ایودھیا کے بعد ہریدوار کے دُوار بھی بند !

رام کو لانے کے دعویداروں کو بھارت کے عوام نے رد کردیا

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

نفرت اور تعصب کی سیاست کا نشہ نہ صرف اترپردیش بلکہ دیش بھر میں اترگیا
انتخابات سے قبل بی جے پی نے ایک نہایت پرفریب نعرہ لگایا تھا ’جو رام کو لائے ہیں ،ہم ان کو لائیں گے‘۔ ایودھیا کے پارلیمانی حلقہ میں شکست کے بعد پتہ چلا کہ عوام نے بی جے پی کا ہی رام نام ستیہ کردیا ہے۔ اس کے بعد ہریدوار اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں ہار کے بعد بھگوائیوں پر ہری کا دوار(دروازہ) بھی بند ہوگیا۔ اب تو یہ نعرہ لگ رہا ہے کہ ’ایودھیا اور ہری دوار تو جھانکی ہے ، کاشی متھرا باقی ہے‘ یعنی اگلی بار ان دو نشستوں پر بھی کنول مرجھا جائے گا ۔ان انتخابی نتائج سے بی جے پی اور آر ایس ایس کی نیندکا اڑنافطری بات ہے کیونکہ ہریانہ، جھارکھنڈ اور مہاراشٹرکے انتخابات سر پر کھڑے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہریانہ اور مہاراشٹر میں کراری ہار کے باوجود آر ایس ایس اس خوش فہمی میں مبتلا ہےکہ وہاں اس کی نیاّ پار لگ جائے گی اس لیے اس نے کل ہند ریاستی پرچارکوں کا اجتماع بتاریخ 12 سے 14 جولائی رانچی میں رکھا۔ آر ایس ایس کے ملک میں جملہ 46 تنظیمی حلقے ہیں۔ اس اجلاس میں منصوبے کا جائزہ، عمل آوری اور آنے والے سال کی منصوبہ بندی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سنگھ پریوار کو جھوٹ پھیلانے میں زبردست مہارت حاصل ہے مگر اس کی کامیابی کا اصل راز سچ بتانے والوں کا غیر مؤثر ہونا ہوتا تھا ۔ ماضی میں بی جے پی کی آئی ٹی سیل یا سنگھ کے حامیوں کی جانب سے جو افواہ اڑائی جاتی اسے سارے لوگ سچ مان لیتے تھے کیونکہ کوئی تردید کرنے والا نہیں ہوتا تھا ۔ وقت کے ساتھ حالات بدلے تو ایک طرف زبیر احمد جیسے لوگوں نے بھگوا جھوٹ کی دھجیاں اڑانے کا کام شروع کردیا ۔دوسری جانب دھرو راٹھی اور رویش کمار جیسے کئی یو ٹیوبروں نے سنگھ کے بخیے ادھیڑ دیے۔ فی الحال کانگریس کا آئی ٹی سیل بی جے پی سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ اس پریشانی کا اظہار موہن بھاگوت اپنی اس مشہور تقریر میں کرچکے ہیں جس میں بلا واسطہ مودی کو گھمنڈی کہا گیا تھا ۔ رانچی کے اجلاس میں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والےسچ کو غلط پروپیگنڈا قرار دےکر اس بیانیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی جائےگی ۔ ذرائع ابلاغ میں سچ کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی گراں قدر خدمات کا سنگھ کی جانب سے یہ اعتراف ہے۔
رانچی میں منعقد ہونے والی آر ایس ایس کی نشست میں جب جائزے کا باب کھلا تو سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت، جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسابلے، قومی مجلسِ عاملہ کے ارکان اور تمام ریاستی پرچارکوں کی گفتگو کا مرکزی موضوع اترپردیش کی کراری ہار رہا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق سنگھ کے سینئر عہدیدار بدلے ہوئے سیاسی تناظر میں یوپی میں سنگھ کا کردار طے کر کے حکمت عملی وضع کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اس نشست کے بعد سنگھ نے یوپی میں اپنی تنظیم میں بھی کچھ اہم تبدیلیاں کی ہوں گی جن پر اعلان کیے بغیر خاموشی سے عمل در آمد ہوگا۔ لوک سبھا انتخابات میں سنگھ کی عدم فعالیت کا معاملہ سیاسی حلقوں میں زیر بحث رہا ہے اس لیے اب سنگھ اور حکومت کے درمیان تال میل بڑھانے کے طریقوں پرغور و خوض ہوا ہوگا تاکہ اس کی روشنی میں یوپی پر خصوصی توجہ دے کر سنگھ کی آئندہ دو سال کی سرگرمیوں کا روڈ میپ تیار کیا جا سکے۔ یہ عجیب صورتحال ہے کہ سنگھ پریوار اپنی بگڑی ہوئی اولاد کی حالتِ زار سے پریشان ہے مگر بی جے پی کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ آر ایس ایس کی حمایت کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتی ہے کہ اس کو سنگھ کی سرپرستی درکار نہیں ہے۔
قومی انتخابات میں شکست کے بعد اترپردیش بی جے پی یونٹ نےبھی 14جولائی کو ہی لکھنؤ میں پہلی میٹنگ میں اپنی شکست کا جائزہ لیا۔ اس میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ اعتراف تو کیا کہ ’بے جا خود اعتمادی‘نے اس سال کے انتخابات میں بی جے پی کو نقصان پہنچایا مگر پھر اس کی اوٹ پٹانگ توجیہ کرنے لگے ۔ بی جے پی اتر پردیش کی مجلسِ عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے، آدتیہ ناتھ نے کہا کہ بی جے پی پچھلے انتخابات میں اپنا ووٹ شیئر برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی، لیکن وہاں ووٹوں کی منتقلی ہوئی اور اب اپوزیشن ایک بار پھر شکست کھا رہی ہے۔ اسی طرح کی خوش فہمی یوگی جیسے لیڈروں سمیت بی جے پی ارکان کو بے جا خود اعتمادی کے نشے میں غرق رکھتی ہے۔ ان لوگوں پر ایک دن پہلے سات ریاستوں میں گیارہ اسمبلی سیٹوں میں سے نو پر نا کامی کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا اس لیے کہ یہ لوگ مونگیری لال کے حسین سپنوں میں کھوئے ہوئے رہتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ کا یہ مضحکہ خیز بیان دیکھیں کہ "پی ایم مودی کی قیادت میں ہم نے یوپی میں اپوزیشن پر مسلسل دباؤ برقرار رکھا تھا، 2014، 2017، 2019 اور 2022 (قومی اور ریاستی انتخابات) میں زبردست کامیابی حاصل کی تھی حالانکہ سچائی یہ ہے 2017 کے مقابلے میں 2022 میں بی جے پی کی 55 نشستیں کم ہوگئیں اور 2019 کے مقابلے میں بی جے پی 62 سے گھٹ کر 33 پر آگئی۔ اس شرمناک شکست کے بعد بھی اگر کسی کی اکڑ نہیں گئی تو اس کا علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں ’’اپوزیشن جو پہلے ہار مان چکی تھی، آج پھر سے اچھل رہی ہے ‘‘ سچائی یہ ہے کہ حزب اختلاف نے کبھی بھی ہار نہیں مانی تھی اس لیے وہ لڑتی رہی اس کے برعکس بی جے پی والے قبل از وقت اپنی جیت مان کر اوندھے منہ اندھےکنوئیں میں جاگرے اس کے باوجود ٹانگ اونچی کی روش قائم ہیں۔شاید اسی کو کہتے ہیں کہ رسی تو جل گئی مگر بل نہیں گئے۔ وہ تو مغربی یوپی میں آر ایل ڈی کے ساتھ آنے سے عزت بچ گئی ورنہ بی جے پی کہیں منہ دکھانے لائق نہیں رہتی ۔
وزیر اعلیٰ یوگی ادیتہ ناتھ کا فی الحال اتنا برا حال ہے کہ اپنا دَل اور نشاد پارٹی جیسےحلیف بھی آنکھیں دکھا نے لگی ہیں۔ بی جے پی کے مختلف گوشوں سے یوپی میں شکست کا ذمہ دار انہیں ٹھیرایا جا رہا ہے اور درمیان میں استعفیٰ طلب کیے جانے کی افواہیں بھی گردش کرنے لگی تھیں۔ اتر پردیش کے اندر بی جے پی رکن اسمبلی رمیش مشرا نے ویڈیو میں صاف کہا ہے کہ بی جے پی کی حالت بہت خراب ہے اور 2027 میں وہ اقتدار میں نہیں آسکتی ۔ انہوں نے اس درگت کو سدھارنے کی خاطر مرکزی مداخلت طلب کی ہے۔ واضح طور پریہ یوگی ادیتہ ناتھ کی قیادت پر عدم اطمینان کا اظہار ہے لیکن اس حقیقت کو دیکھنے سے قاصر مغرور وزیر اعلی شتر مرغ کی مانند اپنا منہ ریت میں چھپائے ہوئے ہے۔ رمیش مشرا کے بعد بی جے پی کے سابق کابینی وزیر موتی سنگھ کا بیان وائرل ہوگیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ اپنے بیالس سالہ سیاسی زندگی میں انہوں نے کبھی ایسی بدعنوانی نہیں دیکھی ۔تھانوں اور تحصیلوں میں ایسی بدعنوانی نہ سوچ سکتے تھے نہ دیکھ سکتے تھے اور واقعی یہ تصورِ خیال سے پرے ہے۔ یوگی ادیتہ ناتھ نے سوچا تھا کہ نفرت کی شراب کا نشہ اس بدعنوانی کو نظروں سے اوجھل کردے گا مگر عوام نے ان کے ہوش اڑا دیے۔
اترپردیش میں نچلی سطح پر بدعنوانی کا لاوا آتش فشاں کے اوپری دہانے سے آیا ہے ۔ سرکاری افسروں نے جب دیکھا کہ پورے صوبے میں رام کے نام کی لوٹ مچی ہوئی ہے تو وہ خود بھی رشوت خوری کی گنگا میں مادر پدرآزاد برہنہ ہوکر ڈبکی لگانے لگے۔ انڈین ایکسپریس نے ایک تفتیشی جائزے میں یہ انکشاف کیا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے دوران بڑے پیمانے پر بااثر لوگوں نے آس پاس کے علاقوں میں نجی غیر منقولہ جائیدادیں بنائیں۔ ان باہری لوگوں نے چونکہ سستے سرکل ریٹ پر مہنگی زمین خریدی اس لیے یہ گھوٹالاہے۔ بابری مسجد کے متعلق ناعاقبت اندیش فیصلے کے فوراً بعد مارچ 2024 تک ایودھیا اور اس کے ارد گرد اراضی کی رجسٹری کی چھان بین سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم پچیس گاوؤں میں زمینات کے کاروبار میں تیس فیصد اضافہ ہوا۔ ان میں سے بہت سے زمین کے سودوں میں بڑے گھرانوں نیز مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دان، سرکاری عہدیدار اور بڑے صنعت کارملوث ہیں ۔
مودی کے چہیتے اڈانی گروپ نے 3.55 کروڑ روپے کی ’زرعی‘ زمین خریدی۔ممبئی میں بی جے پی کے سابق صدر منگل پربھات کےبیٹے نے تقریباً 105 کروڑ روپے کی زمین خریدی۔ منگل پرساد کے والد بھی بی جے پی رکن پارلیمنٹ تھے۔ اروناچل پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ چونا مین کے بیٹے چو کان سینگ مین کے علاوہ بی جے پی کے سابق ایم پی برج بھوشن سنگھ کے بیٹے ایم پی کرن بھوشن نے 1.15 کروڑ روپے میں زمین خریدی تھی۔ اس کا ایک حصہ انہوں نے 60.96 لاکھ روپے میں فروخت بھی کردیا۔سرمایہ داروں کے علاوہ پولیس افسروں کی بھی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے سستے داموں زمین پر ہاتھ مارا اور کچھ نے اسے فروخت بھی کردیا۔رام کے نام کے یہ لٹیرے کس منہ سے اپنے ماتحت کام کرنے والوں کو رشوت لینے سے روک سکتے ہیں؟ وزیر اعلیٰ یوگی ادیتہ ناتھ کو چاہیے کہ پہلے بدعنوانی اور اس طرح کے بنیادی مسائل کی جانب توجہ دیں ۔
یوگی کو ماننا پڑے گا کہ ان کا 80 اور 20 والا فارمولا پوری طرح فیل ہوچکا ہے۔پولیس کی حراست میں عتیق احمد اور مختار انصاری کو قتل کرنے کی بزدلی سے لوگ نفرت کرنے لگے ہیں ۔ جن مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر وہ گھر میں بٹھانا چاہتےتھے انہوں نے سائیکل پر چڑھ کر ان کے بلڈوزر کو روند دیا ہے۔ دلتوں نے بھی بھگوا ہاتھی سے نیچے اتر کر کانگریس کا ہاتھ تھام لیا ہے ۔ اس حقیقت کو یوگی جتنی جلدی تسلیم کرلیں اس میں ان کی بھلائی ہے۔ آر ایس ایس دلتوں کے اندر پائے جانے والے اندیشوں کی جانب توجہ دلا چکی ہے مگر یوگی کی عقل ٹھکانے نہیں آرہی ہے ۔ بی جے پی یوپی کے ریاستی صدر بھوپیندر چودھری نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اکھلیش کو عجیب و غریب مشورہ دےکر ساری دنیا کو چونکا دیا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بی جے پی کے سارے لیڈروں کے اعصاب پر فی الحال کانگریس سوار ہے۔ مودی ایوان میں صدارتی خطبے کو بھول کر کانگریس کے پیچھے پڑگئے اور اس پر اتنا وقت صرف کیا کہ کسی کانگریسی نے نہیں کیا ہوگا۔
اترپردیش میں بی جے پی کے دو دشمن اکھلیش یادو اور مسلمان ہیں۔ اس دشمنی کے باوجود بھوپیندر چودھری نے اکھلیش کو خبردار کیا کہ کانگریس حمایت سے جیتتی ہے لیکن وہ بھول گئے کہ ایسا تو بی جے پی بھی کرتی ہے۔ اسی لیے اس نے این ڈی اے بنارکھی ہے اور خود یوپی میں اس کے اندر اپنا دَل، ایس بی ایس پی، نشاد پارٹی اور آر ایل ڈی شامل ہیں ۔ یہ کام دوسروں کے بھلے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے فائدے کے لیے کیا گیا ہے۔ بھوپیندر سنگھ نے کہا کانگریس نے کبھی کسی کا بھلا نہیں کیا۔ یہ بات اگر درست ہوتب بھی بی جے پی نے اپنی حلیف شیوسینا کے ساتھ کیا کیا؟ تروپتی پاسوان اور نوین پٹنایک کو کیسی پٹخنی دی؟ بھوپیندرچودھری نے یہ بھی کہا کہ کانگریس کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہے۔ یہ الزام صحیح ہے تو انہیں بتانا چاہیے کہ بی جے پی کانگریسیوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے ٹکٹ کیوں دیتی ہے؟ بھوپیندر سنگھ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بابا صاحب نے کانگریس کو کبھی کچھ نہیں سمجھا۔یہ بات اگر درست ہے تو وہ بتائیں کہ بابا صاحب کو وزیر قانون بناکر آئین ساز کمیٹی کا سربراہ کس نے بنایا؟
بھوپیندر سنگھ کے مطابق کانگریس ایک موروثی پارٹی ہے ایسے میں انہیں بتانا چاہیے کہ بی جے پی نے بانسری سوراج اور اشوک چوہان جیسے کتنے لوگوں کو رکن پارلیمنٹ بنایا ہے۔ کانگریس پر لوہیا کو اپنا آئیڈیل نہ ماننے والوں کو یہ بتانا چاہیے کہ کیا گولوالکر اور مسولینی سنگھ کے آقا نہیں ہیں؟ اکھلیش یادو کا نام لےکر بھوپیندر چودھری نے کہا، ‘اکھلیش جی، میں آپ کو خبردار کر رہا ہوں، ہوشیار رہیں۔ کانگریس پارٹی کی نظر آپ کے ووٹ بینک پر ہے، یہ بھسماسر ہے اور اس کی نظر آپ کے مسلم ووٹ بینک پر ہے۔سوال یہ ہے کہ مسلم ووٹ سے یوگی پہلے ہی دستبردار ہوچکے ہیں ایسے میں وہ سماجوادی کے ساتھ رہے یا کانگریس کے پاس چلا جائے اس سے بی جے پی کو کیا فرق پڑتا ہے؟ بھوپیندرچودھری کو اصل پریشانی اس بات سے ہے کہ وہ خود تو کسی کو اپنے ساتھ نہیں لاسکے مگر کانگریس برہمنوں اور دلتوں کو اکھلیش کے ساتھ لے کر جارہی ہے جو راست بی جے پی کا نقصان ہے۔
ایودھیا میں بی جے پی کی شکست چراغ تلے اندھیرے کی علامت ہے۔ اس نے ظاہر کردیا کہ آدھے ادھورے مندر کا بڑے تام جھام سے افتتاح نہ تو بی جے پی کا بیڑہ پار کرسکا اور نہ مقامی سطح پر کام آسکا۔ مندر مسجد کی گھناؤنی سیاست کا غبارہ اپنی انتہا پر پہنچ کر پھوٹ گیا ۔ اس نے نہ صرف ایودھیا بلکہ سنٹرل یو پی یعنی اودھ میں بھی بی جے پی کی کمر توڑ دی۔ اس علاقہ میں کل بیس نشستیں ہیں۔ ان میں سے صرف نو بی جے پی کے حصے میں آئیں جبکہ سماجوادی اور کانگریس نے بالترتیب سات اور چار پر کامیابی حاصل کرکے اپنی برتری ثابت کردی ۔ ان میں رائے بریلی، امیٹھی ، سلطان پور اور لکھنو بہت اہمیت کی حامل نشستیں سمجھی جاتی تھیں ۔ رائے بریلی میں تو خیر راہل گاندھی نے زبردست کامیابی حاصل کی مگر امیٹھی اور سلطان پور سے بھی بی جے پی کی سمرتی ایرانی اور مینکا گاندھی ہار گئیں۔ لکھنو سے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کی جیت کا فرق ساڑھے تین لاکھ سے گھٹ کر ڈیڑھ لاکھ پر آگیا ۔ ایودھیا کے قرب و جوار کے رائے دہندگان نے بدعنوانی کی ٹپکتی ہوئی چھت میں رام کو براجمان کرنے کی سزا بی جے پی کو دے دی اور اسے بتا دیا کہ ’نہ تم رام کو لائے ہو نہ ہم تم کو لائیں گے‘۔

 

***

 ایودھیا میں بی جے پی کی شکست چراغ تلے اندھیرے کی علامت ہے۔ اس نے ظاہر کردیا کہ آدھے ادھورے مندر کا بڑے تام جھام سے افتتاح نہ تو ملک بھر میں بی جے پی کا بیڑہ پار کرسکا اور نہ مقامی سطح پر کام آسکا ۔ مندر مسجد کی گھناؤنی سیاست کا غبارہ اپنی انتہا پر پہنچ کر پھوٹ گیا ۔ اس نے نہ صرف ایودھیا بلکہ وسطی اترپردیش یعنی اودھ میں بھی بی جے پی کی کمر توڑ دی ۔ اس علاقہ میں کل 20 نشستیں ہیں۔ ان میں سے صرف 9؍ بی جے پی کے حصے میں آئیں جبکہ سماجوادی اور کانگریس نے بالترتیب 7 اور4 پر کامیابی حاصل کرکے اپنی برتری ثابت کردی ۔ ان میں رائے بریلی، امیٹھی ، سلطانپور اور لکھنو بہت اہمیت کی حامل نشستیں سمجھی جاتی تھیں ۔ رائے بریلی میں تو خیر راہل گاندھی نے زبردست کامیابی حاصل کی مگر امیٹھی اور سلطانپور سے بھی بی جے پی کی سمرتی ایرانی اور مینکا گاندھی ہار گئیں ۔ لکھنو سے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کی جیت کا فرق ساڑھے تین لاکھ سے گھٹ کر ڈیڑھ لاکھ پر آگیا ۔ ایودھیا کے قرب و جوار کے رائے دہندگان نے بدعنوانی ٹپکتی چھت میں رام کو براجمان کرنے کی سزا بی جے پی کو دے دی اور اسے بتا دیا کہ ’نہ تم رام کو لائے ہو ،نہ ہم تم کو لائیں گے‘۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جولائی تا 27 جولائی 2024