
ایران پر اسرائیل کا حملہ۔ صدر ٹرمپ کا دوغلا کردار یا اصل چہرہ؟
جاسوسوں نے ایران کی پشت لہولہان کر دی، عسکری و سائنسی قیادت کا خاتمہ
مسعود ابدالی
ایرانی میزائیلوں نے اسرائیل کے بہت سے علاقوں کو غزہ بنا دیا
سب سے بڑی تیل ریفائنری اور تحقیقاتی دانش گاہ تباہ
اسرائیل نے 13 جون کو صبح تین بجے ایران پر حملہ کر دیا۔ فوجی اعلامیے کے مطابق 200طیاروں نے ایران کے طول و عرض میں 100سے زیادہ مقامات کو نشانہ بنایا جن میں دارالحکومت تہران، اصفہان، شیراز، مشرقی آذربائجان اور نطنز شامل ہیں۔ نظنز میں مبینہ طور پر یورینیم افزودہ کرنے کی زیر زمین تنصیبات ہیں اس لیے وہاں بنکر بسٹر بم استعمال کیے گئے۔ شیراز بھی خاص نشانہ بنا کہ وہاں میزائیل بنانے کے کارخانے ہیں۔ حملے میں پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (IRGS)کے سربراہ میجر جنرل حسین سلام، فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری، کمانڈر خاتم الانبیا کمانڈ (جوائنٹ چیف آف اسٹاف) جنرل غلام علی رشید، رہبرِ ایران آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر سلامتی علی شمخانی، سینئر جوہری سائنس داں محمد مہدی تہرانچی، فریدون عباسی اور درجنوں دوسرے ماہرین جاں بحق ہوگئے۔
مغربی دنیا کو مسلم ممالک کی جوہری صلاحیتوں پر ہمیشہ ’تشویش‘ رہی ہے چنانچہ 7جون 1981کو اسرائیل نے عراق کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، جسے آپریشن بیبلیون (Babylon) کا نام دیا گیا۔ اسرائیل کے 15طیارے اردن اور سعودی عرب کی فضائی حدود سے گرز کر عراق پہنچے اور صرف چند منٹوں میں ری ایکٹر مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔
پاکستان کے مسلم بم کا بھی بہت شور تھا لیکن اسی دوران 11 مئی کو اس نے ایٹمی تجربہ کرلیا اور 28 مئی 1998 کو چھ کامیاب ایٹمی تجربات کرکے جوہری طاقت رکھنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا۔
اسی دوران لیبیا کے مسلم بم کا واویلا بلند ہوا۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے لیبیا پر اتنی سخت پابندیاں عائد کیں کہ 19دسمبر 2003کو کرنل معمر قذافی پابندیاں ہٹانے کے عوض تمام جوہری، کیمیاوی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کو ختم کر نے پر آمادہ ہوگئے۔ جس کے بعد لیبیا نے یورینیم افزودگی کا سامان، سینٹری فیوجز حتیٰ کہ جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن بھی امریکا کے حوالے کر دیے۔ یہیں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز ہوا۔ امریکی CIA اور برطانیہ کی M16 نے الزام لگایا کہ نام نہاد قدیر نیٹ ورک نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو یورینیم افزودگی کی ٹیکنالوجی اور جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن فراہم کیے تھے۔ اس بے بنیاد الزام کی بنیاد پر پرویز مشرف نے ڈاکٹر صاحب کو ٹیلی ویژن پر ڈانٹا اور توہین کی۔
جہاں تک ایران کے جوہری پروگرام کا تعلق ہے تو اس کا آغاز 1950میں Atoms for Peace کے نام سے امریکہ ایران مشترکہ منصوبے کے طور پر ہوا، لیکن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد جب امریکہ-ایران دوستی بدترین دشمنی میں تبدیل ہوگئی تو جوہری تعاون ختم کر دیا گیا۔ اس صدی کے آغاز پر ایران کے اسلامی بم کی بات شروع ہوئی اور 2003میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے IAEA نے انکشاف کیا کہ ایران، یورینیم کو جوہری ہتھیار بنانے کے معیار پر افزود کر رہا ہے۔ تہران نے اس کی سختی سے تردید لیکن 2006 میں اس پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ ستم ظریفی کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی روس اور چین نے ان انسانیت سوز پابندیوں کی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔
پابندیوں سے پریشان ہوکر ایران مذکرات پر راضی ہوا اور 2013میں بات چیت کے آغاز سے پہلے رہبر ایران نے فتویٰ جاری کیا کہ بڑے پیمانے پر انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہتھیار بنانا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے لہٰذا ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا۔ ان مذکرات میں سلامتی کونسل کے پانچوں ارکان کے ساتھ جرمنی بھی شامل تھا اسی لیے یہ P5+1 مذاکرات کے نام سے مشہور ہوا۔ دو سال کی بات چیت اور مول تول کے بعد اپریل 2015 کو Joint Comprehensive Plan of Action یا JCPOA کے عنوان سے معاہدہ طے پا گیا جسے فارسی میں برجام کہتے ہیں۔ فریق ممالک کی پارلیمنٹ سے توثیق کے بعد یہ معاہدہ 16 جنوری 2016 سے نافذ العمل ہوگیا۔ معاہدے کے مطابق ہر چھ ماہ بعد IAEA نے ایرانی تنصیبات کو تفصیلی معائنہ کیا اور ہر بار انسپکٹروں نے رپورٹ دی کہ ایران JCPOA پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ معائنہ کنندگان میں امریکی ماہرین بھی شامل تھے۔ اسرائیل کو یہ معاہدہ پسند نہیں تھا اور اس معاملے پر اپنے تحفظات بلکہ ناراضگی کا اظہار کرنے نیتن یاہو بنفس نفیس واشنگٹن آئے لیکن صدر اوباما نے کہا تھا کہ جس معاہدے کی کانگریس کے دونوں ایوانوں نے توثیق کی ہو اس کی پاسداری میرا آئینی فرض ہے۔
اپنی 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ نے JCPOA پر سخت تنقید کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ انتخاب جیت گئے تو معاہدہ ختم کر دیا جائے گا اور 8 مئی 2018 کو صدر ٹرمپ کے ایک حکم پر امریکہ اس معاہدے سے یک طرفہ طور پردست بردار ہوگیا۔ اسی کے ساتھ ایران پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے سے دو ماہ پہلے ہی انسپکٹروں نے تنصیبات کے تفصیلی جائزے کے بعد All is OK کی رپورٹ دی تھی۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو امریکی صدر وعدہ خلافی اور معاہدہ شکنی کے مرتکب ہوئے تھے لیکن باقی پانچ دستخط کنندگان صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تشویش اور افسوس سے آگے نہ بڑھے۔ امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے باوجود ایران معاہدے کی شرائط پوری کرتا رہا۔
اس سال 20جنوری کو حلف اٹھاتے ہی انہوں نے ایران پر جوہری پروگرام ختم کرنے کے لیے دباو ڈالنا شروع کیا اور خود کو امن پسند ثابت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ بات چیت کے کئی دور چلے۔ امریکہ کا اصرار تھا کہ ایران جوہری پروگرام بالکل ختم کردے جبکہ ایران نے موقف اختیار کیا کہ پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کا حصول اس کا حق ہے چنانچہ یورینیم افزودگی کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کر دی جائے۔ دوسری طرف نیتن یاہو ایرانی تنصیبات پر حملے کے لیے بے تاب تھے کہ وہ اس کے لیے دو سال سے تیاری کر رہے تھے۔ میڈیا کے سامنے صدر ٹرمپ بار بار یہی کہتے کہ معاملہ بات چیت سے حل ہو جائے گا اور میں نیتن یاہو پر زور دے رہا ہوں کہ جنگ و جدل مسئلے کا حل نہیں۔
دس جون کو یہ خبر آئی کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے سفارت خانوں سے غیر ضروری عملے کو ملک واپس بلا لیا ہے جبکہ مقامی ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ رخصت پر چلے جائیں۔ ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں مقیم امریکی شہریوں کو احتیاط کی ہدایت کر دی گئی۔ اب یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اسرائیل ایران ہر حملے کے لیے پرعزم ہے۔ اگرچہ کہ امریکی وزارت خارجہ یہ تاثر دے رہی تھی کہ ایران پر حملے کے اسرائیلی فیصلے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن نیتن یاہو نے یہ سب کچھ صدر ٹرمپ کی آشیرواد سے ہی کیا ہے۔
آخر کار 13 جون کو بد ترین بم باری سے حملے کا آغاز ہوا اور پہلے ہی ہلے میں ایران کی عسکری اور جوہری پروگرام کی تیکنیکی قیادت راستے سے ہٹادی گئی۔ ابھرتے شیر یا Rising Lion نامی آپریشن کی ابتدائی کامیابی میں اسرائیل کی عسکری صلاحیتوں سے زیادہ اس کی جاسوسی اور شاطرانہ سراغ رسانی کا بڑا ہاتھ ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے سراغ رساں اداروں کے حوالے سے جو تفصیلات فراہم کی ہیں اس کے مطابق:
اسرائیل کا ادارہِ سراغ رسانی، موساد تقریباً ایک سال سے معلومات جمع کر رہا تھا اور اس مقصد کے لیے سیکڑوں ایرانی جاسوس بھرتی کیے گئے جنہوں نے سارے ملک میں اہم تنصیبات کے بہت قریب رہائش اختیار کی۔ ایرانی فوج و پاسداران کے کلیدی اہلکاوں اور جوہری سائنس دانوں کی نقل و حرکت کی روزانہ کی بنیاد پر نقل و حرکت کا ریکاڑد تیار کیاگیا۔
ان ایجنٹوں کے لیے خصوصی ہتھیار اسرائیل سے ایران اسمگل کیے گئے۔ ان ہتھیاروں میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے امریکی ساختہ SAM میزائیل اور مہلک دستی بم شامل ہیں۔ ایجنٹوں کو فراہم کیے جانے والے سام میزائیل میں ترمیم کرکے ان کا سائز اتنا چھوٹا کر دیا گیا تھا کہ گاڑی کی سیٹ کے نیچے چھپایا کیا جا سکے۔
امریکی اسلحہ ساز کمپنی Dynetics کے GPS نظام سے آراستہ Small Glide Munition (SGM) میزائیل بھی فراہم کیے گئے۔ ساڑھے چار انچ قطر کے ساڑھے تین فٹ لمبے SGM میں اعلیٰ معیار کا بارود بھرا ہوتا ہے جو گاڑیوں سے داغے جا سکتے ہیں۔
مقامی راڈار کو جام کرنے کے لیے موبائل فون شکل کے Jamming Devices بھی ان ایجنٹوں کو فراہم کیے گئے۔
اسی کے ساتھ کئی شہروں میں خود کش ڈرون کے خفیہ اڈے قائم کیے گئے۔
حملے سے کچھ پہلے سام میزائیل، اہم تنصیبات کے قریب کھلے علاقوں میں نصب کر دیے گئے جس کا مقصد ایرانی طیارہ شکن میزائیلوں کو نشانہ بنانا تھا۔
کارروائی کا آغاز ایک سو مقامات پر 200 طیاروں کے حملے سے ہوا اور بم باری شروع ہوتے ہی جہاں سام میزائیلوں نے ایران کے دفاعی نظام کو غیر موثر کر دیا وہیں انتہائی درستگی کے ساتھ SMG اہداف پر داغ دیے گئے۔ ساتھ ہی فوجی اڈوں اور دفاعی تنصیبات کو ڈرون سے نشانہ بنایا گیا۔ یعنی آسمان سے آتش و آہن کی بارش کو تنصیبات کے قریب سے برسنے والے میزائیلوں اور ڈرون کی ضرب نے دو آتشہ کر دیا۔ چند ہفتہ پہلے اس سے ملتی جلتی حکمت عملی یوکرین نے روس پر ضربِ کاری کے لیے اختیار کی تھی۔ اتوار 15 جون کو بھی اسرائیلی جاسوسوں نے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور تہران کے پانچ کار بم دھماکوں میں ایک درجن کے قریب جوہری سائنس داں، ماہرین کیمیا، ارضیات، طبیعات و ریاضی جان بحق ہوگئے۔ اسرائیل نے ماضی میں اسی انداز میں عراقی سائنس دانوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
یہ تفصیلات موساد نے جاری کی ہیں اور اس شیخی میں ’بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کے لیے‘ کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اسرائیل نے جس درستگی سے فوجی قیادت اور سائنس دانوں کا نشانہ بنایا ہے وہ صرف بم باری سے ممکن نہیں۔ اگر موساد کی جاری کردہ کہانی میں ذرہ برابر بھی حقیقت ہے تو اس سے ایرانی وزارت داخلہ اور محکمہ سراغ رسانی کی صلاحیتوں پر سوالات اٹھتے ہیں۔ مہلک ہتھیار اور ڈرون اسمگل کر کے ایران لائے گئے اور انہیں انتہائی حساس تنصیبات کے قریب ذخیرہ کیا گیا۔ ڈرون کے اڈے بنے، کارروائی سے ایک دن پہلے سام میزائیل نصب کیے گئے اور موساد کے آپریشن کی ایرانیوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ کیا یہاں بھی جعفر از بنگال اور صادق از دکن کی تاریخ دہرائی گئی ہے؟
پشت میں لگنے والی اس ضرب کاری کے باوجود ایران نے دوسرے دن ڈرون اور میزائیل حملوں سے جوابِ آں غزل کا آغاز کیا اور اسرائیل کے طول و عرض کو بہت مہارت سے نشانہ بنایا۔ ایرانیوں نے اتنی بڑی تعداد میں میزائیل ایک ساتھ داغے کہ امریکہ کا جدید ترین دفاعی نظام مفلوج ہوگیا اور بہت سے مہلک سلیمان میزائیلوں نے تیر (Arrow) غلیلِ داودؑ (David Sling) آہنی گنبد (Iron Dome) اور آہنی شہتیر (Iron Beam) کی چار پرتوں کو چیر کر تل ابیب سے حیفہ تک اسرائیل کے کئی شہروں کو آگ کی گیند میں تبدیل کر دیا۔ اسرائیلی فوج کے ہیڈکوارٹر، حیفہ میں تیل کی سب سے بڑی ریفائنری، حیفہ بندرگاہ کی کئی گودیوں اور تل ابیب کے قریب مایہ ناز تحقیقاتی مرکز Weizmann Institute of Science کو آگ لگ گئی۔ سائنسی علوم پر تحقیقات کا یہ موقر ادارہ جامعہ ریہووٹ Rehovot کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ دارالحکومت، اس کے مضافاتی فیشن ایبل علاقے ریشون لی زائن (Rishon Lezion) اور ساحلی شہر بیت یام کا بڑا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔
اس معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ کے متضاد بیانات سے امریکی صدر کا دوغلا کردار آشکار ہوگیا۔ حملے کے فوراً بعد وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ حملے کا فیصلہ اسرائیل نے خود کیا ہے اور ہمارا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جمعہ کی شام کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کے نمائندے نے کہا کہ اسرائیل نے ایران پر حملے سے قبل امریکہ کو مطلع کر دیا تھا۔ موصوف نے مزید فرمایا کہ ہر خود مختار ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے اپنے اس حق کا دفاع کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس کارروائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے اپنے نجی پلیٹ فارم پر کہا ’میرے خیال میں یہ شان دار کارروائی تھی۔ہم نے انہیں (ایران) ایک موقع دیا لیکن انہوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ انہیں سخت مار پڑی، بہت ہی سخت۔ اس سے سخت مار ممکن نہ تھی۔ ابھی تو اور بہت کچھ آنے والا ہے‘۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
ٹرمپ انتظامیہ کے متضاد بیانات سے امریکی صدر کا دوغلا کردار آشکار ہوگیا۔ حملے کے فوراً بعد وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ حملے کا فیصلہ اسرائیل نے خود کیا ہے اور ہمارا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن جمعہ کی شام کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کے نمائندے نے کہا کہ اسرائیل نے ایران پر حملے سے قبل امریکہ کو مطلع کر دیا تھا۔ موصوف نے مزید فرمایا کہ ہر خود مختار ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے اپنے اس حق کا دفاع کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس کارروائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے اپنے نجی پلیٹ فارم پر کہا ‘میرے خیال میں یہ شان دار کارروائی تھی۔ہم نے انہیں (ایران) ایک موقع دیا لیکن انہوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ انہیں سخت مار پڑی، بہت ہی سخت۔ اس سے سخت مار ممکن نہ تھی۔ ابھی تو اور بہت کچھ آنے والا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025