انقلابکے لیے قرآن کا مطلوبانسان

عمارہ فردوس، جالنہ، مہاراشٹرا

اللہ رب العالمین نے انسان کو خلافت ارضی کا وارث بنایا ہے۔انسان کے زمین پر اترتے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا تھا: فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا خوف علیھم ولا یحزنون (سورہ بقرہ آیت 38) یہ اعلان دراصل خدائی فضل و احسان ہے۔ یہ اعلان زمین پر انسان کی مقصد تخلیق کا انکشاف ہے۔ یہ اعلان انسانی کامیابی و ناکامی کی ایک شرطیہ دستاویز ہے۔ یہ اعلان اللہ تعالٰی کی زمینی اسکیم کا باب ہے یا انسان کے ذریعہ اس پر برپا ہونے والے نظام اور اس کے تحت چلنے والے انتظام کی تمہید ہے۔
ہدایت ربانی کے پہنچانے کا خدائی انتظام تمام انبیاء کرام کے ذریعہ انجام پایا۔ آخر میں نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ قیامت تک یہ انعام ہمیں عطا فرمایا گیا۔ قرآن کا موضوع انسان ہے کیونکہ انسان کے قلب و ذہن کی تبدیلی سے ہی زمین کی تبدیلی ممکن ہے، زمین پر خدائی نظام کا چلانا اسی کے ذمہ ہے اسی لیے اللہ نے اس کے لیے زمین کی ہر چیز کو مسخر کردیا ہے۔ انسان کے بقا وتحفظ کے لیے اس نے دونوں جہانوں کی مخلوقات کو مقرر کیا جو خدائے بزرگ و برتر کے حکم کے مطابق انسان کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہے۔چاند کا طلوع ہونا سورج کا غروب ہونا، ہواوں کا چلنا، بارشوں کا برسنا ،زمین کا اناج اور غلہ پیدا کرنا ،بہاروں کا باغوں میں پھل اور پھولوں کا لانا اسی اسکیم کا حصہ ہے ۔
اس زمین کے انتظام کو خدائی نظام کے تحت چلانے کے لیے نبی آخر الزماںؐ پر یہ قرآن اللہ تعالیٰ نے اس ترتیب کے ساتھ اتارا کہ پہلی وحی اقرأ نے واضح کر دیا کہ یہ نظام سب سے پہلے عقائد و نظریات میں تبدیلی چاہتا ہے۔ یہ پہلا حکم گویا قرآن کا پہلا معجزہ ہے جس میں اسلام کا منتہائے مقصود پوشیدہ ہے۔ علم جو فکری و نظریاتی انقلاب کی اساس ہو گا، جو دلوں اور دماغوں کو تبدیل کرے گا، جس کے ذریعہ زمین پر ایک صالح اور پر امن انقلاب رو نما ہوگا۔ قرآن کے سائے میں یہ تبدیلی لائی گئی۔ ایک ایسی یکتا اور بے مثال جماعت اس قرآن نے تیار کی تھی جو چشم فلک نے پہلے کبھی دیکھی تھی اور نہ پھر کبھی دیکھ سکی۔ نبیؐ اور اصحاب نبیؐ نے اوراق قرآنی کے سارے احکام برت کر اور نافذ کرکے بتا دیے۔
قرآن کی تیار کردہ جماعت :
جس جماعت نے قرآن مجید کو اکتساب علم کا ذریعہ بنایا وہ تعلیم برائے تعمیل پر کاربند تھے نہ کہ تعلیم برائے تحقیق و تفریح؟ اسی لیے اس چشمہ صافی نے ان میں ایسا کردار پیدا کیا کہ وہ زمین پر چلتا پھرتا قرآن بن گئے ان کا ہر کھلا اور پوشیدہ عمل پکار اٹھتا کہ جو کتاب ہم سےکہہ دے وہی فیصلہ ہمارا بھی۔ پھر عمل کی سرعت کا یہ عالم کہ شراب حرام ہونے کی خبر پہنچی تو ہونٹوں سے لگے پیالے اسی وقت پھینک دیے اور شراب سے بھرے مٹکے جب توڑے گئے تو مدینہ کی گلیوں میں شراب پانی کی طرح بہنے لگی، جب فاعفوا کا حکم آیا تو ان کے جیسا کوئی حلیم نہ تھا جب خدائی تجارت کا انہیں علم ہوا کہ ایسی تجارت جو عذاب الیم سے بچانے والی ہیں تو ان کی جائیدادیں، ان کے باغات ان کے گھر سب کچھ اس راہ میں دے کر انہوں نے جنت کو خرید لیا اور جانوں کی قربانیاں تو یوں ادا کی گئیں کہ زمین و آسمان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ پیٹ سے نیزہ پار ہوا تو حق کے شیدائی نے اس دنیا سے جاتے جاتے زخمی زبان نے کہا فزت برب الکعبہ۔ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ نفوس اور اخلاق میں ایسا نکھار پیدا ہوا کہ جیسے ضمیروں کے اندر پولیس کی چوکیاں قائم ہوگئی ہوں۔ عدل کا یہ عالم کہ صوبوں کے گورنر اور حاکم وقت کی غلطیوں پر بھی حدود و سزائیں قائم کی گئیں۔ جفا کشی اور پامردی ایسی کہ خرگاہ باطل کی طنابیں کاٹ دی گئیں۔ تعلیم و تربیت میں وہ رنگ کہ تن نازک میں شاہین کے جگر پیدا ہوئے، رگ و پے میں وہ مستی کردار کہ آیات الٰہی کا پابند بننے میں نہ کوئی مال و متاع روک سکا، نہ کوئی اولاد کی محبت دیوار بن سکی اور نہ کوئی مادی بندشیں راہ کھوٹی کر سکیں۔ عمل کی یکسانیت ایسی کہ جن اصولوں کی تعلیم مسجد کے منبروں پر سے دی جاتی تھیں وہی اصول گھروں کی چار دیواری میں کار فرما تھے۔ درست اور نادرست کے پیمانے وہی برحق تھے جو رب العالمین نے پیدا فرمائے ہیں ۔
انہیں پاکیزہ نقوش کے سبب یہ زمانہ خیر القرون قرار پایا جن کو انقلاب عظیم اور کمال انسانیت اس بنا پر حاصل ہوا کہ قرآنی شریعت زمین پر نافذ ہونے سے پہلے خود ان کے قلب و ضمیر پر نافذ کی گئی۔ عقائد و نظریات پہلا ہدف تھا جس کے ذریعہ یہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہوا۔ یہ شریعت ان کے اعمال میں ڈھل کر عبادتوں میں شامل ہو کر تجارتوں میں رواں ہو کر تہذیب و تمدن کا حصہ بن کر خاندانی نظام میں نافذ ہو کر معاملات میں برت کر اور تمام شعبہ حیات میں شامل ہو کر ایک نظام کی شکل اختیار کر گئی۔ تب جاکر یہ قوموں کے امام بنائے گیے۔ یہ قیادت بطور انعام اللہ کے وعدے کے مطابق اس گروہ کو دی گئی جو خیر امت بن کر زمین پر برپا ہوئی تھی۔ ان مسافروں سے منزلوں کا یقیں جھلکتا تھا جو نظام حق کی راہ میں مہم جو، تن آسانی سے دور مقصد میں یکسو اور حکمت شناس، موقف پر ڈٹ جانے والے، انتھک کوششوں میں بغیر اکتاہٹ کے تیز گام رہنے والے قرآن کے مطلوبہ انسان تھے۔ ہر دور میں صالح انقلاب لانے کے لیے تاریخ کے اسٹیج پر ایسے ہی انسانوں کی ضرورت محسوس ہوئی جو قرآنی شعور انقلاب لاسکیں، جن کے اوصاف صالح انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔
خدا کا ترجماں ہوجا:
قرآن مجید بندگان خدا کو خدا کی بندگی کے اصول سکھانے والی کتاب ہے۔یہ اصول جب بندوں کی زندگی میں جاری و ساری ہو جاتے ہیں تو زمین خود بہ خود ان کو نافذ کرنے کے لیے ہموار ہو جاتی ہے۔ خدا اپنے نیک بندوں کے لیے مواقع اور امکانات روشن کرتا ہے۔ سید قطب شہید اپنی کتاب جادہ و منزل میں رقم طراز ہیں کہ اس نظام کی خوبی اس وقت تک نمایاں نہیں ہوسکتی جب تک اسے عمل کے قالب میں نہ ڈھالا جائے گا۔ پس یہ ضروری ہے کہ ایک امت عملاً اپنی زندگی اس کے مطابق استوار کر کے دکھائے۔ جب کوئی ایک گروہ یا زمین کے صالح عناصر ایک مضبوط جماعت بن کر امت وسط اور خیر امت کہلائے جانے کی حق دار ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے زمین کے انتظام کی باگ ڈور انہیں عطا فرماتا ہے۔یہ انقلاب کی وہ صورت ہو گی گویا جس میں انسانوں کی ایک جماعت نے قرآن کو اپنے ذہنوں اور قلوب پر نافذ کر کے یہ صالح تبدیلی کا خواب تعبیر بنتے دیکھا ہو۔
سبیل ہدی سے ہٹے نہ قدم:
یہ وہ قرآنی وصف ہے جس نے ایمان لانے کے بعد پہلا تقاضا اسی کا کیا ہے۔ قل آمنت باللہ ثم استقم کی عملی تفسیر بن کر جس نے بھی اس مشن کو اٹھایا وہ بامراد ہوا۔ اسی موقف نے حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کو ایسی سخت چٹان بنایا تھا کہ جس سے ٹکرا کر حضرت عمر جیسی شخصیت کے دل کی دنیا بدل گئی تھی۔
مصر میں ظالم حکومت کے زیر اثر اخوان المسلمون نے بیس بیس سال تک زنداں میں صعوبتوں کو برداشت کیا لیکن ان کے پائے استقلال میں کبھی تزلزل پیدا نہیں ہوا اور نہ اپنے نظریہ سے سمجھوتے کا خیال آیا۔ جیل کی تاریخ سید قطب جیسے اس مرد مجاہد کو ہمیشہ یاد رکھے گی جن کو صعوبتوں کے درمیان یہ مشورہ دیا گیا کہ اگر معافی مانگ لیں تو وزیر تعلیم مقرر کر دیے جائیں گے لیکن اس مرد مومن کو کوئی مادی ہوس اور رشوت رام نہ کر سکی۔ یہ وہ مطلوبہ کردار ہے جو قرآنی اور روحانی طاقت کے ذریعہ بندہ مومن میں نمودار ہوتا ہے ۔
یقین جن کا پختہ تر :
یقین کی قوت صراط مستقیم کے مسافروں کو نہ پست ہونے دیتی ہے اور نہ ہی مایوس۔ و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین کی بشارتیں ان کے ارادوں کو مزید استحکام بخشتی ہے چاہے باطل کی ریشہ دوانیاں کتنی ہی زور آور ہوں ان کا ایمان ہر آزمائش پر بڑھتا جاتا ہے۔ اسی یقین کے سائے میں حنین و بدر سجے تھے اور اسی یقین کے سامنے فراعنہ وقت زیر ہوئے۔ اسی یقین کو لیے ساحلوں پر کشتیاں جلائی گئیں اور اسی یقین کی بنیاد پر ہجرت کی تاریک رات میں تن تنہا نکلنے والے نبی امی حضرت محمد ﷺ نے اپنی جانب تیز رفتاری سے آتے ہوئے سراقہ کو دیکھ کر مضبوط ہدف اور ویژن کو طے کرنے والے الفاظ تاریخ کے ماتھے پر سجا دیے "سراقہ میں تمہارے ہاتھوں میں کسری کے کنگن دیکھ رہا ہوں” ۔۔۔۔کہاں تاریک رات، تنہا اپنے رفیق کے ساتھ گھر بار چھوڑنے پر مجبور، کفارو مشرکین کے گھیرے میں قرآنی مشن کا تنہا مسافر محض یقین کی قوت کے بل پر قیصر و کسری جیسی بڑی سلطنتوں کو قدموں میں دیکھ رہا ہے۔
جو امکانات کو انقلاب بنادے:
دین کا مزاج لیظہرہ علی الدین کلہ ہے ۔اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے کہ اسلامی فکر غالب حیثیت میں رہے۔ اسی لیے اس نے اپنے نبی کے لیے حالات کو موافق کیا اور آپ نے ان حالات کو جان کر اپنے مشن کو آگے بڑھایا۔ہر دور میں اس قرآنی مشن کے علم بردار سنجیدہ جدوجہد کرتے ہیں ردعمل سے پاک ہوکر مثبت عمل کی طرف راغب ہوتے ہیں۔خدا کے پیدا کردہ امکانات سے بھر پور فائدہ اٹھا کر ہی صالح تبدیلیوں کا خواب شرمند تعبیر ہو گا ورنہ سطحی قسم کی ہڑبونگ مچانے والی کیفیات اس مشن کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ وہ کیسے حق کے سپاہی تھے جو ہزاروں کی تعداد میں فتح کے پرچم ہاتھ میں لے کر مکہ میں داخل ہوئے تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ جب آگ روشن کی گئی تب مشرکین مکہ سمجھے کہ مسلمان مکہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ مشن اپنی راہ میں سنجیدہ سرگرمیوں کا طالب ہے اس انقلاب کی راہ میں جلد بازی اور نتائج کو فوراً طلب کرنا یا خود ساختہ قسم کی اچھل کود نہ سود مند ثابت ہو سکتی ہے اور نہ مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ۔ قرآنی انقلاب خدا کے پیدا کردہ مواقعوں کو سمجھ کر اور ان کو استعمال میں لا کر ہی ممکن ہو سکے گا۔
جو توکل کی پتوار کو تھام لیں:
توکل اس راہ کا پہلا ہتھیار ہے، یہ کمزور ہو تو راستے تنگ نظر آئیں گے، جہاں توکل مضبوط ہو گا راستے تنگ ہوتے ہوئے بھی منزلیں پناہ گاہ بن کر خود آگے بڑھیں گی۔ ہجرت مدینہ کے وقت اللہ کے نبی غار ثور میں پناہ لیتے ہیں دشمن تلواریں لیے غار کے منہ تک پہنچا لیکن آپؐ نے اپنے ساتھی ابو بکر صدیقؓ کو یہ کہہ کر ہمت بندھائی کہ لا تحزن ان اللہ معنا۔
غزوہِ ذات الرقاع میں ایک درخت کے نیچے آپؐ استراحت فرما رہے ہیں کہ آپ کی تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی ایک دشمن خدا کی نظر پڑی اس نے بڑھ کر آپؐ کی تلوار ہاتھ میں لے لی پھر آپ سے سوال کیا اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا۔ آپؐ نے پر عزم ہو کر فرمایا مجھے اللہ بچائے گا ۔آپؐ کے پر اعتماد جواب سے اس دشمن خدا نے تلوار نیچے کر دی۔ یہ توکل اس انقلاب کے راہیوں کے لیے وہ ہتھیار ہے جو ساری طاقتوں کے مقابلے میں بے خوف، بے باک اور نڈر بنا دیتا ہے۔
جو جفا کشی کا پیکر ہو:
اس راہ میں جو محنت مطلوب ہے یہ راہ کھپ جانے والوں کا تقاضا کرتی ہے ۔تن آسانیوں سے انقلاب ممکن نہیں۔ قرآن یہ مطالبہ کرتا ہے کہ یا ایھا الذین آمنوا کونوا انصار اللہ (سورہ صف) اے ایمان والو اللہ کے مدد گار بنو۔ اللہ کے انصار بننے سے مراد یہی کہ اس مشن کو رسولوں کی طرح انجام دو خدائی کام کو اپنا کام بنا کر تن دہی سے انجام دو۔ رسول نے جس طرح انقلاب برپا کیا اس انقلاب کے داعی بنو۔ یہ کام جفا کشی اور محنت طلبی کا ہے۔ یہ کام جس رسول کے ہاتھوں انجام پایا ان سے خالق کائنات فرما رہا ہے انا سنلقی علیک قولا ثقیلا ۔۔۔اور انا فی النھار سبحا طویلا۔ یہ دوڑ دھوپ، یہ کوششیں اور یہ تگ و دو ہی انقلاب کی آمد بن سکی۔ اس راہ میں یکسوئی مطلوب تھی اسی لیے قم اللیل الا قلیلا کی تلقین کی گئی۔ اب اس مشن کا ہر داعی اسی راہ سے گزر کر ہی کامیاب ہو گا۔ خدائی دین کو پہنچانے کی تڑپ اور خدائی کام کے تصور کی لذت اس طویل سفر کو بہت ہی پر کشش بنا دیتا ہے ۔
قرآن کتاب انقلاب ہے۔ یہ اپنے تھامنے والوں سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کی آیات ربانی ضمیروں پر اترنے لگے دماغوں کو اپیل کرنے لگے اس کی ہر آیت کا قاری اس کا مخاطب ہے، اس لیے ہر قاری قرآن بن جائے۔جب قلوب و اذہان میں انقلاب رونما ہو گا تو زمین کا انقلاب ہر ایک کی چوکھٹ پر ہو گا۔ قرآنی اوصاف سے متصف انسان ہی ایسے صالح انقلاب کی آمد کو ممکن بناتے ہیں۔ جن کی زندگیاں قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین کے مصداق گزرتی ہیں
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  16 اکتوبر تا 22 اکتوبر 2022