بدعنوانی کے معاملات میں تحقیقات کا سامنا کرنے والے 25 اپوزیشن رہنما بی جے پی میں شامل
ہیمنت بسوا سرما، پرفل پٹیل، اجیت پوار، اشوک چوان، سویندو ادھیکاری، پرتاپ سارنائک، حسن مشرف، بھاونا گاولی سمیت کئی لیڈر پارٹیاں بدل کر بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں
نئی دہلی،06اپریل :۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو طویل عرصے سے الزامات کا سامنا ہے کہ سرکاری ایجنسیاں بی جے پی میں شامل ہوتے ہی بدعنوانی کے ملزمان سے تفتیش کرنا بند کردیتی ہیں۔حزب اختلاف کی جماعتیں نریندر مودی حکومت پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)، سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ (آئی ٹی) جیسی مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کا ‘غلط استعمال’ کرنے کا مسلسل الزام لگا رہی ہیں۔
انڈیا ٹو مارو کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ایک رپورٹ نے ان الزامات کی تصدیق کی ہے جب میڈیا گروپ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2014 سے دیگر پارٹیوں کے 25 لیڈران جو مرکزی ایجنسی کی تحقیقات کی زد میں تھے بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ان 25 رہنماؤں میں سے 23 کو ان مقدمات میں ریلیف مل گیا ہے جن میں وہ تحقیقات کا سامنا کر رہے تھے، جب کہ باقی تین رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے دعوے کے مطابق ان لیڈروں کے 20 کیسز میں تفتیش تعطل کا شکار ہے یا اسے روک دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اپوزیشن پارٹیاں براہ راست الزام لگاتی ہیں کہ بی جے پی بدعنوانی کے الزام لگانے والوں کے لیے واشنگ مشین کی طرح ہے جو دوسری پارٹیاں چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ’’ان 25 کیسوں میں سے صرف دو کیس، سابق کانگریس ایم پی جیوتی مردھا اور ٹی ڈی پی کے سابق ایم پی وائی ایس چودھری کے، ایسے ہیں، جن میں ای ڈی کی جانب سے کسی نرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ جوبی جے پی میں شامل ہو گئے۔‘‘بدعنوانی کے الزام میں اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے قائدین میں کانگریس سے دس، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی سے چار اور شیوسینا سے چار، ترنمول کانگریس سے تین، تیلگو دیشم پارٹی سے دو اور سماج وادی پارٹی سے ایک اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی سے ایک لیڈر شامل ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، "اس فہرست میں وہ چھ رہنما شامل ہیں جنہوں نے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ہیمنت بسوا سرما، پرفل پٹیل، اجیت پوار، اشوک چوان، سویندو ادھیکاری، پرتاپ سارنائک، حسن مشرف، بھاونا گاولی سمیت کئی لیڈر پارٹیاں بدل کر بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔
اپوزیشن پارٹیاں اکثر الزام لگاتی ہیں کہ بی جے پی مرکزی تفتیشی ایجنسیوں بالخصوص ای ڈی کا غلط استعمال کرکے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو ہراساں کرتی ہے۔
حال ہی میں جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو ای ڈی نے گرفتار کیا ہے۔ کئی دوسرے لیڈروں پر بھی چھاپے مارے گئے اور پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر بدعنوانی کے ملزم بی جے پی میں ہیں تو بی جے پی کو کرپشن ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس لیے دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف بدعنوانی کی تحقیقات شروع کرنے کا واحد مقصد انہیں مجبور کرنا یا ہراساں کرنا لگتا ہے۔
ایک تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ 2014 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 95 فیصد ای ڈی کے مقدمات اپوزیشن لیڈروں کے خلاف شروع کیے گئے تھے۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2014 سے ستمبر 2022 کے درمیان ای ڈی نے 121 اہم لیڈروں کے خلاف تحقیقات شروع کیں جن میں سے 115 اپوزیشن لیڈر تھے۔ تب سے یہ فہرست بڑی ہو گئی ہے۔