل لوک سبھا حلقے کے مہادیوپورہ اسمبلی حلقے میں ایک لاکھ سے زائد جعلی ووٹوں کی نشان دہی کرتے ہوئے، مبینہ انتخابی بدعنوانی کے پانچ زمروں کا خاکہ پیش کیا۔ ان کی تفصیلی پریزنٹیشن سے قطع نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ پورا انتخابی عمل مشکوک ہے، مگر ان کے پیش کردہ نکات کم از کم اس امر کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں کہ آزادانہ جانچ کی ضرورت ہے اور کمیشن کے طریقۂ کار میں اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔
ان کے پیش کردہ شواہد تشویش ناک ہیں:
ایک ہی حلقے میں ووٹروں کی بار بار رجسٹریشن
مختلف ریاستوں میں ایک جیسے EPIC نمبر کا استعمال
ایک ہی پتے پر غیر معمولی تعداد میں ووٹروں کا اندراج
فارم 6 (پہلی مرتبہ ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کا فارم) کا بے جا استعمال
• اور ایک بوتھ پر ایک شخص کے کئی بار ووٹ ڈالنے کے واقعات، جو ’’ایک شخص، ایک ووٹ‘‘ کے بنیادی اصول کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔
راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ یہ گڑبڑیاں صرف مہادیوپورہ تک محدود نہیں بلکہ ملک کے کئی حلقوں میں پائی جاتی ہیں، اور اگر انہیں ڈیجیٹل ووٹر لسٹ فراہم کر دی جائے تو وہ ان بدعنوانیوں کو ثابت کر سکتے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں کہ ایسے شکوک سامنے آئے ہیں۔ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے محض پانچ ماہ بعد مہاراشٹر میں 40 لاکھ نئے ووٹروں کے اضافے نے بی جے پی کو غیر متوقع جیت دلائی تھی، جیسا کہ آزاد میڈیا اور کانگریس نے الزام لگایا۔ ’’نیوز لانڈری‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ پھڈنویس کے اپنے حلقے میں صرف پانچ ماہ میں غیر معمولی ووٹر اضافہ درج کیا گیا۔
مہادیوپورہ میں 2008 سے 2024 تک ووٹروں کی تعداد میں 140 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ بنگلور سنٹرل کے دیگر سات اسمبلی حلقوں میں یہ اضافہ کہیں کم رہا۔ مثال کے طور پر، سرواگنا نگر میں اضافہ صرف 26.5 فیصد تھا۔ یہ اعداد و شمار دو باتیں واضح کرتے ہیں:
1. مہادیوپورہ کی ووٹر لسٹ میں سنگین بے ضابطگیاں ہیں۔
2. الیکشن کمیشن کو اپنے ہی قوانین کے مطابق سالانہ جانچ کرنی چاہیے تھی، مگر اس نے ایسا کرنے کے بجائے غیر ضروری طور پر دفاعی رویہ اختیار کیا۔
سوال یہ ہے کہ جب یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ ایک ہی پتے پر 80-80 ووٹروں کے نام درج ہیں، تو راہل گاندھی سے حلفیہ شکایت درج کرانے پر اصرار کیوں کیا جا رہا ہے؟ ماہرین قانون کے مطابق، ایسی صورت میں حلفیہ شکایت کی ضرورت ہی نہیں۔ اسی طرح یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ کمیشن ووٹر لسٹ ڈیجیٹل فارمیٹ میں فراہم کرنے سے گریز کیوں کر رہا ہے؟
مدھیہ پردیش کے کئی علاقوں میں ایک کمرے کے گھروں میں 70 سے 80 ووٹروں کے نام درج ہیں، بعض گھروں کے پتوں پر ’’000‘‘ لکھا گیا ہے۔ اب بہار میں ایس آئی آر (Special Intensive Revision) کے تحت جو فہرست جاری کی گئی ہے، اس میں بھی تیجسوی یادو کے مطابق ایسی ہی سنگین خامیاں موجود ہیں۔
مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ ایس آئی آر کی صرف ایک ماہ کی مشق کے بعد بہار میں 46 لاکھ سے زائد ووٹروں کے نام حذف کر دیے گئے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس حذف میں خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلے زیادہ ہے، حالانکہ گزشتہ انتخابات میں خواتین نے مردوں سے زیادہ ووٹ ڈالے تھے۔ سب سے زیادہ کٹوتی دیہی اور مسلم اکثریتی علاقوں، بالخصوص سیمانچل (کشن گنج، کٹیہار، پورنیہ اور ارریہ) میں کی گئی۔
مرکزی نکتہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے اہلکار آئینی طور پر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کے پابند ہیں۔ لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ مہادیوپورہ میں وہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک اپنے ڈیٹا اور قواعد پر عمل کرنے میں ناکام رہے، اور اب وہی ادارہ اس بدعنوانی کی نشاندہی کرنے والے شخص کو خاموش کرانے کے لیے قواعد کو ہتھیار بنا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آئینی نگہبان اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ جائیں تو پھر محافظوں کی حفاظت کون کرے گا؟
الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمہ داری حقِ رائے دہی کی حفاظت ہے، مگر جب کمیشن لاکھوں ووٹروں کے نام فہرست سے کاٹ رہا ہے تو کیا یہ اس کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ واضح کرے آخر وہ تیس لاکھ ووٹر کون ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ہے، وہ کہاں کے رہائشی ہیں اور اگر ان کے نام کی فہرست مانگی جا رہی ہے تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟
9 اگست 2025 کو سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کا داخل کردہ جواب حیران کن ہے۔ کمیشن نے ’’رجسٹریشن آف الیکٹرز رولز 1960‘‘ کے قواعد 10 اور 11 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قانونی فریم ورک اسے اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ وہ ان افراد کی علیحدہ فہرست تیار کرے یا شیئر کرے جن کے نام مجوزہ انتخابی فہرست میں شامل نہیں ہیں، اور نہ ہی ان کے نام کاٹنے کی وجوہات بتانے کی ضرورت ہے۔
جوابی حلف نامے میں مزید کہا گیا کہ وہ افراد جن کے نام یکم اگست 2025 کو شائع شدہ مسودہ انتخابی فہرست میں شامل نہیں ہیں، وہ دعوؤں اور اعتراضات کی مدت کے دوران فارم 6 کے ذریعے دوبارہ شمولیت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں، جیسا کہ ایس آئی آر آرڈر کے ضمیمہ D میں درج اعلامیہ میں کہا گیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ فارم 6 تو اُن لوگوں کے لیے ہے جو پہلی مرتبہ ووٹر لسٹ میں نام درج کروانا چاہتے ہیں، تو پھر وہ افراد جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں ووٹ ڈالے، مگر پی ایل او کی غلطی سے ان کے نام حذف ہو گئے، وہ فارم 6 کے تحت کیسے درخواست دے سکتے ہیں؟
مزید یہ کہ جب کوئی شخص یکم ستمبر 2025 کو فارم 6 جمع کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ فوت ہوا ہے، نہ ہجرت کر کے آیا ہے اور نہ ہی اس کی شناخت مشکوک ہے۔ خود الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ بوتھ سطح پر ان افراد کی فہرست شیئر کی ہے جن کے ’’گنتی فارم‘‘ کسی وجہ سے موصول نہیں ہوئے، اور ان لوگوں تک پہنچنے کے لیے ان کی مدد طلب کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ووٹروں کے نام حذف کرنے یا غلط اندراج کرنے کا کھیل کوئی نیا نہیں۔ بھارت کی جمہوریت اور انتخابی عمل کو دنیا بھر میں سراہا جاتا رہا ہے، مگر اگر قریب سے دیکھا جائے تو یہ ادارہ جاتی ناانصافیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔
خود مرکزی وزیر اور بی جے پی کے سینئر رہنما نتن گڈکری نے اعتراف کیا تھا کہ ان کے انتخابی حلقہ ناگپور سنٹرل میں ساڑھے تین لاکھ ووٹروں کے نام حذف کر دیے گئے، جن میں ان کے اپنے خاندان کے افراد بھی شامل تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب مہاراشٹر اور مرکز، دونوں جگہ بی جے پی کی حکومت ہے تو پھر گڈکری کے حلقے میں اتنے بڑے پیمانے پر یہ کٹوتی کس کے اشارے پر ہوئی؟
راہل گاندھی نے بھی تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے نام حذف کیے جانے کے اعداد و شمار کا تفصیلی تجزیہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ تجزیہ کیا جائے تو مزید سازشوں کے پرت کھل سکتے ہیں۔
اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو ادارہ جاتی حق رائے دہی سے محروم کرنے کی سازش
ووٹروں کے نام حذف کرنے یا پھر غلط ناموں کے اندراج کا کھیل کوئی نیا نہیں ہے۔اگرچہ بھارت کی جمہوریت اور انتخابی عمل کی پوری دنیا میں پذیرائی کی جاتی رہی ہے مگر غور سے دیکھا جائے تو ادارہ جاتی ناانصافی کا ایک طویل سلسلہ یہاں پایا جاتا ہے۔خود مرکزی وزیر نتین گڈکری جو بی جے پی کے سینئر وزیر ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے انتخابی حلقہ ناگپور سنٹرل میں 3.5لاکھ ووٹروں کے نام حذف کردیے گئے تھے۔جن کے نام حذف ہوئے ہیں ان میں ان کے خاندان کے افراد بھی شامل تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب مہاراشٹراور مرکز دونوں جگہوں پر بی جے پی اقتدارمیں ہے تو پھر نتن گڈکری کے حلقے میں اتنے بڑے پیمانے پر ووٹ کیسے حذف ہوئے اور کس کے اشارے پر یہ کام کیا گیا؟ راہل گاندھی نے کہا ہے کہ انہوں نے نام حذف کیے جانے کے ڈیٹا کا تجزیہ نہیں کیا ہے ورنہ اگر تجزیہ کیا جائے گا تو سازش کی مزید پرتیں کھلتی چلی جائیں گی۔
دو سال قبل2023میں مشہور امریکی تحقیقی ادارے NBER کے زیر اہتمام منعقد کانفرنس میں اشوکا یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر سبیاساچی داس کا مقالہ تنازع کا موضوع بن گیا تھا۔اس مقالے کا موضوع تھا “Democratic Backsliding in the World’s Largest Democracy” دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں جمہوری پسپائی‘‘۔اس مقالے میں2019کے لوک سبھا انتخابات کے دوران کی گئی کئی دھاندلیوں کی نشاندہی کی گئی ۔ان دھاندلیوں میں سب سے بڑی دھاندلی بڑے پیمانے پر مسلم ووٹروں کے نام حذف کیے جانے کی نشاندہی کی گئی تھی ۔اسی طرح سچرکمیٹی کا حصہ رہنے والے مشہور ماہر اقتصادیات ابو صالح شریف اور ڈاکٹر سیف اللہ کا ایک مشترکہ مضمون 19مئی 2018کے ’’اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی‘‘ کے شمارے میں Electoral Exclusion of Muslims Continues to Plague Indian Democracyکے عنوان سے شائع ہوا ہے۔اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ہندوستان میں پندرہ فیصد سے زیادہ بالغ افراد یا تو ووٹنگ لسٹوں سے باہر رہ جاتے ہیں یا انہیں خارج کر دیا جاتا ہےاور اتفاقی طور پر ان میں 54فیصد سے زائد مسلم ووٹرس ہے جب کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح محض 18 تا 19 فیصد ہے۔
نئی دہلی میں قائم پالیسی ساز ادارہ سنٹر فار ریسرچ اینڈ ڈیبیٹس ان ڈیولپمنٹ پالیسی (سی آر ڈی ڈی پی) ہے۔ اس ادارے کو اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے اور اس سے نتائج اخذ کرنے میں مہارت حاصل ہے۔اس ادارے نے کرناٹک کے چیف الیکٹورل آفیسر کی ویب سائٹ کا جائزہ لیا تاکہ ووٹروں کے حوالے سے ڈیٹا کی دستیابی معلوم کی جا سکے۔ سی آر ڈی ڈی پی نے کرناٹک کی تمام 224 قانون ساز حلقوں کے لیے عوامی طور پر دستیاب وسائل تک رسائی اور ڈیٹا مائننگ پروٹوکول استعمال کیے اور الگ الگ ڈیٹا فائلیں بنائیں۔ یہ کام بنیادی طور پر مئی 2018 میں ہونے والے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ ڈیٹا مائننگ پروٹوکولز کے استعمال سے، نام، عمر، گھر کا نمبر اور پتہ، سب کو ووٹر کے بوتھ لیول شناخت کے ساتھ ٹیگ کیا گیا تھا۔224اسمبلی حلقوں میں سے 25ایسے حلقوں کی نشان دہی کی گئی جہاں مسلم ووٹروں کی تعداد دس فیصد سے زائد ہے۔تجزیہ کے بعد سی آر ڈی ڈی پی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کرناٹک میں ووٹر لسٹ سے مسلم ووٹروں کو حذف کرنے کی شرح غیر متناسب طور پر دیگر کمیونٹیوں مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔یعنی 54فیصد مسلم ووٹروں کا اخراج ہوا ہے۔
2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ایک الگ قسم کی دھاندلی سامنے آئی جب کئی بڑے میڈیا ہاؤسز نے اترپردیش اور دیگر علاقوں کے بارے میں رپورٹنگ کی کہ مسلم ووٹروں کو حق رائے دہی سے روک دیا گیا۔ اترپردیش کے ضلع سنبھل میں ڈیوٹی میں تعینات افسران کے ذریعہ مسلم ووٹروں کو دھمکانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ اسی طرح کئی مسلم اکثریتی حلقے جہاں بی جے پی نے جیت حاصل کی، وہاں شام پانچ بجے کے بعد بڑے پیمانے پر ووٹنگ ہوئی جس کے نتیجے میں مسلم اکثریتی حلقے سے مسلم امیدوار کی شکست ہوگئی۔ آسام کے کریم گنج لوک سبھا حلقے، جہاں مسلم ووٹروں کی شرح 54 فیصد ہے، مگر یہاں سے بی جے پی کے غیر مسلم امیدوار کانگریس کے رشید چودھری کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے۔
’’حلقوں کی حد بندی‘‘ اور ایس سی و ایس ٹی کے لیے سیٹوں کو ریزرو کر کے بھی مسلم اور پسماندہ طبقات کے ووٹروں کو بے اثر کرنے کی ادارہ جاتی کوشش ہوتی رہی ہے۔ مسلم اکثریتی حلقوں کو اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ مسلم ووٹر بے اثر ہوجائیں اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی والے علاقوں کی سیٹوں کو ریزرو کرکے مسلمانوں کی نمائندگی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اترپردیش کے لوک سبھا حلقے نگینہ کو ریزرو سیٹ قرار دیا گیا ہے جبکہ یہاں مسلمانوں کی آبادی ستر فیصد ہے اور ہندوؤں کی آبادی محص تیس فیصد ہے۔ قواعد کے لحاظ سے اگر یہ سیٹ ریزرو نہیں ہوتی تو یہاں سے مسلم امیدوار کی کامیابی یقینی تھی۔
یہ ایک الگ مستقل موضوع ہے کہ کس طرح مسلمانوں کی نمائندگی کو کم کرنے اور مسلم ووٹوں کو بے اثر کرنے کی ادارہ جاتی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس طرح کی ادارہ جاتی سازش سے متعلق نہ ملک کی سیکولر جماعتوں نے آواز بلند کی ہے اور نہ مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے اس پر سنجیدگی سے کوئی کام کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ جب کانگریس جیسی وسائل اور افراد سے مالا مال پارٹی کو ایک اسمبلی حلقے میں دھاندلی سے متعلق پتہ لگانے میں چھ مہینے کا وقت لگا ہے تو وسائل اور باصلاحیت افراد سے محروم تنظیموں اور جماعتوں کے لیے تو یہ کام کافی مشکل ہے۔ تاہم سنٹر فار ریسرچ اینڈ ڈیبیٹس ان ڈیولپمنٹ پالیسی جیسے ادارے بھی ہیں جو غیر معمولی جدوجہد کرکے کرناٹک میں مسلم ووٹروں کے نام حذف کرنے سے متعلق رپورٹ تیار کرسکتے ہیں تو پھر اس ادارے کے تجربے کی روشنی میں ملک کی دیگر جماعتیں کیوں نہیں کام کر سکتیں؟
آسام، بنگال اور بہار میں اس وقت ایس آئی آر کا بڑا ہدف مسلم ووٹروں کو ووٹر لسٹ سے خارج کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال چیلنجوں سے بھرپور ہے۔
اس وقت آسام میں سرکاری زمین سے انخلا کے نام پر بنگالی مسلم آبادی کے بڑے حصے کو نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اپّر آسام میں مسلمانوں کی نسلی تطہیر کی جارہی ہے۔ جارحانہ آسام قوم پرست مہم کے تحت اپّر آسام سے مسلمانوں کو انخلا پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ بڑی تعداد میں مسلم ووٹر حق رائے دہی سے محروم ہوجائیں گے اور نئے پتے پر اپنا نام درج کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔
بنگال، بہار اور جھارکھنڈ کے کئی علاقوں سے متعلق بنگلہ دیشی اور روہنگیا کی آبادی ہونے کا جھوٹ پھیلا دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان اپنے طور پر اور علاقائی، ریاستی و قومی سطح پر کام کرنے والی مسلم تنظیمیں اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟
جہاں تک آخری سوال کا تعلق ہے کہ ملک میں جمہوری نظام، بالخصوص انتخابی عمل اعتبار کھوتا جا رہا ہے تو اس کی قیمت سب سے زیادہ کس کو چکانی ہوگی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی سب سے زیادہ قیمت ملک کو ہی چکانی ہوگی۔ بھارت جیسے تنوع کے حامل ملک میں انتخابی دھاندلی کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومت ملک کے تمام طبقات کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ نمائندگی اور حقوق سے محرومی کی صورت میں ملک میں بے چینی اور بے اطمینانی پھیلے گی، ملک انتشار کا شکار ہوگا اور ملک کی ترقی کی رفتار رک جائے گی۔ تاہم، یہ حقیقت ہے کہ دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ اقتدار میں آنے والی حکومتیں اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لیے جھوٹ اور پولرائزیشن کا سہارا لیتی ہیں اور اقلیت و پسماندہ طبقات کو نشانہ بناتی ہیں۔ ان میں احساس جرم پیدا کرتی ہیں اور شہریت کو مشکوک بنا دیا جاتا ہے۔ اس لیے ایسی صورت حال میں سیاسی جماعتوں کی جدوجہد اپنی جگہ، مگر ملک کے سنجیدہ شہریوں کو اور اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً مسلمانوں کو جمہوریت اور انتخابی عمل کو بچانے کے لیے سب سے زیادہ میدان میں سرگرم ہونا پڑے گا۔
***
بھارت جیسے تنوع کے حامل ملک میں انتخابی دھاندلی کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومت ملک کے تمام طبقات کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ نمائندگی اور حقوق سے محرومی کی صورت میں ملک میں بے چینی اور بے اطمینانی پھیلے گی، ملک انتشار کا شکار ہوگا اور ملک کی ترقی کی رفتار رک جائے گی۔ تاہم، یہ حقیقت ہے کہ دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ اقتدار میں آنے والی حکومتیں اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لیے جھوٹ اور پولرائزیشن کا سہارا لیتی ہیں اور اقلیت و پسماندہ طبقات کو نشانہ بناتی ہیں۔ ان میں احساس جرم پیدا کرتی ہیں اور شہریت کو مشکوک بنا دیا جاتا ہے۔ اس لیے ایسی صورت حال میں سیاسی جماعتوں کی جدوجہد اپنی جگہ، مگر ملک کے سنجیدہ شہریوں کو اور اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً مسلمانوں کو جمہوریت اور انتخابی عمل کو بچانے کے لیے سب سے زیادہ میدان میں سرگرم ہونا پڑے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025