
بوگوٹا اعلامیہ: فلسطین کے لیے عالمی جنوب کا فیصلہ کن موڑ
انڈونیشیا سمیت بارہ ممالک کا اسرائیل کے خلاف قابل عمل اقدامات پر اتفاق
بوگوٹا (دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی ردعمل کو عملی جہت دینے کی ایک تاریخی کوشش کے تحت، انڈونیشیا سمیت بارہ ممالک نے جنوبی امریکہ کے ملک کولمبیا کے دارالحکومت بوگوٹا میں منعقدہ سربراہی اجلاس کے دوران ایک جامع اور غیر مبہم اعلامیہ پر دستخط کیے ہیں۔ اس’’بوگوٹا ڈیکلریشن‘‘ میں اسرائیل کو جواب دہ بنانے کے لیے جو ٹھوس اقدامات طے کیے گئے ہیں، وہ محض علامتی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اور قانونی مزاحمت کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
اس اعلامیے کی قیادت ’’ہیگ گروپ‘‘ نے کی جو بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور عالمی انصاف کے فروغ کے لیے سرگرم ایک مؤثر اور ابھرتا ہوا اتحاد ہے۔ اعلامیے میں جن اقدامات پر اتفاق ہوا، ان میں:
اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندی
اسلحہ بردار جہازوں کی بندرگاہوں تک رسائی کی ممانعت
صہیونی قبضے سے وابستہ تجارتی معاہدوں پر نظرِ ثانی اور
بین الاقوامی عدالتوں کے دائرۂ اختیار کے تحت قانونی کارروائیاں شامل ہیں۔
نیز، اعلامیے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے وارنٹس کی بھرپور حمایت اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) کے 2024 کے مشاورتی فیصلے کے نفاذ کی وکالت بھی کی گئی ہے۔
انڈونیشیا: اصولی مؤقف سے عملی اقدام کی طرف پیش قدمی
دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ملک اور فلسطینی مزاحمت کے مستقل حامی کے طور پر انڈونیشیا کی شمولیت محض رسمی نہیں بلکہ سیاسی و اخلاقی طور پر غیر معمولی ہے۔ یہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا تقاضا صرف بیانات نہیں بلکہ جرأت مندانہ اور نتیجہ خیز پالیسیاں ہیں۔
غزہ میں 58,000 سے زائد فلسطینیوں کی شہادت، تباہ شدہ ہسپتال، محصور پناہ گزین کیمپس اور بچوں کی اجتماعی قبریں یہ سب انڈونیشیا جیسے باضمیر ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں، صرف مذمت سے نہیں بلکہ عملی قیادت سے۔
اعلامیے میں اگرچہ فلسطینی حقِ خود ارادیت کا ذکر موجود ہے مگر دو ریاستی حل کو صرف ضمنی اشاروں میں بیان کیا گیا ہے جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ:
القدس کو اسرائیل نے غیر قانونی طور پر ضم کر لیا ہے
مغربی کنارہ قابض چوکیوں اور دیواروں میں جکڑا جا چکا ہے اور
غزہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
ان حالات میں نہ صرف دو ریاستی حل عملی طور پر ناممکن ہو چکا ہے بلکہ انصاف کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ اسی تناظر میں ایک مکمل آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست ۔ جس کا دارالحکومت القدس ہو، جو اپنے تمام وسائل، سرزمین اور قومی فیصلوں پر بلا شرکت غیرے حاکم ہو ۔ یہی واحد منصفانہ اور تاریخی طور پر درست حل ہے۔ اقوام متحدہ، مسلم دنیا اور عالمی جنوب کو چاہیے کہ اسی مطالبے کو مرکزی بیانیہ بنائیں۔
بوگوٹا اجلاس نے یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ عالمی جنوب کے باحوصلہ اور ضمیر زندہ ممالک اب صرف ’’فائر بندی‘‘ یا ’’امن مذاکرات‘‘ جیسے مبہم اور غیر مؤثر مطالبات پر اکتفا نہیں کریں گے۔ ان کا اصل مطالبہ اب واضح ہے کہ: قابض اسرائیلی ریاست کے خلاف ٹھوس قانونی کارروائی، فلسطینی قوم کو مکمل اور بلا شرکتِ غیرے حاکمیت کی بحالی اور تاریخی ناانصافی کے زخموں کا حقیقی ازالہ ہو۔ جیسا کہ ایک ممتاز انسانی حقوق کے وکیل نے کہا ’’قیادت ہمیشہ اتفاق رائے سے نہیں بلکہ جرأت اور وژن سے متعین ہوتی ہے۔ انڈونیشیا نے پہلا قدم اٹھایا ہے، اب اسے یہ سفر مکمل کرنا ہے۔‘‘
اعلامیے پر دستخط کرنے والے بارہ ممالک — جن میں انڈونیشیا، جنوبی افریقہ، برازیل، کولمبیا، ملیشیا، بولیویا، نامیبیا، ترکی، الجزائر، آئرلینڈ، میکسیکو اور تیونس شامل ہیں ۔ اس نئے عالمی اتحاد کی بنیاد بن چکے ہیں۔ اب نظریں ستمبر 2025 کے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس پر مرکوز ہیں، جہاں فلسطین پر ٹھوس قراردادیں، اقتصادی و عسکری پابندیوں کی تجاویز اور عالمی عدالتوں کے فیصلوں کے نفاذ کی کوششیں متوقع ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025