
اورنگزیب پر فلم‘چھاوا’اور جانبدارانہ تاریخ نویسی
اس فلم میں چھترپتی سنبھاجی مہاراج کی زندگی کے چند منتخب واقعات دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اورنگزیب ظالم اور ہندو مخالف تھا
رام پنیانی
تاریخ کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھا رہا ہے اور حالیہ برسوں میں اس میں کئی نئے مسائل بھی جوڑ دیے گئے ہیں۔ آر ایس ایس کی شاخوں، سوشل میڈیا، بی جے پی کے آئی ٹی سیل، مرکزی میڈیا، خاص طور پر کئی ٹی وی چینلوں کے ذریعے پروپیگنڈے کو فروغ دینے اور ذہن سازی کرنے کے علاوہ، اب فلموں کے ذریعے بھی سماج میں پھیلی غلط فہمیوں کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حالیہ ماضی میں کیرالا اسٹوری اور کشمیر فائلز جیسی فلموں نے سماج میں نفرت کو ہوا دینے کا کام کیا ہے۔ دیگر فلمیں جیسے سوتنتر ویر ساورکر، 72 حوریں اور سمراٹ پرتھوی راج وغیرہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ اب پورے ملک میں، خاص طور پر مہاراشٹر میں چھاوا فلم کے شوز ہاؤس فل ہو رہے ہیں اور نفرت کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ یہ کوئی تاریخی فلم نہیں ہے بلکہ شیواجی ساونت کے ناول چھاوا پر مبنی ہے۔ فلم میں دکھائی گئی کچھ غیر مستند باتوں کے لیے فلم کے پروڈیوسر پہلے ہی معذرت کر چکے ہیں۔
فلم میں چھترپتی سمبھاجی مہاراج کی زندگی کے چند منتخب واقعات کو دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اورنگ زیب ظالم اور ہندو مخالف تھا۔ کل 126 منٹ کی فلم میں تقریباً 40 منٹ سمبھاجی مہاراج پر کی گئی اذیتوں کو دکھانے پر صرف کیے گئے ہیں، اور اس پورے حصے میں فلم سازوں نے ایک خیالی داستان کے مصنف کی طرح من چاہی باتیں شامل کی ہیں۔ پوری داستان میں قرون وسطیٰ کی تاریخ کو ایک نرم مزاج ہندو راجاؤں اور ظالم مسلم راجاؤں کے ٹکراؤ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
سمبھاجی مہاراج، چھترپتی شیواجی مہاراج کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ شیواجی کی سلطنت میں کئی مسلم افسر بھی شامل تھے۔ مولانا حیدر علی ان کے معتمد خاص سکریٹری تھے اور ان کی فوج میں 12 مسلم جنرلز بھی شامل تھے، جن میں سدی سنبل، ابراہیم گارڈی اور دولت خان کے نام قابل ذکر ہیں۔ جب ان کا سامنا افضل خان سے ہونے والا تھا تو انہیں لوہے کے پنجے ساتھ رکھنے کا مشورہ دیا گیا، جو ان کے معاون رستم اے زماں نے دیا تھا۔ افضل خان کو ہلاک کرنے کے بعد، اس کے سکریٹری کرشن جی بھاسکر کلکرنی نے شیواجی پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
شیواجی پر حملہ کرنے والی اورنگ زیب کی فوج کے سپہ سالار راجہ جے سنگھ تھے۔ شیواجی کو اورنگ زیب کے دربار میں حاضر ہونے پر مجبور کیا گیا اور بعد میں قید کر لیا گیا۔ انہیں قید سے فرار ہونے میں مدد دینے والا شخص مداری مہتر تھا، جو ایک مسلم شہزادہ تھا۔
ہندوتوا نظریے کے بانی ساورکر اور گولوالکر سمبھاجی کے کردار پر انگلی اٹھاتے ہیں اور ان کی شراب و عورتوں کی رغبت کا ذکر کرتے ہیں۔ انہی عادات کی وجہ سے شیواجی نے انہیں پنہالا قلعے میں قید کر دیا تھا۔ بعد میں سمبھاجی نے شیواجی کے خلاف جنگ میں اورنگ زیب کا ساتھ دیا۔ سمبھاجی بیجاپور کے عادل شاہ کے خلاف جنگ میں بھی اورنگ زیب کے حلیف تھے۔
شیواجی کی وفات کے بعد اقتدار کے لیے جدوجہد میں، سمبھاجی کے سوتیلے بھائی (شیواجی کی دوسری بیوی سوئرا بائی کے بیٹے) نے انہیں زہر دینے کی کوشش کی۔ اس سازش کا پردہ فاش ہونے کے بعد سمبھاجی نے کئی ہندو افسروں کو قتل کروا دیا۔ اورنگ زیب کے ساتھ ہونے والی جنگ میں اورنگ زیب نے اپنے جنرل راٹھور کو بھیجا تھا۔ سمبھاجی کی گرفتاری کے بعد انہیں ذلیل کیا گیا اور اذیتیں دی گئیں، جنہیں فلم میں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔
فلم کے ذریعے اورنگ زیب کے بارے میں کئی روایات کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہیں اپنے مخالفین کے ساتھ انتہائی ظالم دکھایا گیا ہے۔ یہاں سوال الزامات کے جواب دینے کا نہیں بلکہ سلطنتوں کے نظم و نسق کے طریقوں کو سمجھنے کا ہے۔ بادشاہوں کا اپنے دشمنوں کے ساتھ بے رحمی سے پیش آنا عام بات تھی اور اس کے کئی تاریخی مثالیں موجود ہیں۔
تاریخ داں روچیکا شرما بتاتی ہیں کہ چول راجاؤں نے چالوکیہ فوج کو شکست دینے کے بعد ان کے جنرل سمندھر راج کا سر قلم کر دیا تھا اور اس کی حسین بیٹی کی ناک کاٹ دی تھی۔ اشوک کی کالنگا جنگ اپنی ہولناک سفاکیوں کے لیے مشہور ہے۔ بادشاہوں کا اپنے دشمنوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ عام بات تھی اور اسے آج کے معیارات پر پرکھنا مناسب نہیں۔
ہم آج کے واقعات کے بارے میں کیا کہیں گے جب مسلمانوں پر محض الزامات کی بنیاد بنا کر بلڈوزر سے ان کے گھروں کو زمین بوس کر دیا جاتا ہے؟
ہم اس ہندو راجہ کے بارے میں کیا کہیں گے جس کے قلعے میں بغاوت کرنے والوں کو ہاتھ پیر باندھ کر کھائی میں پھینک دیا جاتا تھا؟ بالا سامنت نے اپنی کتاب میں سورت کی لوٹ مار کے دوران شیواجی کی فوج کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم کی تفصیل دی ہے۔ فوج اور ظلم کا گہرا تعلق رہا ہے۔ سمبھاجی کی مرہٹہ فوج نے جب گوا پر حملہ کیا تو ایک
پرتگالی مؤرخ کے مطابق، "اب تک بھارت میں کہیں ایسی درندگی نہیں دیکھی گئی۔۔۔”
کیا اورنگ زیب ہندو مخالف تھا؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اورنگ زیب نہ تو اکبر جیسا تھا اور نہ ہی دارا شکوہ کی طرح آزاد خیال تھا۔ وہ ایک سخت گیر حکم راں تھا جو غیر سنی اسلامی مکاتب فکر اور بعض ہندو روایات کو ناپسند کرتا تھا، لیکن وہ اتحاد قائم کرنے میں ماہر تھا، اور اس کی انتظامیہ میں کئی ہندو افسر شامل تھے۔ جیسا کہ پروفیسر اطہر علی بتاتے ہیں، اورنگ زیب کے دور میں ہندو افسروں کی تعداد سب سے زیادہ (33 فیصد) تھی۔
یہ درست ہے کہ اس نے کئی مندر مسمار کیے، لیکن اس نے کاماکھیا دیوی (گوہاٹی) مہاکالشور (اجین) چترکوٹ بالاجی اور ورنداون میں کرشن مندر جیسے کئی مندروں کو مالی امداد بھی دی۔
اورنگ زیب نے 22 سال حکومت کے بعد جزیہ ٹیکس نافذ کیا، لیکن برہمنوں، معذوروں اور خواتین کو اس سے مستثنیٰ رکھا۔ یہ ٹیکس زبردستی مذہب تبدیل کروانے کے لیے نہیں تھا بلکہ ایک طرح کا مالیہ تھا جو 1.25 فیصد کے حساب سے وصول کیا جاتا تھا، جبکہ مسلمانوں کو 2.50 فیصد زکوٰۃ دینی پڑتی تھی۔
فرقہ پرست مورخین تاریخی واقعات کا چن چن کر استعمال کرتے ہیں اور مکمل سیاق و سباق کو نظر انداز کرتے ہیں۔ درحقیقت، بادشاہوں کا اصل مقصد مذہب نہیں بلکہ اقتدار اور دولت کا حصول تھا، اور وہ مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ تاریخ کو اس نظریے سے پیش کرنا جو تقسیم کو فروغ دے، ملک کے آئین کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
(بشکریہ : نو جیون انڈیا ڈاٹ کام)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 مارچ تا 29 مارچ 2025