اگر فوری طور پر مقدمے کی سماعت کے حق کی خلاف ورزی ہو تو UAPA کے معاملات میں بھی ضمانت دی جاسکتی ہے: سپریم کورٹ
نئی دہلی، فروری 2: لائیو لا ڈاٹ اِن کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے پیر کے روز یہ مشاہدہ کیا کہ اگر کسی شخص پر سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے تو بھی اس کے پاس جلد سماعت کا بنیادی حق ہے اور اگر اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو وہ ضمانت کا اہل ہے۔
جسٹس این وی رمنا، سوریہ کانت اور انیردھ بوس کے بنچ نے موقف اختیار کیا کہ جب ’’مقدمے کی سماعت جلد ہی مکمل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے توUAPA دفعات کی سختیاں کو ہوگئیں‘‘ اور زیادہ سے زیادہ سزا کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی تحویل کے طور پر مکمل ہوچکا ہوتا ہے۔
کیرالہ ہائی کورٹ کے 2010 میں پروفیسر کی ہتھیلی کاٹنے کے ملزم ایک شخص کی ضمانت منظور کرنے کے فیصلے کے خلاف عدالت نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی۔
این آئی اے نے دعوی کیا تھا کہ ہائی کورٹ نے یو اے پی اے کے سیکشن 43 ڈی (5) کی قانونی سختیوں پر غور کیے بغیر ہی ملزم کو ضمانت دینے میں غلطی کی تھی۔
یو اے پی اے کے سیکشن 43 ڈی (5) کے تحت کسی فرد کو اس وقت تک ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے جب تک سرکاری وکیل کو سماعت کا مناسب موقع نہ دیا گیا ہو۔
تاہم سپریم کورٹ نے این آئی اے کی اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کا یہ حکم درست تھا کیونکہ اس نے طویل عرصے تک قید کی مدت کو ضمانت کے لیے منطقی طور پر استعمال کیا تھا۔
بنچ نے مستقبل قریب میں کسی بھی وقت مقدمے کی سماعت کے مکمل ہونے کے امکان کو نوٹ کیا۔ بار اینڈ بنچ کے مطابق عدالت نے کہا ’’ملزم نہ صرف پانچ سال سے زیادہ عرصہ تک جیل میں رہا ہے، بلکہ 276 گواہوں کی جانچ پڑتال بھی باقی ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے ضمانت کی منظوری کے خلاف یو اے پی اے کے سیکشن 43 ڈی (5) کے تحت بار کو قبول کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ دفعہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر راحت دینے کے لیے آئینی عدالتوں کے دائرہ اختیار کو خارج نہیں کرتی ہے۔