اہل غزہ کی دہشت۔۔ اسرائیلی فوج میں خودکشی کا رجحان بڑھ گیا

موسم سرما کی طوفانی بارش، غزہ میں سردی کی شدید لہر،کئی بچے ٹھٹھر کر جاں بحق

0

مسعود ابدالی

جاتے جاتے صدر بائیڈن کی جانب سے اسرائیل کو مہلک اسلحے کا تحفہ
اہل غزہ، اسرائیلی قیدی رہا کریں۔ سال نو پر ٹرمپ کی دھمکی۔جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج خالی مکانوں کو آگ لگارہی ہے
اسرائیلی فوج شہری آبادی کے تحفظ کے اقدامات نہیں کررہی ہے: عسکری ایڈوکیٹ جنرل۔نسل کشی کے مجرموں کا تعاقب، صہیونی فوجی پر برازیل میں مقدمہ
تعطل کے بعد 3 جنوری سے قطر میں امن مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔ پہلا دور مکمل ہونے پر اسرائیلی وفد نے وزیراعظم نیتن یاہو کو بتایا کہ دوسرے فریق کا رویہ غیر لچکدار ہے، مزاحمت کار عارضی فائر بندی پر راضی نہیں ہیں اور وہ پائیدار جنگ بندی کے ساتھ اسرائیلی فوج کے انخلا پر اصرار کررہے ہیں۔ امریکی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axiosکے مطابق معاہدے پر اتفاق کے لیے مزاحمت کار مصر اور قطر کی جانب سے شدید دباو میں ہیں۔ یہ دراصل نومنتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دھمکی کااثر ہے ۔ جب انہوں نے سالِ نو کے پیغام میں کہا تھا ’ بہتر ہے کہ وہ (اہل غزہ) یرغمالیوں کو جلد رہا کردیں، ’20 جنوری تک قیدی رہا نہ ہوئے تو بہت برا ہوگا ۔ واشنگٹن مزاحمت کاروں سے براہ راست رابطے میں نہیں اس لیے قطری اور مصری حکام کے ذریعے دھمکایا جارہاہے۔اہل غزہ کو ڈرانے اور انجامِ بد سے ڈرانے کے ساتھ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی بھی تیز کردی گئی ہے۔اس ہفتے صدر بائیڈن نے 8 ارب ڈالر مالیت کا مزید اسلحہ اسرائیل بھیجنے کا حکم ، توثیق کے لیے کانگریس کو بھیج دیا۔ بکتر بند گاڑیاں، فوجی ہیلی کاپٹر، توپ کے گولے، بمبار طیارے، فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیل،اسلحہ بردار ڈرون اور 500پاونڈ کے بم اس فہرست میں شامل ہیں۔
غزہ شدید سردی کی لپیٹ میں ہے، اس بار موسم سرما کی بارش میں شدت بھی کچھ زیادہ تھی۔ گفتگو کا آغاز بیس روز کے جمعہ بطران سے جس نے 29 دسمبر کو اپنی والدہ کی شفیق بانہوں میں دم توڑدیا۔ بارش کی وجہ سے ننھے بطران اور اس کی ماں کے کپڑے گیلے اورخیمہ گرچکا تھا۔خاتون اپنے بچے کوسینے سے لگائے ہوئے یخ بوندا باندی کے دوران کھلے آسمان تلے ٹہلتی رہی کہ شاید مامتا کی حرارت بچے کو ٹھٹھرنے سے بچالے۔بدنصیب خاتوں کا کہنا ہے کہ تھوڑی دیر بعد مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے سینے پر برف کی کوئی ڈلی رکھدی ہے، یہ میرے بچے کا سر تھا۔جمعہ کا برف کی طرح ٹھنڈا جسم سر سے پیر تک نیلا تھا۔یہ غزہ میں ایک ہفتے کےدوران ٹھٹھر کر جان سے گزرنے والا یہ چھٹا بچہ ہے۔
اٹھائیس دسمبر کو ہونے والی طوفانی بارش سے خیمے گرگئے اور سارا سامان کیچڑ میں ڈوب گیا۔ سخت پابندیوں کی وجہ سے امدادی سامان کی تقسیم ضرورت سے پہلے ہی بہت کم تھی اب راستے دلدل بن جانے کی وجہ سے رہی سہی امداد بھی معطل ہوچکی ہے۔ لاکھوں لوگ گیلی زمین پر 10 ڈگری سنٹی گریڈ(50F) درجہ حرارت میں کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ ہر طرف کیچڑ اور پانی۔کمبل، جیکٹ اور سویٹر بھیگ کر ناقابل استعمال ہوچکے ہیں۔اس صورتحال پر اہل غزہ دنیا کی بے حسی کا کیا شکوہ کریں کہ جشنِ سال نو پر کراچی کے گورنر ہاوس میں آتش بازی کا عالمی ریکارڈ قائم ہوا اور ریاض و دبئی سے اسلام آباد و لاہور تک ہر جگہ یہی حال رہا۔ تاہم مختلف مقامات پر یکجہتی کے مظاہرے بھی ہوئے۔ اسلام آباد میں حافظ نعیم الرحمان نے غزہ ملین مارچ کی قیادت کی۔ استنبول میں لاکھوں لوگ اہل غزہ کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے۔ نیویارک کے مشہور زمانہ ٹائمز اسکوائر پر غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ ہوا۔ہسپانوی جزائر کنیری (Canary Islands)میں فٹبال اسٹیڈیم کے باہر مظاہرہ ہوا اورلوگوں نے اسرائیلی پرچم کو آگ لگادی۔پہلی بار اسرائیل میں بھی غزہ خونریزی کو نسل کشی کہاگیا۔ تل ابیب کے فوجی ہیڈکوارٹر پر مظاہرے میں شرکا ’غزہ میں نسل کشی بند کرو‘ کے پلے کارڈ لیے کھڑے تھے۔ حاضری ایک درجن سے بھی کم تھی لیکن مٹھی بھر سلیم الفطرت اسرائیلیوں کی جرأت قابل تحسین ہے۔
دنیا بھر میں نسل کشی کے ذمہ داروں کا تعاقب جاری ہے۔ ایک ماہ قبل بیلجیم میں اسرائیل کے عسکری اتاشی موسیٰ تیترو (Moshe Tetro)کے خلاف جنگی جرائم کی شکایت کردی گئی تھی جس کی تحقیقات جاری ہیں۔اب خبر ہے کہ تعطیل پر برازیل آنے والے ایک اسرائیلی فوجی کے خلاف وفاقی عدالت نے جنگی جرائم کی تحقیقات کا حکم دیدیاہے۔ عدالت نے یہ حکم جنگی جرائم کے مرتکبین کاپیچھا کرنےوالی تنظیم ہند رجب فاونڈیشن کی درخواست پر کیا۔ فاونڈیشن نے ایسی ہی دہائی سری لنکا کی عدالت کو بھی دی ہے جہاں مبینہ طور پر غزہ میں ڈیوٹی دینے والے سپاہی چھٹیاں گزارنے آئے ہیں۔ حوالہ: Metrópoles برازیل۔
سالِ نو کے آغاز پر مزاحمت کاروں نے طاقت کا مظاہرہ کیا اور غزہ کی سرحد سے جڑے قصبے نیتیقّوت (Netivot)پر دو میزائیل داغ دیے۔ کوئی نقصان تو نہ ہوا کہ امریکی دفاعی نظام نے دونوں میزائیل غیر موثر کردیے لیکن بدحواسی میں پناہ گاہوں کی طرف دوڑلگاتے ہوئے کئی افراد زخمی ہوگئے۔ تین دن پہلے صحرائے نقب (Negev)میں سیدروت (Sderot) کی طرف 5 میزائیل پھینکے گئے۔ یہ تمام میزائیل بھی امریکی آئرن ڈوم نےغیر موثر کردیے ۔ وسطی غزہ میں اسرائیلی ہیلی کاپٹر پر Shoulder launched طیارہ شکن میزائیلوں سے حملہ کیا گیا۔جدید دفاعی نظام نے میزائیلوں کو ہیلی کاپٹر تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کردیا لیکن طیارہ شکن اسلحے کے استعمال سے اسرائیل میں پریشانی کی لہردوڑ گئی ہے۔
طیارہ شکن میزائیل سے اپنی فوج کا خوف دور کرنے کے لیے البریح، جبالیہ، المواصی اور بیت حنون پر شدید بمباری کی کی گئی جس سے سیکڑوں عورتیں اور بچے جاں بحق ہوئے۔ اسرائیلی فضائیہ کے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دسمبر کے مہینے میں غزہ پر1400 فضائی حملے کیے گئے۔یعنی 21 کلومیٹر لمبی اور 8 کلومیٹر چوڑی پٹی پر ہر تیس منٹ میں ایک حملہ ہوا۔ اس ماہ اسرائیلی فوج کا خاص ہدف غزہ کے بچے کھچے ہسپتال تھے۔ کمال عدوان، الاہلی اور وفا ہسپتالوں پر متعدد بار بمباری کی گئی۔ کمال عدوان ہسپتال سے بے دخل کیے گئے مریضوں کو ہسپتال کے ملبے پر بٹھاکر فلم بندی کی گئی اور یہ منظر قومی نشریاتی رابطے پر اسرائیل بھر میں دکھایا گیا۔ جس کے ساتھ وزیر دفاع کا یہ انتباہ نشر ہورہا تھا کہ اگر قیدی رہا نہ ہوئے توغزہ کا حشر اس سے بھی برا ہوگا۔طبی مراکز پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا کہ ہسپتالوں اور اس کے ارد گرد اسرائیلی حملوں نے غزہ کے صحت عامہ کے نظام کو "مکمل تباہی کے دہانے” پر پہنچا دیا ہے۔ یہ کارروائی جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔رپورٹ میں حملے کے نئے رجحان کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیلی افواج نے ہسپتالوں کا محاصرہ کرکے انہیں زبردستی خالی کرایا، جس کے نتیجے میں مریض مر گئے یا مار دیے گئے’
صرف عالمی ادارے ہی نہیں،غزہ میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائی پر خود ان کے اپنے تحقیقاتی ادارے انگلیاں اٹھارہے ہیں۔فوج کی ایڈووکیٹ جنرل، میجر جنرل عفت تومر یروشالمی Yifat Tomer-Yerushalmi نے جنوبی کمان کے سربراہ میجر جنرل ہارون فنکلمین Yaron Finkelmanکے نام ایک خط میں کہا ہے کہ بمباری اور دوسری مہلک کارروائی سے پہلے شہری آبادی کے حجم کا درست اندازہ لگانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ ایک مثال دیتے ہوئے وہ لکھتی ہیں ‘آپریشن سے پہلے فوج نے تخمینہ لگایاکہ بیت لہیہ(شمالی غزہ) کے علاقے میں 3،000 شہری ہیں جبکہ اصل تعداد 14،000 تھی۔
طاقت اور ظلم و جبر کے مقابلے میں اہل غزہ کے پرعزم صبر سے اسرائیلی فوج دباو میں نظر آرہی ہے۔ سپاہیوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اس سال 7 اکتوبر تک 28 اسرائیلی فوجیوں نے خودکشی کرلی۔ غزہ حملے سے پہلے فوجیوں میں خودکشی کی وارداتیں اوسطاً 10 سالانہ تھیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کو لمبی اور دو بدو جنگ کا تجریہ نہیں ہے۔ ان کا دار و مدار فضائیہ پر ہے اور اس باب میں امریکی ٹیکنالوجی ناقابل تسخیر سمجھی جاتی ہے لیکن اس بار اسرائیلی فوجی ڈھائی سو دنوں سے غزہ کی دلدل میں ہیں۔ فوجی حکام نے بتایا کہ reserveدستوں سے وابستہ ہزاروں فوجیوں نے شدید دماغی دباو کی بنا پر غزہ جانے سے انکار کردیا ہے۔
یمن سے میزائیل حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور ان کے یورپی حریف یمن کے مختلف علاقوں پر تقریباً ہرروز ہی حملے کررہے ہیں لیکن اس سے یمنیوں کی عسکری صلاحیت متاثر ہوتی نظر آرہی ہے نہ ہی فلسطینیوں کے حمایت میں کسی کمی کاکوئی شائبہ ظاہر ہوتا ہے۔میزائیل و ڈرون حملوں سے اب تک کوئی بڑا نقصان تو نہیں ہوا لیکن اس نے 70لاکھ اسرائیلیوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ حملوں کے لیے رات کے تیسرے پہر کا انتخاب کیا جارہا ہے جب سائرن کے شور سے پورے وسطی اسرائیل میں دہشت پھیل جاتی ہے۔ اکثر لوگ سوتے وقت بھی گرم کپڑے پہنے رہتے ہیں کہ کیا خبر سرد رات میں کس وقت دوڑ لگانی پڑجائے۔ اسرائیلی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ خوف اور گہری نیند میں بار بار اٹھنے سے بچوں اور نوجوانوں میں بے خوابی کی شکایات بڑھ گئی ہیں۔
عام لوگوں کے ساتھ وزراء اور حکومتی اہلکار بھی خوف کا شکار ہیں۔ گزشتہ ہفتے خفیہ ایجنسی شاباک (Shin Bet) نے تفصیلی جائزے کے بعد کہا کہ کنیسہ (پارلیمنٹ) عدالتوں اور سرکاری عمارتوں پر حملوں کا خطرہ مزید سنگین ہوگیاہے لہذا وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی کارروائی زیرزمین محفوظ ’نامعلوم‘ مقام پر ہی جاری رہنی چاہیے۔ کچھ حلقے اعتراض کررہے ہیں کہ خفیہ مقام پر سماعت کی وجہ سے کارروائی کی شفافیت متاثر ہورہی ہے۔
غزہ اور غرب اردن کے ساتھ شام و لبنان میں بھی اسرائیلی جارحیت عروج پر ہے۔ گزشتہ ہفتےاسرائیلی فوج جنوبی شام میں قنیطرہ صوبے کے شہر مدینہ السلام میں داخل ہوگئی اور چھاپہ مار دستے نے سرکاری عمارتوں کی تلاشی لی۔صنعتی شہر عذرا پر اسرائیل کی بمباری سے متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔اس کے علاوہ اسرائیلی طیاروں نے دمشق کے مضافاتی علاقے پر بھی بم برسائے، دوسری طرف جنوبی لبنان کے شہر عتیرون میں سیکڑوں رہائشی مکانات کو آگ لگاکر اور عیتالشعب میں بمباری سے تباہ کردیا گیا۔
آخر میں غزہ کے ایک نوشتہ دیوار کا ذکر۔ منہدم عمارتوں کے ملبے اور ڈھانچہ بنی ہوئی ایک کار پر کسی باہمت شخص نے لکھ دیا ’ہمارے لیے جنت میں ایسے مکانات ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہوں گے‘۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 طاقت اور ظلم و جبر کے مقابلے میں اہل غزہ کے پرعزم صبر سے اسرائیلی فوج دباو میں نظر آرہی ہے۔ سپاہیوں میں خودکشی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اس سال 7 اکتوبر تک 28 اسرائیلی فوجیوں نے خودکشی کرلی۔ غزہ حملے سے پہلے فوجیوں میں خودکشی کی وارداتیں اوسطاً 10 سالانہ تھیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کو لمبی اور دو بدو جنگ کا تجریہ نہیں ہے۔ ان کا دار و مدار فضائیہ پر ہے اور اس باب میں امریکی ٹیکنالوجی ناقابل تسخیر سمجھی جاتی ہے لیکن اس بار اسرائیلی فوجی ڈھائی سو دنوں سے غزہ کی دلدل میں ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024