
نوراللہ جاوید، کولکاتا
کمیشن پر چور دروازے سے این آرسی کرانے کا الزام
بھارت میں شہریت ثابت کرنے کے لیے بنیادی دستاویزات تک عدم رسائی
کسی بھی وقت کسی کی شہریت کو بھی مشکوک بنایا جاسکتا ہے
24 جون کو الیکشن کمیشن نے غیر متوقع طور پر ووٹر لسٹ کا گہرائی سے خصوصی جائزہ (Special Intensive Revision of Electoral Roll) لینے کا اعلان کیا اور اس کا نفاذ اگلے دن سے ہی کر دیا گیا۔ کمیشن نے کہا کہ اگلے ایک مہینے میں بہار کے تمام ووٹروں کا جائزہ لے لیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو دس دن مکمل ہو چکے ہیں مگر اب تک صرف 14 فیصد فارم ہی انٹرنیٹ پر لوڈ ہو سکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اگلے 20 دنوں میں 86 فیصد فارم لوڈ ہو سکیں گے؟
ریاست کے چیف الیکٹورل آفیسر (سی ای او) کے دفتر کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 94 فیصد ممکنہ ووٹروں میں فارم تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ کمیشن کے اس فیصلے نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ پہلا سوال کمیشن کی نیت پر اٹھ رہا ہے، کیونکہ کمیشن بہار میں اسمبلی انتخابات کے پیش نظر اسی سال جنوری میں ووٹر لسٹ کا جائزہ لے چکا ہے۔ تو پھر اچانک ووٹر لسٹ کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ اگر بہار میں ووٹر لسٹ پر نظرثانی کرنا ناگزیر تھا تو یہ قدم پہلے کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ اب جب کہ اسمبلی انتخابات میں محض چند مہینے باقی رہ گئے ہیں تو پھر اتنی کم مدت میں اتنا اہم کام مکمل کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ بہار جیسی ریاست جس کی آبادی کا بیشتر حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے، جہاں آج بھی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، وہاں کمیشن کے ذریعہ مطلوبہ دستاویزات فراہم کرنا انتہائی مشکل ہے۔ بہار میں آج بھی پیدائش کے رجسٹریشن کا مکمل انتظام نہیں ہے۔ ایسے میں 1987 کے بعد پیدا ہونے والے افراد اپنی پیدائش کا سرٹیفکیٹ کہاں سے جمع کریں گے؟
اگرچہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ 12 دنوں میں دو مرتبہ اپنے اعلان کردہ اصول و ضوابط میں تبدیلی کی ہے۔ 6 جولائی کو بہار کے چیف الیکٹورل آفیسر نے کہا کہ جن لوگوں کے پاس دستاویزات نہیں ہیں وہ بھی پہلے مرحلے میں فارم جمع کر دیں، بعد میں وہ دستاویزات جمع کرا سکتے ہیں۔ کمیشن کے اس فیصلے نے معاملے کو آسان بنانے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس دستاویزات نہیں ہیں یا جن کے دستاویزات میں ناموں کا تضاد ہے، ان کا کیا ہوگا؟ کیا دستاویزات کی کمی کے باوجود ان کے نام نئے ووٹر لسٹ میں باقی رہیں گے؟
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو شہریت کے ثبوت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ ایک شہری کا بنیادی حق رائے شماری میں حصہ لینا ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ جن لوگوں کے نام ووٹر لسٹ میں نہیں آ سکیں گے، ان کی شہریت مشکوک ہو جائے گی۔ کمیشن کے اعلان کے مطابق جن افراد کے نام 2003 کی ووٹر لسٹ میں نہیں ہیں انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بھارتی شہری ہیں۔ اس کے لیے اپنے پیدائشی سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ اپنے والدین میں سے کسی ایک کا پیدائشی سرٹیفکیٹ جمع کرنا ہوگا۔
بھارت میں یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ شہریت ثابت کرنے کے لیے کوئی ایک متعین دستاویز نہیں ہے۔ آدھار کارڈ، ووٹر کارڈ اور راشن کارڈ، جو بیشتر شہریوں کے پاس ہیں، انہیں شہریت کے ثبوت کے طور پر نہیں مانا جاتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدالتیں، بشمول سپریم کورٹ، کئی مرتبہ کہہ چکی ہیں کہ آدھار کارڈ شہریت کا ثبوت نہیں ہے۔ چنانچہ ماہرینِ قانون کی رائے ہے کہ بھارتی ریاست کی بنیادی دستاویزات تک آسان اور عالمگیر رسائی فراہم کرنے میں ناکامی ایک ایسا غیر یقینی نظام بناتی ہے، جہاں شہریت پر کسی بھی وقت سوال کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ شہریت، جو ایک بنیادی حق ہے، اس کو ایک بوجھ میں بدل دیا گیا ہے۔ خاص طور پر ملک کے سب سے پسماندہ اور اقلیتی شہریوں کی شہریت پر کسی بھی وقت سوال کھڑا کرنا اور ان کے لیے ادارہ جاتی مشکلات پیدا کرنا بہت ہی آسان بنا دیا گیا ہے۔
پہلگام حملے کے بعد بنگلہ دیشی دراندازی کے نام پر ملک بھر میں بنگالی مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ آسام، جہاں 2019 میں این آر سی کا کام مکمل ہوا ہے مگر اب تک این آر سی میں جگہ پانے والوں کے سرویوؤں سے شہریت ثابت کرنے کا بوجھ ختم نہیں ہوا ہے۔ آسام کی حکومت جب چاہتی ہے آسام کے مسلم شہریوں کو مشکوک شہری کے طور پر پیش کرکے کارروائی کر دیتی ہے۔
بی جے پی ملک بھر میں این آر سی کرانے کا عزم رکھتی ہے۔ گزشتہ 11 برسوں کے دورِ حکم رانی میں بی جے پی نے اپنے تمام بنیادی ایشوز اور ایجنڈے پر عمل درآمد کر لیا ہے۔ این آر سی ہی ایک بڑا ایشو ہے جس پر عمل درآمد باقی ہے۔ چنانچہ بہار میں الیکشن کمیشن کے ذریعے ووٹر لسٹ کا گہرائی سے جائزہ لینے اور ووٹر لسٹ میں شامل ہونے کے لیے جو کاغذات مانگے گئے ہیں، اس بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ دراصل یہ بی جے پی کے ایجنڈے پر چور دروازے سے عمل درآمد کی ایک کوشش ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس ملک بھر میں این آر سی کیوں چاہتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد مسلمانوں کی بڑی تعداد کو شہریت سے محروم کرنا ہے اور اس کے لیے یہ بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی، روہنگیاؤں کے نام ووٹر لسٹ میں شامل ہو گئے ہیں۔ جب جب انتخابات آتے ہیں، اس طرح کے پروپیگنڈوں میں شدت آ جاتی ہے مگر 11 برسوں کی حکم رانی کے بعد بھی بی جے پی کی اعلیٰ قیادت صرف دعویٰ کر رہی ہے، ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
آسام میں این آر سی کے دوران شہریت ثابت کرنے کا بوجھ شہریوں پر ہی ڈال دیا گیا تھا اور اس مرتبہ بھی جب بہار میں ایس آئی آر (SIR) ہو رہا ہے تو ووٹروں پر ہی ثبوت پیش کرنے کا سارا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن کا فیصلہ صرف ووٹر لسٹ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے شہریت کا سوال بھی جڑا ہوا ہے۔ اس لیے کمیشن کے اس اعلان کو صرف ایک ریاست کا مسئلہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
چنانچہ بہار کے باہر بھی اس پر سخت ردعمل کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس معاملے میں کئی عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس پر کب سماعت کرے گی؟ عدالت کا رخ کیا ہوگا؟ کیا سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے اختیارات پر بات کرے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب سپریم کورٹ سے ہی مل سکتا ہے۔
سپریم کورٹ میں اے ڈی آر کی عرضی اور اس کی دلیل
بہار میں ووٹر لسٹ میں نظرثانی کے فیصلے کے خلاف کئی افراد نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے مگر ان میں ملک بھر میں انتخابی شفافیت کے لیے کام کرنے والی تنظیم اے ڈی آر (ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز) کی عرضی بہت ہی اہم ہے۔ اے ڈی آر ایک غیر سرکاری تنظیم ہے اور ملک میں انتخابی شفافیت کے لیے کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہے۔
اب تک یہ کہا جا رہا تھا کہ ای ایس آر کرانے کا اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے اور آئین نے کمیشن کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جب چاہے مکمل یا جزوی طور پر ووٹر لسٹ کا جائزہ لے سکتا ہے۔ مگر اے ڈی آر نے اس پورے عمل کی آئینی حیثیت کو ہی چیلنج کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ کمیشن کے اس فیصلے سے لاکھوں ووٹرز حقِ رائے دہی سے محروم ہو جائیں گے۔
اے ڈی آر کی پیروی سپریم کورٹ کے معروف وکیل پرشانت بھوشن کر رہے ہیں۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کا یہ فیصلہ آئین ہند کے آرٹیکل 14، 19، 21، 325 اور 326 کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 اور الیکٹورل رولز 1960 کے قاعدہ 21A کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ درخواست میں دلیل دی گئی ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، جمہوریت اور آئین کا بنیادی حصہ ہیں، اور چونکہ کمیشن کا ایس آئی آر کرانے کا فیصلہ ایسے ماحول میں کیا گیا ہے جس سے لاکھوں ووٹرز محروم ہو سکتے ہیں، تو انتخابات منصفانہ اور آزادانہ کیسے ہوں گے؟
درخواست میں ایک بڑی دلیل یہ دی گئی ہے کہ ووٹروں کی فہرست میں شامل ہونے کی ذمہ داری شہریوں پر منتقل کر دی گئی ہے، جبکہ اس سے قبل جب بھی ای ایس آر ہو چکے ہیں، اس میں ووٹروں پر یہ بوجھ نہیں ڈالا گیا تھا۔ چونکہ شناختی دستاویزات جیسے آدھار، راشن کارڈ اور پین کارڈ کو خارج کر دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے پسماندہ طبقات اور غریبوں کو ووٹنگ سے خارج ہونے کا زیادہ خطرہ لاحق ہے۔
درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ:
’’ای سی آئی نے نومبر 2025 میں ہونے والے ریاستی انتخابات کے قریب آنے کے ساتھ بہار میں ایس آئی آر کے انعقاد کے لیے غیر معقول اور غیر عملی ٹائم لائن جاری کی ہے۔ لاکھوں شہری (جن کے نام 2003 ای آر میں شامل نہیں ہوئے) ایس آئی آر کے تحت مطلوبہ دستاویزات نہیں رکھتے۔ بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو دستاویزات جمع کر سکتے ہیں، لیکن محدود وقت کی وجہ سے ان کے لیے بھی یہ مشکل ہے۔‘‘
بہار ایک ایسی ریاست ہے جہاں غربت اور نقل مکانی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہاں بہت سے لوگوں کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ یا والدین کے ریکارڈ جیسے اہم دستاویزات تک رسائی نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 3 کروڑ سے زیادہ ووٹرز، خاص طور پر پسماندہ طبقات جیسے ایس سی، ایس ٹی اور مہاجر مزدور، ایس آئی آر میں درج تقاضوں کی وجہ سے ووٹنگ سے خارج کیے جا سکتے ہیں۔
2007 میں جن افراد کو ووٹ دینے کا حق ملا، ان میں سے صرف ایک چوتھائی کی پیدائش رجسٹر ہوئی تھی؛ 2022کے اندازے کے مطابق صرف 14.71فیصد طلبہ دسویں جماعت پاس کر پائے تھے؛ اور 2023تک صرف 2فیصد افراد کو پاسپورٹ جاری ہوا تھا۔
انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنے اداریے میں لکھا ہے:
’’الیکشن کمیشن آف انڈیا کو چاہیے کہ وہ رک کر ایک اہم سوال پر غور کرے کہ بہار میں انتخابات سے قبل جو مشق شروع کی گئی ہے اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا یہ اس جوش و خروش سے متعلق ہے کہ کون کس کو ووٹ دے گا یا اس اندیشے سے جڑا ہے کہ کہیں سب ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کا بنیادی حق ہی نہ مل جائے؟‘‘
آئین کی دفعہ 324 الیکشن کمیشن کو انتخابات کی نگرانی کا اختیار دیتی ہے اور دفعہ 326 بالغ شہریوں کو ووٹ دینے کا حق فراہم کرتی ہے۔ فہرستوں کی نظرثانی الیکشن قواعد 1960 اور نمائندگیِ عوامی قانون 1950 کے تحت کی جاتی ہے۔ آخری مرتبہ یہ سخت نظرثانی 2003 میں ہوئی تھی، اس کے بعد کئی ریاستوں میں سالانہ نظرثانی ہوتی رہی ہے۔
الیکشن کمیشن نے اس نظرثانی کی وجوہات میں نقل مکانی، غیر ملکی شہریوں کے نام ہٹانا، نئے اہل ووٹروں کا اندراج اور فوت شدگان کے نام حذف کرنا بیان کیا ہے مگر موجودہ مشق ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب حالات خود غیر یقینی اور خوف پیدا کرنے والے ہیں۔
مثلاً:یہ اعلان انتخاب سے صرف چار ماہ قبل کیا گیا ہے جو انتظامی طور پر نہایت مشکل بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ تقریباً تین کروڑ ووٹرز کی تصدیق صرف 30 دن میں کرنی ہے، جبکہ ابھی تک صرف 3 فیصد فارم ہی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہو سکے ہیں۔ یہ ریاست سیلاب سے متاثر، ہجرت کا شکار ہے اور یہاں کے بڑے طبقات میں نہ تو بیداری ہے اور نہ وسائل۔
2003 کی فہرستوں میں شامل نہ ہونے والے افراد سے کم از کم 11 دستاویزات مانگے جا رہے ہیں، یعنی ثبوت کی ذمہ داری ووٹر پر ڈال دی گئی ہے۔ اس سے دستاویزات کے حصول کے لیے ایک دوڑ مچ گئی ہے، خاص طور پر ان لوگوں میں جن کے پاس یہ موجود نہیں یا وہ نہیں جانتے کہ کہاں سے حاصل کریں۔ اس نے ایک ’’پسِ پردہ این آر سی‘‘ کا خوف پیدا کر دیا ہے۔
غریب، مزدور، دلت، پسماندہ ذاتیں، مسلمان، بزرگ اور خواتین کے لیے یہ صورت حال ممکنہ طور پر حقِ رائے دہی سے محرومی کا باعث بن رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کا حالیہ اشتہار، جس میں کہا گیا ہے کہ پہلے فارم بھریں، دستاویزات بعد میں دیں، اس غیر یقینی صورت حال کو اور بڑھا رہا ہے۔ایسے میں الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ فوراً اس عمل کو روک کر دوبارہ غور کرے۔
دستاویز کی عدم دستیابی: مسئلے کا حل کیا ہے؟
یہ ایک بنیادی اور اہم سوال ہے کہ اگر شہریت ثابت کرنے یا ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کے لیے درکار دستاویزات دستیاب نہ ہوں تو اس مسئلے کا حل کیا ہوگا؟ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سپریم کورٹ بہار اسمبلی انتخابات تک اس عمل کو روک دیتی ہے اور بعد میں اس کے دوبارہ آغاز کی ہدایت دیتی ہے، تب بھی دستاویز کی دستیابی یا عدم دستیابی کا سوال اپنی جگہ باقی رہے گا۔
یہ سوال بھی نہایت اہم ہے کہ جب ریاست شہریت ثابت کرنے کے لیے کسی ایک مستند دستاویز کا تعین کرنے میں ناکام ہے تو اس کی عدم موجودگی پر کسی شہری کو سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟ چنانچہ ماہرین کی رائے ہے کہ اس طرح کی کسی بھی مشق پر عمل درآمد سے پہلے ملک کو اپنے سماجی ڈھانچے (سوشیل انفرااسٹرکچر) میں بھرپور سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ جب ریاست ہر شہری کی پیدائش کا سو فیصد اندراج، اور ہر بچے کے اسکول میں داخلے کو یقینی بنا لے تب جا کر ایسی مشقیں نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہیں۔
بھارت میں صرف ان شہریوں کے پاس شہریت کا سرٹیفکیٹ موجود ہے، جنہوں نے کسی دوسرے ملک کی شہریت ترک کر کے بھارت کی شہریت حاصل کی ہے۔ بھارت میں پیدا ہونے والے شہریوں کے پاس عمومی طور پر ایسا کوئی باضابطہ شہریت نامہ نہیں ہوتا۔ بھارتی شہریوں کے لیے اپنی شہریت ثابت کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ 1987 سے پہلے پیدا ہونے والوں کو بھارت میں پیدائش کا ثبوت دینا ضروری ہے جب کہ 1987 کے بعد پیدا ہونے والوں کے لیے تین دستاویزات کی ضرورت ہے:
ان کی بھارت میں پیدائش کا ثبوت
والدین کی شہریت کا ثبوت
والدین کے ساتھ ان کے تعلق کا ثبوت
عام طور پر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ شناختی دستاویزات شہریت ثابت کرتی ہیں، حالانکہ قانون کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس نے کئی مقدمات میں واضح کیا ہے کہ آدھار کارڈ، ووٹر شناختی کارڈ، پین کارڈ، گرام پنچایت سکریٹری کی طرف سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ اور بینک اکاؤنٹ یا جائیداد کی ملکیت جیسی دستاویزات شہریت کا ثبوت نہیں سمجھی جاتیں۔
سپریم کورٹ کی وکیل روپالی سیموئیل، جو شہریت کے مسائل پر کام کر رہی ہیں، کہتی ہیں:
’’1987 سے قبل خاص طور پر دیہی ہندوستان میں پیدائش کے ریکارڈز کا فقدان تھا۔ بیشتر بچوں کی پیدائش گھروں پر ہوتی تھی۔ بہار جیسے صوبے میں دور دراز دیہی علاقے اور آدیواسی کمیونٹیاں موجود ہیں جہاں پیدائش کی باقاعدہ دستاویزات موجود ہی نہیں ہیں۔‘‘
روپالی کہتی ہیں کہ ’’دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں ثقافتی طور پر بچوں کے نام پیدائش کے وقت نہیں رکھے جاتے، بلکہ بعد میں کسی رسم کے بعد دیے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے بہت سے پیدائش نامے خالی ہوتے ہیں یا ان میں ایک یا دونوں والدین کے نام درج نہیں ہوتے۔‘‘
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ناموں کے انگریزی ہجے اکثر معیاری نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے بے شمار تغیرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ بہت سی برادریاں کنیت (سر نیم) نہیں رکھتیں۔
’’رجسٹرار یا مردم شماری کے اہلکار خود سے ‘کمار’، ‘اسلام’، ‘بیگم’ یا ‘بائی’ جیسے لاحقے شامل کر دیتے ہیں، جس سے شہری کی زندگی کے مختلف مراحل میں جاری کردہ دستاویزات میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر انہی تضادات کی بنیاد پر شہریت پر شک ظاہر کیا جاتا ہے۔‘‘
سیموئیل کا کہنا ہے کہ 1987 کے بعد پیدا ہونے والوں کے لیے یہ چیلنج کئی گنا بڑھ جاتا ہے، کیونکہ پیدائش کے ثبوت کے ساتھ ساتھ والدین کی شہریت بھی ثابت کرنی ہوتی ہے۔
الیکشن کمیشن نے اگرچہ واضح کیا ہے کہ اس مشق کا تعلق شہریت سے نہیں ہے لیکن عوام کے دلوں سے اندیشے اور وسوسے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس سارے عمل کو مکمل شفافیت کے ساتھ انجام دیا جائے۔ECR کرانے کے فیصلے نے سِول سوسائٹی کو اس سوچ پر مجبور کر دیا ہے کہ اگر مستقبل میں NRC یا ECR جیسے اقدامات ملک گیر سطح پر نافذ کیے گئے تو عام شہریوں کو کس قسم کی مشکلات پیش آئیں گی؟ اس کا مستقل حل کیا ہو سکتا ہے؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر کھلے دل سے بات کی جائے، عوامی سطح پر مکالمہ ہو اور ایک ایسا متفقہ راستہ اختیار کیا جائے جس سے ہر شہری کا اندراج یقینی بنایا جا سکے۔
***
***
یہ ایک بنیادی اور اہم سوال ہے کہ اگر شہریت ثابت کرنے یا ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کے لیے درکار دستاویزات دستیاب نہ ہوں تو اس مسئلے کا حل کیا ہوگا؟ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سپریم کورٹ بہار اسمبلی انتخابات تک اس عمل کو روک دیتی ہے اور بعد میں اس کے دوبارہ آغاز کی ہدایت دیتی ہے، تب بھی دستاویز کی دستیابی یا عدم دستیابی کا سوال اپنی جگہ باقی رہے گا۔یہ سوال بھی نہایت اہم ہے کہ جب ریاست شہریت ثابت کرنے کے لیے کسی ایک مستند دستاویز کا تعین کرنے میں ناکام ہے تو اس کی عدم موجودگی پر کسی شہری کو سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟ چنانچہ ماہرین کی رائے ہے کہ اس طرح کی کسی بھی مشق پر عمل درآمد سے پہلے ملک کو اپنے سماجی ڈھانچے (سوشیل انفرااسٹرکچر) میں بھرپور سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ جب ریاست ہر شہری کی پیدائش کا سو فیصد اندراج، اور ہر بچے کے اسکول میں داخلے کو یقینی بنا لے تب جا کر ایسی مشقیں نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025