بابری مسجد کا انہدام ایک سوچی سمجھی سازش تھی: جسٹس لبرہن
جسٹس لبرہن کے مطابق اوما بھارتی سمیت کئی افراد نے اس بات کا اعتراف کیا تھا۔
سابق جج اور لبرہن کمیشن کے سربراہ جسٹس لبرہن نے آج کہا کہ بابری مسجد کا انہدام کوئی اچانک پیش آنے والا ہجومی واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے منصوبہ بند سازش تھی جسے آر ایس ایس اور اس کی ذیلی سیاسی و غیر سیاسی تنظیموں نے انجام دیا۔
جسٹس لبرہن نے انڈین ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے سامنے ایل کے ایڈوانی، واجپائی اور اوما بھارتی جیسے کئی لیڈر پیش ہوئے تھے۔ اوما بھارتی نے خود ان کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ وہ مسجد کے انہدام کے لیے ذمہ دار تھیں۔ "اب اگر جج یہ کہتا ہے کہ وہ ذمہ دار نہیں تھیں تو اس میں میں کیا کرسکتا ہوں۔”
انھوں نے کہا کہ ان کے سامنے جو گواہ اور ثبوت پیش ہوئے ان سے کوئی بھی شخص یہ آسانی سے فیصلہ کرسکتا ہے کہ مسجد کا انہدام ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔
جسٹس لبرہن نے مزید کہا کہ ان کا کام یہ تھا کہ وہ بابری مسجد کے انہدام میں ملوث مجرموں اور اس انہدام پر منتج ہونے والے واقعات کی تحقیق کریں۔ انھوں نے کہا کہ عوام کے مذہبی جذبات ہوسکتے ہیں لیکن اس کارروائی میں ملوث سیاست دانوں کا مقصد صرف ووٹ بٹورنا تھا۔
انھوں نے کہا کہ "بابری مسجد کا انہدام بی جے پی کی سیاسی زندگی کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔”
انہدام روکنے کے لیے کوئی احتیاطی اقدامات نہیں کیے گئے
جسٹس لبرہن نے بتایا کہ مسجد کا انہدام روکنے کے لیے نہ تو کسی قسم کے حفاظتی اقدامات کیے اور نہ فرقہ ورانہ منافرت کو روکنے کی تدابیر کی گئیں۔
لبرہن رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انہدام کے وقت ایودھیا میں جائے واردات پر آر ایس ایس، بجرنگ دل، بی جے پی، شیو سینا کے کیڈر موجود تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "انھوں نے یا تو خود انہدام کی کارروائی میں حصہ لیا یا پھر غیر فعال طور پر اس کی حمایت کی۔”
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انہدام کے دوران جائے واردات پر پرچارکوں، سادھوؤں، کار سیوکوں، پولیس افسروں اور میڈیا کی بڑی تعداد موجود تھی۔انھوں نے کہا : ” اس عمل میں تمام کارروائیاں سیاسی قوت حاصل کرنے اور سیاسی طور پر مطلوب نتائج حاصل کرنے کی خاطر ہورہی تھیں۔”