این آر سی کے بہانے لوگوں کو اپنے ہی ملک میں پناہ گزین بنانے کی سازش: کنہیا کمار
’’نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کا مقصد دراندازوں کی پہچان کرنا نہیں بلکہ شہریوں کو اپنے ہی ملک میں پناہ گزیں بنانا ہے۔ جس طرح کالا دھن ختم کرنے کے نام پر مودی حکومت نے راتوں رات نوٹ بندی کا اعلان کر کے عام لوگوں کو اپنا ہی پیسہ نکالنے کے لیے لائن میں لگنے کو مجبور کر دیا تھا، ٹھیک ویسے ہی این آر سی کے بہانے شہریوں کو اپنی ہی پہچان ثابت کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ دراصل این آر سی کے بہانے ملک کے شہریوں کو ملک کے اندر ہی پناہ گزیں بنانے کی سازش تیار کی جا رہی ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے جے این یو طلبا یونین کے سابق صدر اور سی پی آئی لیڈر کنہیا کمار کا۔
این آر سی کے معاملے پر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ پر تلخ حملہ کرتے ہوئے کنہیا کمار نے کہا کہ اصل میں مودی حکومت شہریت کے ایشو کو بھی فرقہ پرستی اور مذہب کے چشمے سے طے کرنا چاہتی ہے۔ یہ پوری طرح آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ’قومی آواز‘ کے نمائندہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کنہیا نے کہا کہ مودی حکومت کی سوچ ہر ایشو کو ہندو-مسلمان میں بانٹ دینے کی ہے تاکہ اپوزیشن کو خاموش کیا جا سکے۔ کشمیر اور رام مندر کے ایشو پر انھوں نے اسی پالیسی کا سہارا لیا۔ اب ایک بار پھر این آر سی کے بہانے سےحکومت اصل ایشو سے عوام کا اور میڈیا کا دھیان ہٹانا چاہتی ہے۔
بیگوسرائے سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے ’قومی آواز‘ کے نمائندہ سے کنہیا کمار کہتے ہیں کہ ’’اصل معنوں میں یہ پبلک سیکٹر کی منافع بخش کمپنیوں کو فروخت کرنے کا معاملہ ہے۔ سچائی یہ ہے کہ این آر سی کی وجہ سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سبھی مذہب کے لوگ پریشان ہیں۔ خاص طور سے شمال مشرقی ریاستوں میں، آسام میں اور مغربی بنگال میں بھی حالات کافی دشوار ہیں۔ شہریت ثابت کرنے والے دستاویز حاصل کرنے کے لیے لوگ رات دو بجے سے ہی لائن میں لگنے لگتے ہیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ کتنی بڑی پریشانی پیدا ہو رہی ہے۔‘‘
کنہیا کمار آگے کہتے ہیں کہ ’’این آر سی کی پوری بحث میں لوگ اس بات کو بھول رہے ہیں کہ اس کا ’تقسیم کی تاریخ‘ سے بھی لینا دینا ہے۔ تقسیم کے بعد اس ملک سے مسلمانوں کی ہجرت ہوئی تھی۔ مسلمان ملک سے باہر گئے تھے جب کہ غیر مسلم، مثلاً ہندو، سکھ، جین اور دوسرے مذاہب کے لوگ ہندوستان آئے تھے۔ تو یہ ایشو ہندو-مسلمان کا ہے ہی نہیں بلکہ آئین میں موجود شہری حقوق کا ہے۔‘‘
کنہیا کمار نے بات چیت کے دوران بتایا کہ این آ ر سی کی مخالفت میں کمیونسٹ پارٹیوں، عوامی تنظیموں کا گروپ ’پیپلز اگینسٹ این آر سی‘ تیار کیا گیا ہے جس کے بینر تلے ہزاروں لوگ دارجیلنگ سے لے کر کولکاتا تک پیدل مارچ نکال رہے ہیں۔ آئندہ مہینے کی 9 تاریخ کو کولکاتا میں این آر سی کی مخالفت میں ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا گیا ہے۔ این آر سی کی مخالفت میں منعقد کی گئی اس ریلی میں اپوزیشن کے کئی لیڈروں کے شامل ہونے کی امید ہے۔
کنہیا کمار کے مطابق این آر سی کے ایشو پر حکومت کو زبردست چیلنج دیا جا سکتا ہے اگر پورا اپوزیشن متحد ہو جائے، کیونکہ اس کی وجہ سے آسام میں ہندو بھی بڑی تعداد میں متاثر ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ بات غور کرنے لائق ہے کہ این آر سی کے ایشو پر خود بی جے پی کے اندر بھی اتفاق نہیں ہے۔ شمال مشرق میں بی جے پی کے بڑے لیڈران اور آسام کے وزیر مالیات ہیمنت بسوا شرما نے اپنی ہی حکومت کے ذریعہ کیے گئے این آر سی کو خارج کرتے ہوئے پورے عمل کو دوبارہ کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔