این پی آر کا بائیکاٹ کریں، سماجی رہنماؤں کی شہریوں سے اپیل
نئی دہلی، مارچ 18- سول سوسائٹی کے 40 کے قریب نامور چہروں، جن میں ججز، انسانی حقوق کے کارکنان، صحافی، ماہرین تعلیم اور علما شامل ہیں، نے ملک کے شہریوں سے مشترکہ اپیل کی ہے کہ وہ قومی آبادی کے رجسٹر (این پی آر) کے عمل کا بائیکاٹ کریں، جسے مرکزی حکومت نے یکم اپریل سے ملک بھر میں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
این پی آر، شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’یہ تفرقہ انگیز، امتیازی سلوک پر مبنی، ہندوستانی آئین کے خط اور روح کے خلاف اور ہماری آزادی کی جدوجہد اور تہذیبی اقدار کے اخلاق کے منافی ہیں۔‘‘
ہرش مندر، یوگیندر یادو، یشونت سنہا، سید سعادت اللہ حسینی، مولانا محمود مدنی، سندیپ پانڈے اور جسٹس کولسے پاٹل سمیت 50 کے لگ بھگ افراد کے ذریعے دستخط کردہ مشترکہ اپیل میں کہا گیا ہے ’’ہم پہلے ہی این پی آر کو مسترد کر چکے ہیں یا اس کے بائیکاٹ کی درخواست کرچکے ہیں، کیونکہ این پی آر اس نئی شہریت کی طرف پہلا قدم ہے۔ مزید یہ کہ ہم نے مردم شماری کے ساتھ این پی آر کے انضمام کی بھی مخالفت کی ہے کیونکہ اس سے مردم شماری کے تحت ذاتی، خفیہ اور اہم اعداد و شمار کو خطرہ لاحق ہے۔ مختلف ریاستی حکومتوں نے بھی اپنی اسمبلیوں میں قراردادیں منظور کی ہیں یا این پی آر کو اس کی موجودہ شکل میں نافذ کرنے کی مخالفت کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔‘‘
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے 12 مارچ کو راجیہ سبھا میں ایک بیان دیا تھا جس میں انھوں نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ کسی بھی شہری کو "مشکوک” درجہ میں رکھنے کے لیے این پی آر کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔
شاہ کے تبصرے کا خیرمقدم کرتے ہوئے سماجی رہنماؤں نے ان سے زبانی یقین دہانیوں کو یقینی بنانے کے لیے ان سے شہریت (شہریوں کی رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈ کے اجرا) رولز 2003 میں ترمیم کرنے کی اپیل کی ہے۔
انھوں نے کہا ’’ہم محترم وزیر داخلہ کے بیان کے جذبے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اب مرکزی حکومت کی جانب سے شہریت (شہریوں کی رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈ کے اجرا) کے قواعد 2003، میں ترمیم کرتے ہوئے اس بیان کو قانونی حیثیت دینے اور باقاعدہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس طرح کی ترمیم 2003 کے مذکورہ بالا قواعد میں این پی آر سے متعلق کسی بھی حوالہ کو ہٹا سکتی ہے۔ متبادل کے طور پر حکومت قاعدہ 3 (5)، 4 (3)، 4 (4) کو حذف کرسکتی ہے جس سے شہریوں کو مشکوک شناخت کرنے کے لیے این پی آر کو استعمال کرنے کی اجازت مل سکتی ہے اور این آر آئی سی سے ان کو حذف کیا جاسکتا ہے۔ حکومت ضابطہ 7 (2) اور 17 میں بھی مناسب ترمیم کر سکتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ این پی آر میں معلومات فراہم کرنا رضاکارانہ ہے اور معلومات فراہم کرنے میں ناکامی پر کسی کو بھی سزا نہیں دی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ ان ترامیم سے وزیر داخلہ کے ایوان میں دیے گئے بیان پر یقین ہوگا اور این پی آر کے بارے میں وسیع پیمانے پر خدشات کو بحال کیا جاسکے گا۔‘‘
انھوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ جیسے ہی مرکزی حکومت متعلقہ قوانین میں مذکورہ بالا ترامیم پر عمل درآمد کرتی ہے تو وہ بائیکاٹ کی کال واپس لے لیں گے۔
انھوں نے مزید کہا ’’سی اے اے اور این آر سی اور مکمل امتیازی سلوک والی شہریت کے خلاف تحریک پرامن، عدم تشدد اور جمہوری انداز میں جاری رہے گی۔‘‘
اپیل پر دستخط کرنے والوں میں روی نائر (CAA-NRC-NPR کے خلاف اتحاد کے کنوینر)، یشونت سنہا، مولانا توقیر رضا (قائد اور صدر اتحاد ملت کونسل)، یوگیندر یادو (سوراج ابھیان)، مولانا محمود مدنی (رہ نما اور سیکرٹری جمیعت علماے ہند)، ہرش مندر (امن برادری)، انجینئر سید سعادت اللہ حسینی (صدر جماعت اسلامی ہند)، سندیپ پانڈے (لکھنؤ)، مولانا اصغر امام سلفی (صدر مرکزی جمعیت اہلحدیث)، نکھل ڈے (جے پور)، مولانا ولی رحمانی (امیر امارت شرعیہ بہار/ اڈیسہ)، پروفیسر رتن لال (پروفیسر ڈی یو)، ڈاکٹر ظفر الاسلام خان (چیئرمین، دہلی اقلیتی کمیشن)، پرشانت ٹنڈن (صحافی ٹی او آئی)، مولانا پیر تنویر ہاشمی (سجادہ نشین خانقاہ ہاشمیہ، بیجاپور)، پروفیسر اپوروانند (پروفیسر ڈی یو)، ڈاکٹر منظور عالم (جنرل سیکرٹری ملی کونسل)، امبریش رائے (کارکن، آر ٹی ای)، مسٹر نوید حامد (صدر اے آئی ایم ایم ایم)، جسٹس کولسے پاٹل (سابق جج، بمبئی ہائی کورٹ)، مولانا محسن تقوی (امام شیعہ جامع مسجد، نئی دہلی)، جسٹس چندر کمار (سابق جج اے پی ہائی کورٹ)، ڈاکٹر مفتی مکرم (شاہی امام مسجد فتح پوری)، ڈاکٹر نریندر نگروال (پروفیسر ڈی یو)، مولانا سجاد نعمانی (سجادہ نشین خانقاہ نعمانیہ)، راگھون سری نواسن (لوک راج سنگٹھن)، مولانا شبیر احمد ندوی (بنگلور)، اشوک ورما (رانچی)، کمال فاروقی (سابق چیئرمین دہلی اقلیتی کمیشن)، ایڈووکیٹ ایوِک ساہا (کولکاتا)، مولانا نیاز فاروقی (سیکریٹری جے یو ایچ)، لبید شفی (قومی صدر ایس آئی او)، ڈاکٹر ظفر محمود (کنوینر وطن کی فکر)، پروفیسر انجینئر محمد سلیم (جی ایس. ایف ڈی سی اے)، حافظ سید اطہر علی (ناظم مدرسہ محمدیہ ممبئی)، عمر خالد (نوجوان رہنما)، ندیم خان (یو اے اے)، ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی (لکھنؤ)، مسٹر ایم ایم خان (جنرل سیکٹر اے پی سی آر)، فرح نقوی (کارکن اور سابق ممبر این آئی سی)، مولانا سیف عباس رضوی (شیعہ عالم دین اور قائد)، رحمت النسا (سیکریٹری جے آئی ایچ) اور مجتبیٰ فاروق (سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اتحاد کے شریک کنوینر) شامل تھے۔