بچوں کے لیے معیاری ادب کی تخلیق وقت کی ضرورت

نئی دہلی میں بچوں کے ادیبوں اور مصنفین کے لیے ورکشاپ کا انعقاد

نئی دہلی: (دعوت نیوز نیٹ ورک )

اسکرین ٹائم اور موبائل ڈیوائسز: بچوں کی مطالعے کی عادات پر منفی اثرات
معروف اسکالروں کا بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین کے کردار پر زور
بچوں کے ادیبوں اور مصنفوں کے لیے منعقدہ ایک حالیہ ورکشاپ جو انسٹیٹیوٹ آف اسٹڈی اینڈ ریسرچ دہلی (ISRD) کے زیر اہتمام منعقد ہوا، اس میں بچوں کے لیے معیاری اسلامی ادب کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا گیا اور نوجوانوں و نئی نسل کو اس کام کی تربیت دینے کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا گیا۔
یہ ورکشاپ یہاں جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں منعقد ہوا، جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، قومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت (NCERT) اور دہلی حکومت کے محکمہ تعلیم جیسے اداروں سے وابستہ پچاس سے زائد تحقیق کاروں اور بچوں کے ادب میں دلچسپی رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ شرکاء میں تقریباً نصف خواتین تھیں جن میں سے بعض کئی دہائیوں سے بچوں کے ادب کے میدان میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ISRD جو اس ورکشاپ کا انعقاد کر رہا تھا پچھلے پانچ سالوں سے زائد عرصے سے اسلامی فکر کو فروغ دینے اور مختلف پروگراموں کے ذریعے تحریر و تصنیف کی حوصلہ افزائی کرتا آ رہا ہے۔
اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان اور ماہنامہ "افکار ملی” کے مدیر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے "بچوں کے اسلامی ادب کی جدید ضروریات کے تحت تنقیدی جائزہ” کے عنوان سے بچوں کے اسلامی ادب کا تنقیدی جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آج کل علم و تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی مقصد محض اچھی ملازمتیں حاصل کرنا اور دولت جمع کرنا بن گیا ہے جس سے بچوں میں مادہ پرستانہ رجحانات اور رویے فروغ پاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد بچوں کو اچھا انسان، اخلاقی فرد اور نیک مسلمان بنانا ہونا چاہیے۔
آئی ایس آر ڈی کے سکریٹری عاصف اقبال نے ایک سروے پیش کیا جو علاقے کے 254 بچوں کے درمیان ان کی مطالعے کی عادات کو سمجھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعے انہوں نے اہم نتائج کو اجاگر کیا جن میں یہ بات نمایاں تھی کہ بچے کتابیں پڑھنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور اب بھی چھپی ہوئی مواد کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو بچوں کی مطالعے کی عادات کو فروغ دینے میں مثبت اور متحرک کردار اپنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بچے اردو کے مقابلے میں ہندی اور انگریزی میں زیادہ پڑھتے ہیں، جو ممکنہ طور پر انگریزی اسکولوں میں تعلیم کی وجہ سے ہے، اس پہلو پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ بات درست ہے کہ موبائل ڈیوائسز پر اسکرین ٹائم بچوں کے مطالعے کے وقت کو کم کرتا ہے لیکن مصنفین اور ناشرین کو غور کرنا چاہیے کہ بچوں کی توجہ کو موبائل پلیٹ فارموں کے ذریعے کیسے حاصل کیا جائے تاکہ ان کا مواد قابل رسائی ہو سکے۔ سروے سے یہ بھی پتہ چلا کہ بچے ایڈونچر کہانیاں، اسلامی تاریخ اور افسانے پڑھنا پسند کرتے ہیں، خاص طور پر موجودہ دور میں اسلامی ہیروؤں کی کہانیاں۔ والدین بچوں کو کتابیں فراہم کرتے ہیں اور وہ اکثر تحائف کے طور پر بھی کتابیں حاصل کرتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بچے اپنی جیب خرچ سے کتابیں بھی خرید رہے ہیں جو کہ ایک قابل تحسین عمل ہے اور اس کی مزید حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ مطبوعہ کتابوں کو پڑھنے کی واضح ترجیح ای بکس اور آڈیو بکس کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ تاہم، سوال باقی ہے کہ کیا ہم اپنے معاشرے میں بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ بچے آن لائن گیمز، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے مختلف مواد کے ساتھ مشغول ہیں، لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کتابیں ان کی زندگیوں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور وہ مطالعے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ سادہ اور آسان زبان کے ساتھ سستی اور تصویری کتابوں کو پسند کرتے ہیں۔ مصنفین اور ناشرین کو ان پہلوؤں پر توجہ دینا چاہیے ۔
اپنے صدارتی خطاب میں معروف اسلامی اسکالر اور سو سے زائد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی، جو جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ہیں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بچوں کے ادیبوں کو تین اہم اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے: کہانی لکھتے وقت بچوں کے ذوق اور نفسیات کو مدنظر رکھیں اور اسلامی اقدار، تعلیمات اور ثقافت کو نرمی کے ساتھ اپنی تحریروں میں شامل کریں؛ اسلام کے متعلق مستند مواد پیش کریں اور غلط یا گمراہ کن معلومات سے پرہیز کریں اور بہت سادہ اور قابل فہم زبان استعمال کریں۔
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے یہ بھی کہا کہ جماعت اسلامی ہند کے ابتدائی دور میں اس کے اراکین نے بچوں کے لیے معیاری مذہبی ادب تیار کیا تھا لیکن وقت کے ساتھ اس میں کمی آئی ہے، انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اب اس اہم پہلو پر دوبارہ توجہ دی جا رہی ہے۔
بچوں کے معروف مصنف محمد سراج عظیم، آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی دہلی کے بانی سکریٹری نے "کثیر الثقافتی معاشرے کی تلاش اور بڑھتے ہوئے انتہا پسندی کے درمیان بچوں پر اس کے اثرات” کے عنوان سے ایک لیکچر دیا۔ انہوں نے بچوں میں انتہا پسندانہ رجحانات کے کئی عوامل پر روشنی ڈالی: مشترکہ خاندانی نظام کی تباہی، والدین کے بچوں کے ساتھ بے تعلق تعلقات، تکنیکی ترقیات کا بے قابو استعمال اور بچوں کی جانب سے الیکٹرانک آلات کے زائد استعمال، اور والدین، ماحول یا ٹیکنالوجی سے مختلف دباؤ۔ بچوں میں تشدد کے رجحانات کیسے پیدا ہوتے ہیں، اس پر انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ بہتر تعلق قائم کریں، انہیں بھرپور توجہ دیں اور ان کی ہمہ جہتی تربیت و نشوونما پر توجہ دیں کیونکہ والدین اپنے بچوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں، لہٰذا انہیں بہترین کردار اور سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ورکشاپ کا آغاز جماعت اسلامی ہند دہلی کے ریاستی صدر جناب سلیم اللہ خان کے استقبالیہ کلمات سے ہوا۔ اس کے بعد ماہرین نے بچوں کے ادب کے مختلف پہلوؤں پر بصیرت افروز خطابات دیے۔ مولانا انعام اللہ فلاحی، مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند نے "اسلامی اقدار کی روشنی میں بچوں کے ادب کی ضرورت اور اہمیت” کے عنوان سے گفتگو کی۔ ڈاکٹر شاداب موسیٰ، جماعت اسلامی ہند کے اسسٹنٹ سکریٹری نے "بچوں کی فکری اور ذہنی ترقی کے مراحل کو سمجھنا” کے موضوع پر پریزنٹیشن پیش کیا۔
ڈاکٹر فیضان شاہد نے "مختصر کہانیوں کے بچوں کی نفسیاتی، سماجی اور اخلاقی ترقی پر اثرات” پر گفتگو کی۔
ورکشاپ تین سیشنز پر مشتمل تھا، جس کی نظامت نورالاسلام رحمانی، نعیم رضا، اور محمد معاذ نے کی۔ تمام شرکاء کو اسناد سے نوازا گیا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024