’بابری مسجد غلامی کی علامت تھی‘
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے ایک بار پھر شر پسندوں کے ذریعہ بابری مسجد کے غیر قانونی انہدام کو جائز قرار دیا
نئی دہلی ،15جنوری :۔
ایودھیا میں 22 جنوری کو رام مندر کے افتتاحی تقریب کی تیاریوں کے درمیان بابری مسجد ایک بار پھر بحث میں ہے ۔ اور جب بھی رام مندر کا ذکر آئے گا وہاں شدت پسندوں کے ذریعہ منہدم کئے گئے بابری مسجدکا ذکر یقینی ہے ۔رام مندر کی تاریخ بابری مسجد کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔دریں اثنا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی بابری مسجد کا ذکر کیا ہے ۔ اتوار کوہریانہ کے جند میں ایک پروگرام میں شرکت کےلئے پہنچے بھاگوت نے کہا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے ساتھ ایک دیرینہ خواب اب پورا ہو رہا ہے جب کہ مسمار کی گئی بابری مسجد کو انہوں نے’غلامی کی علامت’ قرار دیا ۔
6دسمبر 1992 میں "کار سیوکوں” کے ذریعہ منہدم کئے گئے بابری مسجد کے کرائم اور غیر قانونی عمل کو انہوں نے بڑی بے باکی سے جائز قرار دیا اور کہا”ایودھیا میں غلامی کی علامت کو منہدم کر دیا گیا تھا لیکن وہاں کسی دوسری مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ کار سیوکوں نے کہیں بھی ہنگامہ نہیں کیا۔
آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے پیرو کاروں سے خطاب کرتے ہوئے انہیں مزید ایسی غیر قانونی سر گرمیوں پر توجہ دینے اور اپنے مقصد حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ، ’’مندر کا تعمیر ہونا خوشی کی بات ہے۔ لیکن ابھی بہت کام کرنا باقی ہے اور اس بات کو ذہن میں رکھنا ہو گا کہ جس جدوجہد کی وجہ سے یہ خواب پورا ہو رہا ہے وہ مستقبل میں بھی جاری رہے تاکہ منزل حاصل ہو سکے۔
سماج کو منظم اور متحد کرنے کے لیے زیادہ تیزی سے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، بھاگوت نے کہا کہ جب پوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوگی، تو وہ دنیا کی تمام برائیوں کو دور کرنے اور ‘وشو گرو’ بننے کے قابل ہو جائے گی۔
بھاگوت نے کہا کہ دنیا کی زیادہ تر ثقافتیں وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئیں لیکن ہندو ثقافت نے ہر طرح کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی شناخت برقرار رکھی ہے۔انہوں نے کہا، "اتنی زبانیں، متنوع مذاہب ہونے کے باوجود، ہندوستان میں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ہر شخص کا ماننا ہے کہ ہمیں اس طرح جینا ہے کہ دنیا اسے دیکھ کر جینا سیکھے۔