انشائیہ

لو ہم بھی ادیب بن گئے۔۔!

اقبال مجید اﷲ ،پربھنی مہاراشٹر

ایک عرصے سے ہم اس بات کے عادی ہوچکے ہیں کہ ہر نئے سال کے آغاز میں اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم نے اس گذرے ہوئے برس میں کونسے کام انجام دیے اس کے ساتھ ہی اُن ادھورے کاموں کا بھی جائزہ لیتے ہیں جن کی تکمیل ہم کر نہیں پائے تاکہ نئے سال میں اپنے کاموں اور اُن کی ترجیحات کا صحیح طور پرتعین کرسکیں۔اب کی بار انہیں ترتیب دینے میں ہمارے ایک قریبی دوست جنہیں ہم نہایت عزیز رکھتے ہیں جو اپنے تدبر اور بصیرت کی وجہ سے اپنے حلقہ احباب میں تدبیر جامعی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ چونکہ وہ ادب کا شستہ ذوق رکھتے ہیں اس لیے ہم بالخصوص ادب کے معاملات میں نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ مقدور بھر اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اُن سے ہمارا رشتہ کافی پرانا ہے اور وہ ہمارے بچپن کے ساتھی ہیں اور اسی وجہ سے ہم اُن کی کوئی بات بھی ٹال نہیں سکتے اور اس بات کا انہیں بھی بخوبی احساس ہے۔ تدبیر جامعی ہماری اس عادت سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمیں مطالعہ کا بے حد شوق ہے اور ہم اپنا زیادہ وقت اسی کی نذر کرتے ہیں ۔ اپنے اس شوق کو پورا کرنے کی خاطر ہم نے کثیر تعداد میں کتابیں اور رسائل جمع کررکھے ہیں اور اپنے چھوٹے سے کمرہ میں ان کا انبار لگا رکھا ہے۔ اِن کتابوں سے ہمارا چالیس سال کا تعلق ہے یہ کتابیں زندگی میں بہترین رفیق ثابت ہوچکی ہیں اور ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔تدبیر جامعی اس حقیقت سے بھی واقف ہیں۔ انہیں کتابوں کو لے کر اکثر شریک حیات سے ہماری ٹھنی رہتی ہے۔ اِن کتابوں کا انہیں کوئی مصرف نظر نہیں آتا ۔ ان کتابوں سے ہمارا جو جذباتی لگاؤ ہے اُس کا انہیں کوئی احساس نہیں بلکہ وہ اس پہلو سے سوچتی ہیں کہ کیسے ان کتابوں کو ہٹا کر دوسری ضروری اشیاء رکھنے کے لیے جگہ بنائی جائے اور ان کتابوں کے انبار سے چھٹکار حاصل کیا جاسکے۔اس بار نئے سال کے شروع میں تدبیرجامعی نے یہ مخلصانہ مشورہ دیا کہ ہم عمیق مطالعے اور کتب بینی کے بجائے لکھنے کی طرف توجہ دیں اور اپنی صلاحیتیں جو کچھ باقی رہ گئی ہیں اسی کے لیے استعمال کریں۔ اپنی اس رائے کو اور زیادہ مستحکم بنانے کے لیے انہوں نے یہ دلیل پیش کہ ہماری ادبی تاریخ میں سنجیدہ قاری کی نہ کوئی شناخت ہوتی ہے اور نہ اسے کسی عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے اس حیثیت سے جاناجاتا ہے یا اُس کا تعارف ادبی حلقوں میں اس طرح کروایا جاتا ہے کہ یہ ادب کے سنجیدہ قاری ہیں اور ادب اور شاعری پر اُن کی گہری نظر ہے۔ بر خلاف اس کے اگر تمہاری کوئی تحریر خواہ وہ کسی بھی معیار کی ہو کسی رسالہ یا اخبار میں شائع ہوجاتی ہے تو اُس کے ہزاروں پڑھنے والے تمہارے نام سے واقف ہوجاتے ہیں اور تمہارا شمار بحیثیت ایک تخلیقی فنکار کیا جانے لگتا ہے۔ اور تم یہ بخوبی جانتے ہوکہ سنجیدہ قاری اور تخلیقی فنکار میں کیا فرق ہوتا ہے تدبیر جامعی کے اس گراں قدر مشورہ کو سُن کر تھوڑی دیر کے لیے ہم بھی ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار ہوگئے ۔ایک ادیب بننے اور رسائل میں اپنی تخلیقات مع تصویر کے چھپوانے کی ہماری دیرینہ خواہش جو دل کے کسی نہال خانے میں نہ جانے کب کی دم توڑ چکی تھی اس میں زندگی کے آثار رونما ہونے لگے اور ایسی خوشی محسوس ہوئی جو عام طور پر اُس چیز کے ملنے پر حاصل ہوتی ہے جس سے ہم بڑی حد تک مایوس ہوچکے ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے اپنا معروضہ یوں پیش کیا کہ تخلیقی صلاحیت تو خداداد نعمت ہوتی ہے جو ہر کسی کے حصہ میں نہیں آتی بلکہ پروردگار جسے چاہتا اسی کو نوازتا ہے۔ تدبیر جامعی نے اس بات کو سن کر اپنے مخصوص انداز میں ہماری طرف دیکھا اور یوں گویا ہوئے کہ تم لوگوں کی یہی سوچ دراصل تمہارے فنکار بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس بات کو اگر مان بھی لیا جائے کے تم میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان ہے اور اس نعمت خداوندی سے محروم ہو مگر اس کو پوراکرنے کے لیے مختلف ترکیبیں بھی تو اختیار کی جاسکتی ہیں تدبیر نے نہایت دانشورانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تم نے ریمیک اور ریکمس کی اصطلاحات تو ضرور سن رکھی ہیں اس جدید تکنیک کا ان دنوں ہماری فلموں اور گیتوں میں بھر پور استعمال کیا جارہا ہے اسے دیکھتے ہوئے اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ کیوں نہ اس تکنیک کا استعمال ہمارے ادب میں بھی رائج کیا جانا چاہیے۔اس نئی تکنیک کی رفتار کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں ہمارے ادب کے نظریات یکسر بدل جائیں گے اور ادب و اوریجنالیٹی وغیرہ سب اپنا مفہوم کھو دیں گی اور خالص تخلیقی ادب جو بیسویں صدی میں کمیاب تھا وہ شاید اکیسویں صدی میں نایاب ہوجائے گا۔
تدبیر جامعی کے اس مشورے کو ابھی ہم پورے طور پر سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ انہوں نے مزید استدلال کے ساتھ اپنی بات کو آگے بڑھایا کہ ہمارے شہر میں کئی کتب خانے ایسے ہیں جہاں الماریوں میں اُردو ادب کی پرانی ونایاب کتابیں بڑی تعداد دھول سے اٹی پڑی ہیں جنہیں آج پڑھنے والا کوئی نہیں ہے۔ تم ان کتابوں کو وہاں سے بآسانی حاصل کرسکتے ہو پھر کچھ تخلیقات منتخب کرکے معمولی ردوبدل اور عنوان میں تبدیلی کے ساتھ انہیں اپنا نام دے سکتے ہوں۔ تمہیں یوں بھی ڈوب کر مطالعہ کرنے کی عادت ہے۔ اس طرح تم اس نایاب ذخیرہ تک بہ آسانی پہنچ سکتے ہو جہاں آج نئی نسل پہنچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ تمہیں رفتہ رفتہ اس کا م میں اتنی مہارت حاصل ہوجائے گی کہ اگر اصل تخلیق بھی سامنے آجائے تو اس کے سامنے پھیکی نظر آئے۔اگر اس پر اعتراض بھی ہوجائے تو بہ آسانی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ممکن ہے مرکزی خیال میں کچھ مشابہت ہو اور اسے محض اتفاق ہی سمجھا جائے۔ اب ادب تخلیقی عمل نہ رہ کر ایک میکانکی عمل بن چکا ہے جس میں کہانی اس کے کرداروں اور واقعات کہ تسلسل کو اپنے انداز میں ڈھالنا پڑتا ہے۔اب فنکار کے بارے میں اسطرح کے مفروضات کہ ہر تخلیق ، تجربے یا احساس کا اظہار ہوتی ہے جس سے تخلیقی فنکار دوچار ہوتا ہے اب بے معنی نظر آنے لگتے ہیں۔ تدبیر نے اپنے سلسلہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی تخلیقات کو جنہیں تم بغیر کسی تخلیقی صلاحیت کے صرف اپنی ہوشیاری اور چالاکی کو بروئے کار لاتے ہوئے اُن سے اکتساب کرتے ہیں تو ہم اسے ،اکتسابی ادب کے نام سے موسوم کرسکتے ہیں اور اس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ہم بلاشبہ اپنے ادب میں ایک نئی صنف کا اضافہ بھی کرسکتے ہیں جس کے امکانات اب واضح طورپر نظر آنے لگے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ دس بیس برسوں میں اس صنف کاجسے ہم اکتسابی ادب کہہ سکتے ہیں ہمارے ادب میں ایک مقام حاصل ہوجائے گا۔ اوراسے ادب کی ایک نئی صنف کے طور پر پہچانا جائے گا۔ تدبیرجامعی نے اِس کے امکانات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے لیے ایک بہترین موقع ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے ادب میں اپنی شناخت بنالو۔ پتہ نہیں بعد میں اور کتنے فنکار اس کی طرف راغب ہوجائیں۔ اس نئی صنف ادب کے دیگر رموز و نکات مدلل انداز میں اُجاگر کرتے ہوئے تدبیر جامعی نے یہ مخلصانہ مشورہ بھی دے ڈالا کے پرانے ادب اور پرانی کتابوں سے اکتساب کرنے کے اس عمل کو جہاں تک ہوسکے نثر کی حد ہی محدود رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ پرانی غزلیں اور اشعار اکثرلوگوں کے حافظہ میں رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ تمہاری اس نوعیت کی کوئی کوشش کسی صاحب ذوق کی نظر میں آجائے گو کہ ان دنوں اس طرح کے قاری جو شاعری پراتنی گہری نظر رکھتے ہوں ان کے پائے جانے کے امکانات بہت ہی موہوم ہیں۔
اکتسابی ادب کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو اور اس کے ہمارے ادب میں
روشن مستقبل کا جائزہ لینے کے بعد تدبیر جامعی یہ نصیحت بھی کرگئے کہ ہمارے لیے یہ بہترین موقع ہے ہم اس تکنیک سے استفادہ کرتے ہوئے اس نئی صنف ادب میں اپنا ایک مقام بنائیں جس کے حوالے سے ہماری شناخت کی جاسکے جس طرح ہمارے یہاں جدیدیت کے ذریعہ اور مابعد جدیدیت کے وسیلے سے کئی لوگ پہچانے گئے۔بس تھوڑی سی محنت کے ذریعہ ہم بھی یہ رتبہ پاسکتے ہیں۔ ہمیں اس کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور قطعی طور پر مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
تدبیر جامعی نے نہ صرف ہمیں صنف اکتسابی اور موجودہ دور میں اُس کی اہمیت کو اجاگر کرنے پر ہی اکتفا کیا بلکہ ادب اور ادبی حلقوں میں اپنا الگ باوقار مقام بنانے کے لیے بیش بہا نسخے بھی بتا گئے جو واقعی نئے لکھنے والوں اور خاص طور پر اُن کے لیے جو اسی کے لیے کوشاں ہیں کافی مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
۱) جب بھی کسی ادبی رسالہ کی اشاعت شروع ہوجائے تو اسے فوری سالانہ چندہ اور ایک توصیفی خط اُس رسالے کے مدیر کے نام روانہ کردو جس میں یہ ضرور لکھو کہ آپ کی یہ کوشش اُردو ادب کی تاریخ میں سنہری لفظوں سے لکھی جائے گی۔ اور اس جریدے کو ہر حال میں جاری رکھنا چاہیے تاکہ ہمارے ادب کی تاریخ میں آپ کا نام زندہ اور آنے والی نسلیں آپ کو اس حوالے سے یاد رکھ سکیں کہ میں آپ کے اس جریدے کے لیے نئے خریدار فراہم کرتا ہوں۔ اس علاقہ میں چونکہ میرے وسیع تعلقات ہیں اس کے لیے دس بیس خریدار جمع کرنا میرے لیے دشوار نہیں۔ اُس کے اس تعارف کے بعد اپنی تخلیقات انھیں روانہ کروآپ کی تخلیقات ضرور اس جریدے میں شائع ہوا کریں گی۔
۲) اپنی تخلیقات کو کمپیوٹر پر ٹائپ کروالو، اور اس کی کاپیاں ملک کے آٹھ دس معیاری، غیر معیاری رسالوں، اخباروں کو معہ اپنی تصویر کے اشاعت کے لیے روانہ کردو اس طرح تمہاری تخلیقات سے ملک کے کونے کونے میں پڑھنے والے واقف ہوجائیں گے۔ اس کے لیے خاص طور پر ایک نئے انداز کی جس میں اپنے بالوں کوشانوں پراس طرح پھیلا کر سگار ہاتھ میں لیے اپنے کاندھے پر ایک شال اُوڑھے ہوئے بالکل آنسٹائین کی طرح تصویر کھنچوالو اس بات کا خیال رہے کہ اس سے تمہارا دانشورانہ انداز صاف نظر آئے۔
۳) اپنی گفتگو کا لہجہ بھی یکسر بدل ڈالو اور بات چیت کے دوران اپنے لہجے کے اُتار چڑھاؤ کے ذریعہ اس بات کا پورا خیال رکھو کہ سامنے والا تمہارے اس انداز سے مرعوب ہوجائے اورجہاں تک ہوسکے کم گفتگو کرو۔
۴) جب بھی کسی محفل میں شرکت کرو اپنے ہاتھ میں ایک ضخیم سی کتاب رکھ لو۔ اگر یہ کتاب انگریزی میں ہوتو زیادہ بہتر ہے کوئی اگر اس کتاب کے بارے میں پوچھے تو دانشورانہ لہجہ میں کہو میں اِن دنوں عصری امریکی شاعری پر نائن الیون کے اثرات کا مطالعہ کررہا ہوں کیونکہ مجھے اس پر ایک تحقیقاتی مقالہ تحریر کرنا ہے ۔مگر اس موضوع پر زیادہ گفتگونہ کروہوسکتا ہے کہ پوچھنے والے کی اس پر گہری نظر ہو اور وہ تم سے کوئی سوال کر بیٹھے اور تمہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔
۵) کبھی یہ طریقہ بھی اختیار کرو کہ جب تم اپنے احباب کے ساتھ محو گفتگو ہوں اور درمیان میں اپنے سیل فون پر اس طرح بات چیت شروع کردو کہ فون تمہیں کسی نے باہر سے کیا ہو اُس سے کہوکہ اِن تاریخوں میں ممبئی نہیں آسکتاکیونکہ اُس وقت ایک ریکارڈنگ کے سلسلے میں دہلی جارہا ہوں وہاں سے ممکن ہے ایک سیمنار میں شرکت کے لیے لکھنو چلا جاؤں۔اُس کے بعد ہی میں ممبئی آسکوں گا۔ فون پر اس طرح کی بات چیت سن کر ظاہر ہے تمہارے احباب میں مزید تفصیلات جاننے کا تجس بڑھے گا۔ تو بے نیازی کے ساتھ انہیں بتادو کہ ممبئی کی ایک تنظیم اپنے پروگرام میں شرکت کے لیے اصرار کررہی ہے مگر چونکہ میں دہلی جارہا ہوں اور اُن لوگوں کو پہلے اپنی شرکت سے مطلع کرچکا ہوں اس لیے ممبئی نہ جاسکوں اور اسی طرح تمہارے دہلی جانے کی خبر سارے شہر میں پھیل جائے گی۔اور لوگ تمہارے ادبی مقام سے واقف ہوجائیں گے۔ اس کام کے لیے تھوڑی سی اداکاری چاہیے اور وہ تمہارے لیے زیادہ مشکل نہیں۔
موبائل 9420816696:
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023