بچوں کے تربیتی حقوق

مضبوط خاندان کی تعمیر و تشکیل کے تناظر میں

بشریٰ ناہید(اورنگ آباد)

 

بچوں یا اولاد کے حقوق کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دیکھ بھال، کھانے پینے اور ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دے اور ان کی ان ظاہری اور مادی ضروریات کی تکمیل میں حسب استطاعت مال اور محنت دونوں لگائے۔ جبکہ دوسرا پہلو ان کی ذہنی و فکری تربیت کی ذمہ داری سے متعلق ہے۔ اس کی شروعات بچے کے دنیا میں آنے کے بعد اس کے لیے اچھا اور خوبصورت نام منتخب کرنے سے ہوتی ہوئی ’’اکرموا اولادکم واحسنوا ادبہم‘‘ (اپنی اولاد کو عزت دو اور انہیں بہترین زندگی جینے کا سلیقہ سکھاؤ!) تک پہنچتی ہے۔ اس دوران اولاد کے درمیان عدل و انصاف اور سب کو یکساں محبت و وسائل کی فراہمی بھی ملتی ہے۔
اولاد کی عزت و احترام اور زندگی کا بہترین سلیقہ سکھانا ایک طرف تو والدین کی ذمہ داری ہے، دوسری طرف اولاد کا حق بھی ہے۔ اولاد کے اس حق کی ادائیگی پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ احسنوا ادبہم کا مطلب اور مقصودیہ ہے کہ ہم انہیں جہاں اچھی اور بلند اقدار اور تعلیمات سے آگاہ کریں وہیں انہیں معاشرے کا ایسا فرد بنانے کی فکر کریں جو سماج اور خاندان کا بہترین رہنما اور مستقبل کا اچھا سربراہ خاندان فرد سماج بن سکے۔
مضبوط خاندان کا فرد اور اس کا پیغامبر نیز  مضبوط سماج کا حصہ، اس کا داعی اور مصلح کی حیثیت سے اپنے بچے کو تیار کرنا دینی تعلیم کا بھی حصہ ہے اور خاندان و سماج کی ضرورت بھی۔ اگر والدین اس جہت میں کوشش کرتے ہیں تو اولاد خاندان، سماج اور ملک کے لیے سرمایہ اور وجہِ افتخار بنتی ہے اور اگر اس میں غفلت اور کوتاہی برتی جائے تو سماج کے لیے بوجھ اور خاندان کی عزت و وقار کے لیے داغ مختلف النوع مسائل کا سبب بنتی ہے جس کے مظاہر کو موجودہ خاندانی نظام اور سماج میں بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے۔
والدین پر بچوں کا یہ حق ہے کہ ان کی بہتر تعلیم و تربیت کے نظم کے ساتھ ساتھ ان کو گھر میں ایسا شگفتہ پرسکون اور ہلکا پھلکا ماحول فراہم کر یں جہاں وہ گھٹن محسوس نہ کریں ا ندیشے ڈر و خدشات لاحق نہ ہوں ان کی شخصیت کا ارتقاء ہو وہ کامیاب و پر اعتماد شہری بن کر ابھریں۔ جس گھر میں والدین کے درمیان ہی ناچاقی ہو، ضد ہو، رقابت ہو، کدورت ہو، ایک دوسرے کے خلاف حریفانہ سازشیں رچی جاتی ہوں، لعن طعن، طلاق و خلع کی دھمکیاں، ایک دوسرے کی عزتوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہوں اس گھر کے بچے بچپن میں سہمے سہمے ڈرے ڈرے رہتے ہیں، جوانی میں بدتمیز ہو نے لگتے ہیں اور پھر باغی بن جاتے ہیں۔ سوچیے اس طرح کے بچے جب خود گھر بسائیں گے تو کیسے وہ اپنے گھر کو خوشگوار و مضبوط خاندان کی عملی تصویر میں ڈھال سکیں گے۔ گویا ایک فیملی کے غلط اثرات اس گھر کی پوری نسل پر پڑتے اور اس کے غلط نتائج پورے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور اس طرح کے خاندانوں کے اثرات پورے سماج پر پڑتے ہیں جس کے سبب سماج افرا تفری و ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا کھوکھلا سماج نہ ملک کی ترقی کرپاتا ہے، نہ اس میں بسنے والوں کے لئے ترقی کے سامان مہیا کر سکتا ہے ۔سماج افراد سے بنتا ہے افراد گھروں میں بستے ہیں جب یہی افراد گھر کی مضبوطی کو قائم رکھنے میں ناکام ہو جائیں تو سماج بھی ناکامی کا شکار ہو جا ئے گا۔
سماج کی سب سے بنیادی اکائی بچے ہیں اور ان بچوں کی تربیت کی ذمہ داری والدین پر ہے۔ یہ بچوں کا حق ہے کہ والدین ان کی ترقی و کامیابی کے لئے اپنی ازدواجی زندگی کو بھی بہتر بنائیں اور بچوں کے تئیں ان پر عائد کردہ ذمہ داری کو بھی ادا کرنے کے لئے مخلصانہ کوشش کریں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کی ضروریات، طرز زندگی، طرز معاشرت ‘ ترقی کے پیمانے، اقدار وغیرہ میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن ہر زمانے کی مخلوق اپنے زمانے کو انسانی تاریخ کا سب سے خراب سب سے بگڑا ہوا زمانہ اور اس زمانے میں پلنے والی نسل کو سب سے بد ترین نسل قرار دیتی چلی آرہی ہیں ۔
آج بھی زیادہ تر بزرگوں کے نزدیک آج کی نسل امت مسلمہ کی سب سے زیادہ بگڑی ہوئی نسل ہیں ۔ سیکٹروں برس پہلے بھی یہی کہا جاتا تھا جبکہ موجودہ دور کی خصوصیت یہ ہوگئی ہے کہ آج ہر اچھائی و برائی تک نسلوں کی رسائی نہایت آسان ہو گئی ہیں ۔
اگر والدین اس ذمہ داری کی ادائیگی کے سلسلہ میں غفلت و لا پرواہی کرتے ہیں تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں اور اس کا خمیازہ صرف والدین ہی کو نہیں بلکہ خاندان ، دوست احباب، اور پورے سماج کو بھگتنا پڑتا ہے ، اسی کیفیت کے سلسلے میں قرآن ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ:
انما اموالکم و اولادکم فتنہ
’’واقعہ یہی ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں۔‘‘
اور ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ:
قوانفسکم و اھلیکم نارا (التحریم)
’’بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے ۔‘‘
ہم سماج کو اچھے شہری دیں گے تو سماج میں اچھائی کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوگا اور اس سے ہم اور ہمارا خاندان بھی فیض یاب ہوگا۔
کرنے کے کام:
l واعدلوابین اولاد کم ( بخاری)
’’اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔‘‘
l والدین خود نماز اد کریں اور بچوں کو بھی تاکید کریں۔
l والدین گھر کے بزرگوں کی خدمت اور ان کا ادب و احترام کریں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کریں۔
l بچوں کو وقت دیں ( اگر آپ بہت مصروف رہتے ہیں تو دن بھر میں کوئی وقت طے کر لیں اور لازماً وہ وقت بچوں کے ساتھ گزاریں)
l اچھی عادتیں اچھے اخلاق و کردار کے دنیاوی و اخروی فائدے بتاتے رہیں ۔
l ان کی ضروریات کا خیال رکھیں ۔
l چھوٹی چھوٹی کامیابی پر حوصلہ افزائی کریں ۔
l خود اپنے اخلاق و کردار کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔
l ان کی چھوٹی موٹی غلطیوں کی احسن انداز میں اصلاح کی کوشش کریں ۔
l محلہ میں ہونے والے دینی اجتماعات چلڈرن سرکل،دینی مکاتب وغیرہ میں ان کی شرکت کو یقینی بنانے کی کوشش کریں ۔
l والدین بچوں کے سامنے اپنے سسرالی رشتہ داروں یا ان کے اوراپنے ملنے والوں کی برائیاں نہ کریں اور نہ ہی بچوںکے دوستوںاور سہیلیوں کے سامنے بچوں کی شکایتیں کریں۔
وَاَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ۝۰ۭۚ ( الاحقاف: 15 )
’’اور میرے لیے میری اولاد میں خیرو صلاح عطا فرما۔‘‘
خوش نصیب ہیں وہ والدین جن کو اللہ تعالیٰ ایسی تمنا رکھنے اور دعا مانگنے کی توفیق بخشتا ہے۔ والدین نے اللہ کے شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انہیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے والدین کےلئے درحقیقت ان کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ اولاد ہی ہوتی ہیں ۔ اور نہ صرف دنیا بلکہ آخرت کے لئے بھی یہ بہترین سرمایہ ثابت ہوتی ہیں بشرطیکہ ان کی بہترین تربیت کی جائے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی سے روایت کردہ حدیث کے مطابق ’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا سلسلہ عمل ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کےمرنے والا کوئی ایسا صدقہ چھوڑ جائے ، جواس کے بعد بھی جاری رہے یا ایسا علم چھوڑ جائے کہ اس کے بعد بھی لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں یا پھر ایسی نیک اولاد چھوڑ جائے، جو وفات کے بعد اس کے لئے دعا کرتی رہے۔‘‘ (مسلم) ایسا تاجر جو اس جگہ اپنا وقت اور مال نہ لگائے جہاں سے اسے بالیقین کئی گنا منافع بغیر کسی نقصان کے مل سکتا ہو تو یہی سمجھا جائے گا کہ تاجرانہ فن سے نابلد ہے اسی طرح اگر زندگی کے خاتمہ کے بعد بھی جن اعمال کے منقطع ہونے کے بعد بھی ان کے اجر و ثواب ملنے کی بشارت دے دی گئ ہو اور اس کے باوجود مسلم والدین ان اعمال کی طرف توجہ نہ دے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ گھاٹے کے سوداگر ہیں ۔
ہمارا گھر صالح کردار و اخلاق کی بہترین بنیادوں پر مضبوطی سے کھڑا ہوگا تو ان شاء اللہ ہم دیکھیں گے کہ یہ سماج و ملک بھی مضبوط ہوگا اور ہمارے گھر خوشگوار و مضبوط خاندان کی مثالی تصویر پیش کریں گیں ۔ ان شاء اللہ
اٹھو چمن زیست کے نو خیز شگوفوں !
تخریب گلستاں کے نظاروں کو بدل دو !
ll

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021