عالمی شہرت یافتہ ،بے باک شاعرمنور رانا کاانتقال

نئی دہلی ،15جنوری
جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہو جائیں گے ہم ۔اے زمیں ایک دن تیری خوراک ہو جائیں گے ہم
اردو دنیا کے معتبر،مقبول ، عالمی شہرت یافتہ اور قادر الکلام شاعر منور رانا کا 71سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔14جنوری کو دیر رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے دل کا دورہ پڑنے سے لکھنو میں ان کا انتقال ہوا ۔وہ گردے اور دل سے متعلق متعدد مسائل کے علاوہ گلے کے کینسر سے بھی متاثر تھے ۔لکھنو  کے سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس میںگزشتہ روز علاج کے لئے داخل کئے گئے تھے لیکن جانبر نہ ہو سکے ۔منور رانا کے انتقال سے عالمی پیمانے پر اردو دنیا میں سوگ کی لہر دوڑ گئی ہے ۔
منور رانا عصر حاضر میں اردو ادب اور شعر و شاعری کی دنیا میں استاد شاعر کے طور پر اپنی منفرد شناخت رکھتے تھے ۔ان کے انتقال سے مشاعروں کے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ایک ایسے دور میں جب اردو مشاعروں میں غیر معیار ی شاعری اپنی جگہ بنا رہی ہے ایسے دور میں منور رانا تعمیر ی اور اخلاقی شاعری کے ترجمان اور استاد کا درجہ رکھتے تھے ۔ان کی شاعری ہماری مشرقی تہذیب اور ثقافت کی آئینہ دار ہے۔
منور رانا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اردو غزل کو عشق و عاشقی کے گلیاروں سے نکال کر ،معشوقہ کے زلفوں کی خم و پیچ سے آزاد کر کے ماں جیسی عظیم اور مقدس ہستی کے قدموں میں لا کر پاکیزہ جذبات سے جوڑ دیا۔ ماں کے تعلق سے ان کے بعض اشعار ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئے۔
ماں کے تعلق سے منور رانا کے اشعار جنہوں نے ہر عمر اور مذہب کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
اس کے علاوہ منور رانا کی طویل نظم مہاجر نامہ کافی مقبول ہوئی ، بلکہ نظم کے بعض شعر اس قدر مقبول ہو ئے جوہر خاص و عام کی زبان زد ہو گئے ۔ اکثر مشاعروں میں اسے سامعین بڑے شوق سے سماعت کرتے۔اس کے بعض اشعار
مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں
نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں
پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں
عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں

ان میں حق گوئی اور بے باکی کا بھی وافر جذبہ موجودتھا۔وہ وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے والے شاعروں میں سے نہیں تھے۔ ان کی رحلت سے اردو دنیا نے یقیناایک سچا اور مخلص خادم کھو دیاہے۔
منور رانا 26 نومبر 1952ء کو اتر پردیش کے شہر رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان تقسیم ہند کے وقت پاکستان ہجرت کر گیا۔ لیکن ان کے والد صاحب، ہندوستان سے اٹوٹ محبت کی وجہ سے ہندوستان ہی کو اپنا مسکن بنا لیا۔ بعد میں ان کا خاندان کلکتہ منتقل ہو گیا۔ یہیں پر منور رانا کی ابتدائی تعلیم ہوئی۔ منور رانا نے اپنے کلام میں روایتی ہندی اور اودھی زبان کو بخوبی استعمال کیا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں کافی شہرت اور مقام ملا۔ ان کی غزلوں میں شوخی کم اور حقیقت پسندی زیادہ پائی جاتی ہے۔
ان کی تخلیقات میں نیم کے پھول (1993ء )کہو ظل الہیٰ سے (2000ء)بغیرنقشے کا مکان (2001ء )سفید جنگلی کبوتر (2005ء )،شہدابہ وغیرہ شامل ہیں۔اردو ادب اور شاعری میں ان کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں درجنوں ایوارڈ اور اعزازات سے انہیں نوازا گیا ۔ ان کی شاعری کی معروف کتاب ‘شہدابہ’ کے لیے 2014 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سمیت متعدد ایوارڈ ملے ۔ دیگر اعزازات میں امیر خسرو ایوارڈ، میر تقی میر ایوارڈ، غالب ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ، اور سرسوتی سماج ایوارڈوغیرہ سمیت درجنوں ایوارڈ شامل ہیں۔ ان کی تخلیقات کا متعدد زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
حالیہ برسوں میں منور رانا اپنے بے باک بیانات اور جرات مندانہ اظہار خیال کی وجہ سے سرخیوں میں رہے ،ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے ماحول میں انہوں نے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ بھی واپس کر دیا تھا۔خاص طور پر یوپی کی سیاست میں ان کے بیانات مین اسٹریم میڈیا میں جگہ بنتے تھے اور بحثیں ہوتی تھیں۔