اکولا تشدد: شدت پسندوں نے مسلمان سمجھ کردلت آٹو ڈرائیور کا کیا قتل
نئی دہلی،18مئی :۔
مہاراشٹر کے اکولا میں پیغمبر اسلام کے خلاف قابل اعتراض پوسٹ پوسٹ کے بعد ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں ایک آٹو ڈرائیور کی موت ہوگئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہندوتواوادیوں کے ایک ہجوم نے ایک دلت آٹو ڈرائیور کو مسلمان سمجھ کر مار ڈالا۔ آٹو ڈرائیور بدمعاشوں سے رحم کی بھیک مانگتا رہا لیکن کسی نے اسے نہیں بخشا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ واقعہ 13 مئی کو پیش آیا جب اکولا ‘چھترپتی سینا’ کے ایک بنیاد پرست رہنما کرن ساہو نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ کی جس میں مسلم کمیونٹی اور پیغمبر اسلام محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا گیا تھا۔
اس پوسٹ کے وائرل ہونے کے بعد مسلمانوں میں غصہ بڑھ گیا اور پولیس اسٹیشن پہنچ کر ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے لگے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ پوسٹس اشتعال انگیز ہیں اور ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی نیت سے پوسٹ کی گئی ہیں۔
الزام ہے کہ جب پولس اسٹیشن کی پولیس نے مسلمانوں کی شکایت پر کان دھرنے سے انکار کیا تو بھیڑ مشتعل ہوگئی اور نعرے لگاتے ہوئے پتھراؤ شروع کردیا۔اس کی خبر نزدیکی ہندو بستی کے نوجوانوں تک غلط اطلاع کے ساتھ پہنچی کہ مسلمانوں کا ایک ہجوم مندر میں گھس گیا ہے۔ جس کے بعد بستی کے ہندو مشتعل ہو گئے اور قریبی گلی میں واقع مسجد میں گھس کر نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے لگے۔
دی وائر کی خبر کے مطابق، تشدد کے نتیجے میں 40 سالہ ولاس گائیکواڑ کی موت ہو گئی، جس کے عینی شاہدین کا دعویٰ ہے کہ گائیکواڑ، جس کا تعلق دلت برادری سے تھا، آٹو رکشہ چلا رہا تھا جب ہجوم نے اس پر حملہ کر دیا۔
اس نے بار بار بھیڑ سے کہا کہ ان کا تعلق مسلم کمیونٹی سے نہیں ہے۔ لیکن مشتعل ہجوم نے یقین نہیں کیا۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ آٹو ڈرائیور کی شناخت غلط طریقے سے کی گئی تھی کیونکہ اس کے آٹو پر "کے جی این” لکھا ہوا تھا۔ جس کے معنی خواجہ غریب نواز عرف خواجہ معین الدین چشتی ہیں۔ تشدد کے بعد، پولیس نے 28 سے زائد نوجوانوں کو گرفتار کیا، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے۔