بنگلہ دیش میں جمہوریت کی جیت یا آمریت کی؟
شیخ حسینہ واجد پانچویں مرتبہ وزیر اعظم بن گئیں مگر حکومت اعتراضات کی زد میں
شبانہ جاوید، کولکاتہ
انتخابات میں حزب اختلاف کی عدم شرکت سے موجودہ نتائج پر عالمی طاقتوں کو شبہات
2024 کے شروعات کے ساتھ ہی جہاں بھارت میں عام انتخابات کی تیاریاں دیکھی جا رہی ہیں، وہیں پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے کامیابی کا سلسلہ برقرار رکھتے ہوئے 12ویں قومی پارلیمانی انتخابات میں شیخ حسینہ واجد ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوئی ہیں۔ 17 کروڑ کی آبادی والے ملک بنگلہ دیش کے عام انتخابات کا بی این پی سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ شیخ حسینہ پہلے اپنے عہدے سے استعفی دیں اور انتخابات نگراں حکومت کی زیر نگرانی ہوں۔ اس مطالبے کو شیخ حسینہ نے مسترد کر دیا تھا جس کے بعد اپوزیشن نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ جبکہ انتخابات میں شیخ حسینہ کی پارٹی سمیت حکومت اتحادی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے الیکشن میں حصہ لیا جس میں شیخ حسینہ کی پارٹی نے کامیابی حاصل کرتے ہوئے پانچویں مدت کے لیے حکومت بنانے کا موقع حاصل کیا۔ حسینہ حکومت کی کامیابی کے باوجود اس الیکشن کو متنازعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران بڑی تعداد میں بی این پی کے لیڈروں و کارکنوں کی گرفتاریوں پر بھی حکومت کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس الیکشن کے نتائج کو ملک کے اندر اور باہر تسلیم کر لیا جائے گا اور کیا بنگلہ دیش کی جمہوریت پر اٹھنے والے سوالوں کے جوابات حکومت دے پائے گی۔ اگرچہ پچھلے دنوں ہونے والے انتخابات مجموعی طور پر پرامن رہے لیکن الیکشن سے پہلے اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کی طرف سے پر تشدد مظاہرے بھی ہوئے۔ انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی اپوزیشن جماعت بی این پی نے الزام لگایا کہ حکومت نے اپوزیشن لیڈروں کو ظلم کا نشانہ بنایا اور ان پر فرضی مقدمات لگائے گئے۔ ان کے مطابق اب تک 25 ہزار سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ گزشتہ 14 برسوں سے برسر اقتدار ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ان سالوں میں اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے اپوزیشن اور سیاسی مخالفین کی طاقت کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ 2008 میں شیخ حسینہ کو بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت انہوں نے بنگلہ دیش کی عوام سے ترقی پسند اور آزاد جمہوری روایات قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر اقتدار سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد ہی انہوں نے اپنے انتقامی سیاست کو سامنے لاتے ہوئے کارروائی شروع کی اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے لیڈروں اور رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کا عمل شروع کیا۔ عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی پوری لیڈرشپ کو غدار اور ملک دشمن ثابت کرنے کے لیے مقدمات چلائے اور کئی بڑے لیڈروں کو سزائے موت بھی سنائی گئی۔ کئی ایسے معاملے بھی سامنے آئے ہیں جب جماعت اسلامی کے متعدد سینئر رہنماؤں کا دوران قید جیل میں انتقال ہوگیا لیکن ان کے چاہنے والوں کو حسینہ حکومت نے نماز جنازہ میں شرکت کی بھی اجازت نہیں دی جس کے خلاف لوگوں میں ناراضگی بھی دیکھی گئی۔ ملک میں کل 68 جیلیں ہیں ان جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 80 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کے رہنے کی جگہ تنگ ہو گئی ہے لیکن گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان قیدیوں میں 25 ہزار سے زائد بی این پی اور اس کے اتحادیوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی لیڈر اور ورکرز ہیں۔ بی این پی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سینئر رہنماؤں اور پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے، تاکہ پارٹی الیکشن میں حصہ لینے کے لیے اپنی طاقت استعمال نہ کر سکے۔ حال یہ ہے کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے بی این پی کے ہزاروں لیڈر اور کارکن اپنے گھروں سے دور رہنے پر مجبور ہیں۔ بی این پی لیڈر معین خان کے مطابق حالات ایسے تھے کہ اپوزیشن جماعتوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ چنانچہ بی این پی سمیت ملک کی بیشتر اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام اور ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ سیاسی مخالفین اب بنگلہ دیش کے شہری ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور ہم مل جل کر بنگلہ دیش کی ترقی کے لیے کام کریں گے مگر شیخ حسینہ نے والد کے ان وعدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کے لیے بنگلہ دیش کی سرزمین تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جو ان کے اقتدار کا بد ترین فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔ حسینہ کے دور اقتدار کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی و نظریاتی مخالفین کو خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1981سے حسینہ بنگلہ دیش عوامی لیگ کی قیادت کر رہی ہیں۔ شیخ حسینہ نے اپنی طویل سیاسی کریئر میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ بنگلہ دیش کے باہر سیاسی پناہ لینے کے ساتھ قاتلانہ حملے اور مقدمات کا بھی سامنا کیا ہے۔ انہوں نے کامیابی بھی سمیٹی ہے اور ناکامیاں بھی ان کے حصے میں آئی ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی کے اتار چڑھاؤ کی اگر ہم بات کریں تو انہیں دنیا بھر میں سب سے طویل مدت تک حکم رانی کرنے والی خاتون ہونے کا شرف حاصل ہے اور ساتھ ہی دنیا کی طاقتور خاتون ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ چونکہ عوامی لیگ نے 1971 میں آزادی دلوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس لیے لوگوں کی حمایت بھی انہیں حاصل رہی ہے۔ سسٹم سمیت شیخ حسینہ حکومت کو بنگلہ دیش کی اشرافیہ، عدلیہ اور فوجی افسروں کی بھی حمایت حاصل ہے۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یعنی بی این پی کی رہنما خالدہ ضیا کو ان کی سب سے بڑی سیاسی حریف مانا جاتا ہے اور ان کے سب سے بڑے سیاسی دشمنی کو بیگمات کی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں کیا جاتا تھا لیکن اب یہ ملک تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہے جس نے اپنے پڑوسی ملک بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس ترقی کا سہرا شیخ حسینہ کو جاتا ہے۔ حسینہ حکومت نے بنگلہ دیش کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن کورونا اور روس۔یوکرین جنگ نے بنگلہ دیش کی معشیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ آج بنگلہ دیش میں جہاں بیروزگاری اور مہنگائی سے عوام پریشان ہیں وہیں کرپشن بھی ایک بڑا ایشو ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں بنگلہ دیش کے انتخابی عمل کو کس طرح دیکھا جائے؟ چوتھی مرتبہ حسینہ اقتدار سنبھال رہی ہیں ایسے میں کیا وہ منقسم بنگلہ دیش کو متحد کر پائیں گی۔ حسینہ یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے دور اقتدار میں بنگلہ دیش زبردست اقتصادی اور سماجی ترقی کر رہا ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق قومی جی ڈی پی 2021 میں 416.3 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے وقت بنگلہ دیش کی جی ڈی پی 2.6 بلین ڈالر تھی۔ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ 20 برسوں میں ڈھائی کروڑ لوگوں نے غریبی سے نجات حاصل کی ہے لیکن کورونا اور روس یوکرین جنگ کے بعد مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگوں نے مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر مظاہرہ بھی کیا ہے۔ گزشتہ سال آئی ایم ایف نے 4.7 بلین ڈالر کے قرضوں کو منظوری دی جسے شیخ حسینہ کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ساتھ ہی حسینہ حکومت نے 2017 میں میانمار سے فرار ہونے والے دس لاکھ روہنگیوں کو پناہ بھی دی اور ان کے خلاف ہونے والے تشدد کی مذمت بھی کی۔ حسینہ کے ان اقدامات کو دنیا بھر میں سراہا گیا لیکن ان کے سیاسی ادوار کے دوران ہونے والے قتل، گرفتاریوں اور سیاسی زیادتیوں میں اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے حزب اختلاف کے حامیوں کے گرفتاری کو حکومت کی طرف سے پرتشدد آمرانہ کریک ڈاؤن قرار دیا۔ انتخابات سے قبل حزب اختلاف کی قیادت کرنے والی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عوامی لیگ، شیخ حسینہ کو اقتدار پر لانے کے لیے دھاندلی کرے گی۔ یہی وجہ تھی کے حسینہ کے استعفیٰ کے ساتھ اپوزیشن نے مطالبہ کیا تھا کہ غیر جانبدارانہ حکومت کی نگرانی میں الیکشن کرایا جائے جسے حسینہ واجد نے مسترد کر دیا تھا، جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ گزشتہ سال بنگلہ دیش میں امریکی سفیر پیٹر ہاس نے عوامی لیگ اور اپوزیشن کو بات چیت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی جسے حسینہ نے مسترد کر دیا تھا۔ پیٹر ہاس کے مطابق تشدد و احتجاج کے ساتھ لوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی سے روکنا آزاد اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ پیٹر ہاس کے ان بیانات کے بعد عوامی لیگ کی جانب سے انہیں دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ شیخ حسینہ کو حالیہ برسوں میں حکومت مخالف مظاہروں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہند۔بنگلہ دیش سیاست پر نظر رکھنے والے مشہور صحافی ایم قاضی نے بنگلہ دیش الیکشن کو افسوسناک بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ کے اعلان کے ساتھ اس الیکشن کو کیسے تسلیم کیا جائے گا؟ انہوں نے بنگلہ دیش الیکشن پر دنیا بھر میں ہونے والی تنقید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ نے بھی بنگلہ دیش الیکشن پر سوالات اٹھائے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دیا گیا ہے اور الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی مذمت کی گئی ہے۔ الیکشن کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ انتخابات غیر جانبدار نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کی بنگلہ دیش میں دلچسپی ختم ہو گئی؟
امریکہ کی بنگلہ دیش میں دلچسپی ختم نہیں ہوئی ہے۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر مغربی ممالک بھی بنگلہ دیش سے بہتر رشتوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ چین کے بعد بنگلہ دیش کپڑے فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ مغربی ممالک کے ساتھ اس کے کپڑے کی صنعت کے تجارتی تعلقات ہے لیکن امریکہ انسانی حقوق کے متعلق ترجیحات اور بین الاقوامی نظام پر مبنی نقطہ نظر پر اپنے فیصلے پر اٹل ہے۔ انتخابات کے بعد مبینہ طور پر تجارتی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے بین الاقوامی طاقتوں کے ذریعہ بنگلہ دیش پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اپنے جمہوری عمل کو بہتر بنائے اور ملک میں جاری بحران کو ختم کرنے کے لیے بات چیت کو قبول قبول کرے۔ امریکہ نے کسی بھی پارٹی کے اراکین اور ان کے خاندان والوں پر ویزا پابندی عائد کر دی ہے جنہوں نے انتخابات میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ حسینہ نے اس کے خلاف سخت رد عمل بھی دیا ہے۔ بنگلہ دیش کی جمہوریت کے حوالے سے دنیا تقسیم ہے۔ بھارت، چین اور روس کی مضبوط سفارتی حمایت بنگلہ دیش کو حاصل ہے۔ دوسری طرف امریکہ سمیت مغربی ممالک انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کر رہے ہیں، وہیں بھارت نے اسے بنگلہ دیش کا اندورنی معاملہ بتاتے ہوئے بنگلہ دیش میں بھارت کی سابق سفیر بینا سیکرے نے کہا کہ اس بار بھی بھارت خاموش ہے کیونکہ یہ ان کے ملک کا اندورنی معاملہ ہے۔ حسینہ کے ساتھ بھارت کے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں بھارت ہمیشہ بنگلہ دیش کی مثال دیتا ہے۔ سیکیورٹی ایشوز پر حسینہ حکومت نے کافی توجہ دی ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی پریشانیوں کو سمجھا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کو بنگلہ دیش سے کافی تعاون ملا ہے اور حسینہ حکومت نے بنگلہ دیش کی سر زمین پر بھارت مخالف سرگرمیوں کو ختم کیا ہے۔ ایسے میں بھارت حسینہ حکومت سے بہتر تعلقات کو مزید مضبوط بنائے گا۔ پروفیسر ایم محمود کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ عدم استحکام، غیر جمہوری اداروں اور سرگرمیوں میں اضافہ کسی بھی ملک کے استحکام کے لیے صحت مند نہیں ہے۔ عدم استحکام کے شکار ممالک کبھی بھی اپنے پڑوسیوں کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوتے ہیں۔ ان حالات میں بھارتی حکم رانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ بنگلہ دیش کے غیر جمہوری رویے کی سخت تنقید کرتے۔ وہیں حسینہ حکومت کو بھی لگتا ہے کہ اگر انہیں بھارت کی حمایت حاصل ہے تو وہ بھارت کے ساتھ مل کر تمام تر تنقیدیں اور بین الاقوامی دباؤ کو ختم کر لیں گی۔ لیکن ماہرین کے مطابق یہ آسان نہیں ہوگا۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں جب بھارت کے الیکشن کے نتائج بھی سامنے آئیں گے تو برصغیر کی تصویر کیا رخ اختیار کرے گی۔
***
***
’’ حالات ایسے تھے کہ اپوزیشن جماعتوں کے انتخابات بائیکاٹ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا چنانچہ بی این پی سمیت ملک کی بیشتر اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام اور ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ سیاسی مخالفین اب بنگلہ دیش کے شہری ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور ہم مل جل کر بنگلہ دیش کی ترقی کے لیے کام کریں گے مگر شیخ حسینہ نے والد کے ان وعدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کے لئے بنگلہ دیش کی سرزمین تنگ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جو انکے اقتدار کا بدترین فیصلہ سمجھا جاتا ہے حسینہ کے دور اقتدار کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی و نظریاتی مخالفین کو خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔
بی این پی لیڈر معین خان
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2024