انسانی معاشرے میں ظلم کی شناخت اور اسلامی حل پر ایک قابل مطالعہ کتاب

0

نام کتاب: ظلم کے ازالے میں اسلام کا کردار
مصنف: محمد جرجیس کریمی
ناشر: ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ
اشاعت: 2024ء
صفحات : 216
قیمت: 200 روپے
مبصر: ابو سعد اعظمی
(ادارہ علوم القرآن، شبلی باغ، علی گڑھ)

مولانا محمد جرجیس کریمی گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں بطور اسکالر ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ میں حاضر ہوئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ بحث و تحقیق ہی حاصل زندگی قرار پایا۔ ان کے قلم گہر بار سے پندرہ سے زائد کتابیں اب تک شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سے بعض کتابوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔ موضوع کی انفرادیت نیز معروضیت کی وجہ سے علمی حلقوں میں کافی مقبول ہوئیں۔ جرائم اور اسلام (انسداد کی تدابیر اور علاج) قرآن مجید اور مستشرقین: غلط فہمیوں کا جائزہ، اسلام کی امتیازی خصوصیات وغیرہ ان کی مقبول عام کتابیں شمار ہوتی ہیں۔
زیر تعارف کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول ظلم و استبداد کے شکار طبقات، باب دوم ازالہ ظلم کے لیے کی جانے والی کوششیں، باب سوم انسانوں پر ظلم – اسلام کا نقطۂ نظر، باب چہارم دفاع کا حق اور اس کی شرعی حیثیت، باب پنچم عدل اور مساوات اسلام کی دو بنیادی قدریں کے عنوان سے ہے۔ متعدد ابواب میں کئی فصول بھی ہیں جن کے تحت موضوع کے تمام ابعاد کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
باب اول میں چھ فصلیں ہیں۔ اس میں ظلم و استبداد کے شکار طبقات یعنی مزدور، بچے، عورتیں، قیدی، دلت اور مسلم اقلیتیں مظلومیت کی جس کش مکش سے دوچار ہیں ان کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے موجودہ صورتحال بھی اعداد و شمار کے تناظر میں واضح کی گئی ہے۔ مصنف کے اس احساس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ ظلم و استحصال کا سب سے زیادہ شکار صدیوں سے مزدور طبقہ رہا ہے۔ ان کا سماجی، معاشی، سیاسی، جنسی استحصال ہوتا چلا آرہا ہے۔ مصنف کے الفاظ میں ’’کہنے کے لیے تو دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہوگیا ہے، ہر انسان آزاد ہے لیکن آج بھی ایک بڑی آبادی کارخانوں، فیکٹریوں، کانوں، اینٹ بھٹہ اور دیگر ملازمت کے مقامات پر غلامی یا نیم غلامی کی زندگی جی رہے ہیں جسے بندھوا مزدوری کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق تین لاکھ سے زیادہ مزدور بندھوا مزدوری اور جدید غلامی کے شکار ہیں‘‘۔ (ص۲۶)
فاضل مصنف نے مزدوروں کے تئیں تہذیب و تمدن کی علم بردار موجودہ دنیا کے حقیقی رویہ اور ان کے استحصال کی عصری صورتوں کو مختلف عناوین مثلا جبری مشقت، زیادہ وقت کام لینا، اجرت دینے میں ٹال مٹول، تشدد، جنسی استحصال اور اغوا کے ذیلی عناوین سے خوبصورت ترجمانی کی ہے۔ فاضل مصنف کا احساس ہے کہ ’’ان مزدوروں کے استحصال کی جڑ مادیت اور مال و دولت کی حرص و طمع ہے جس پر عصر حاضر میں سرمایہ داروں کی حکومت ہے۔۔۔ ماضی قریب میں جاگیرداروں نے کسانوں، مزدوروں اور کمزور طبقہ پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی جس کے رد عمل میں انقلابات رونما ہوئے۔ آج وہی تاریخ سرمایہ دار دہرارہے ہیں بلکہ حالات اس سے بھی بدتر ہیں‘‘۔ (ص۳۳)
(ص۳۶-۵۳) مصنف نے عورتوں اور بچوں پر ظلم، ان کے استحصال، تشدد اور جنسی زیادتی سے متعلق مہذب دنیا کے بعض حیرت انگیز اعداد و شمار نقل کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ ۱۴۷ خواتین اپنے قریبی رشتہ داروں کے ذریعے قتل ہو رہی ہیں۔ ۱۵ سال سے زائد عمر کے سات سو چھتیس ملین خواتین یعنی تین میں سے ایک خاتون اپنوں یا غیروں کی طرف سے جنسی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہیں (ص۳۷)۔ مصنف کا یہ احساس حقیقت پر مبنی ہے کہ موجودہ دور میں خواتین مردوں کے زیر تسلط معاشرے میں ہر طرح کے ظلم و استحصال کی شکار ہیں اور نیم غلامی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ (ص۴۲)
ظلم و استحصال کا شکار ایک بڑا طبقہ قیدیوں کا ہے۔ مصنف نے ایک رپورٹ کے حوالہ سے صراحت کی ہے کہ ’’۲۰۱۷ء میں ہندوستان میں انسانی حقوق کی بہت خلاف ورزیاں ہوئی ہیں جن میں ماورائے عدالت قتل، گمشدگیاں، ایذا رسانیاں، عصمت دری، جیلوں میں سخت اور خطرناک حالات میں حراستیں، غیر قانونی گرفتاریاں اور حراستی اموات قابل ذکر ہیں۔ (ص۵۶) اس ضمن میں دلتوں اور مسلم اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کی بھی تصویر کشی کی گئی ہے اور اعداد و شمار کی روشنی میں حقائق کو پیش کیا گیا ہے۔
باب دوم ازالہ ظلم کے لیے کی جانے والی کوششوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس سیاق میں مصنف نے گزشتہ دو صدی سے دنیا میں رائج نظامہائے زندگی سرمایہ داری، اشتراکیت، جمہوریت اور فاشزم کا جائزہ نیز ان نظریات کی بنیادی فکر، عناصر ترکیبی اور تلخ نتائج کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مغربی تہذیب کے اساسی عناصر ترکیبی پر مصنف نے ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے کہ ’’مغربی تہذیب کوئی نئی تہذیب نہیں ہے بلکہ یہ صدیوں بلکہ ہزاروں سالوں پر محیط تہذیب ہے جس کا نسبی تعلق یونانی اور رومی تہذیب سے ملتا ہے۔ بادی النظر اور سطح بین آنکھوں سے سرمایہ داری، فاشزم اور اشتراکیت کے درمیان فرق نظر آتا ہو مگر حقیقت میں اس کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے‘‘۔ (ص۸۰)
مغربی تہذیب کی ناپائیداری پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف کا احساس ملاحظہ ہو: ’’روشن خیالی کے ساتھ مغرب میں مادہ پرستی کی وبا بھی پھوٹی۔۔۔ مادہ پرستی کے سیلاب نے مذہب کے باقی ماندہ اقدار اور اخلاقی اصولوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا اور انسانی وجود کا بنیادی مقصد حصول زر اور جلب منفعت بن گیا۔ اسی فلسفہ زندگی نے نیکی اور بدی کی بنیادوں کو ہلا ڈالا۔ اب نیکی وہ ہے جس میں مادی فائدہ حاصل ہو اور بدی وہ ہے جس میں مادی نقصان ہو‘‘۔ (ص۸۱)
ظلم کے ازالہ میں جمہوریت کی نارسائی اور اس کی ناکامی کے اسباب کا خوبصورت تجزیہ کیا ہے۔ رقم طراز ہیں: ’’۔۔۔ملک کے معاشی ذرائع پر اسی حکم راں پارٹی کا قبضہ ہوتا ہے۔ پریس، عدالتیں، پولیس اور مسلح افواج اسی برسر اقتدار پارٹی کی محافظ بن کر سامنے آتے ہیں۔ نظام تعلیم، سماجی ڈھانچہ سب برسر اقتدار طبقے کی چاکری کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کے مظلوم طبقات، ظلم کے خلاف آواز بلند کرکے کوئی خوش کن تبدیلی لانا چاہیں تو وہ سارے راستے بند پاتے ہیں۔ پریس، میڈیا اور ذرائع ابلاغ حکومت کے اشاروں پر کام کرتے ہیں حتیٰ کہ عدالتیں بھی عدل و انصاف کے دامن کو چھوڑ کر حکم راں طبقے کی خوشامد اور چاپلوسی کرتی ہیں‘‘۔ (ص۸۳) مصنف نے اسی ضمن میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی زبوں حالی کے اسباب کا بھی خوبصورت تجزیہ کیا ہے نیز ظلم کے ازالہ کے لیے برپا تحریکات کی ناکامی کے اسباب و وجوہ کی بھی نشاندہی کی ہے۔
بابِ سوم ’’انسانوں پر ظلم: اسلام کا نقطہ نظر‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ظلم کی تین قسمیں قرار دیتے ہوئے شرک، کفر اور نفاق کو ظلم کی اولین شکل قرار دیا گیا ہے۔ گناہ کی تمام اقسام کو دوسری، اور دوسروں پر ظلم و زیادتی کو اس کی تیسری قسم قرار دیتے ہوئے اسے ہی کتاب کا اصل موضوع قرار دیا گیا ہے۔ مختلف ذیلی عناوین، مثلاً: کسی کا ناحق قتل کرنا، لوگوں کو غلام بنانا، لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالنا، نسلی و جنسی تفریق، کمزوروں کا قتل، عبادت گاہوں کو منہدم کرنا، مالی استحصال، ناروا جذبہ مسابقت، مظلوم سے نفرت اور اس کا استحصال — ان سب پر ایجاز کے ساتھ اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔
اس ضمن میں ظالم کے مزاج اور ذہنیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے، ظلم اور ظالم سے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کے نقطہ نظر کی مدلل انداز میں ترجمانی کی گئی ہے۔ ص: ۱۲۴ پر ظالم کی نفسیات کا بہترین تجزیہ ہے اور اس کی پشت پر کارفرما عناصر کی توجیہ کی گئی ہے جبکہ ص: ۱۲۹ پر ازالہ ظلم کے سلسلے میں اسلام کے بیانیے کی ترجمانی کی گئی ہے۔
بابِ چہارم جو قدرے مختصر اور صرف دس صفحات پر مشتمل ہے اس میں دفاع کی مشروعیت اور اس کے شرائط کے ذیلی عناوین سے دفاع کے حق اور اس کی شرعی حیثیت سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔
آخری باب جو قدرے طویل اور تقریباً ساٹھ صفحات پر مشتمل ہے اس میں اسلام کی دو بنیادی اقدار عدل اور مساوات پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عدل و انصاف کے قیام پر زور دیا گیا ہے۔ عدل و انصاف کی اہمیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انسان کی دنیوی زندگی میں عدلِ الٰہی کے مظاہر کی نشان دہی کی گئی ہے۔ قرآنِ کریم میں "عدل” کن معانی میں استعمال ہوا ہے، اس کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے (ص: ۱۵۲-۱۵۳) اور اسلام کے نظامِ عدل و انصاف کی امتیازی خصوصیات کو اجاگر کیا گیا ہے (ص: ۱۶۸-۱۷۰)۔
بابِ پنجم کی فصلِ دوم میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مساوات کے قیام پر زور دیتے ہوئے: خاندان و نسب، رنگ و قومیت، زبان و علاقائیت، پیشہ و حرفت، مال و اولاد اور علم و فن کو عدمِ مساوات کے عوامل و اسباب کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مختلف ذیلی عناوین کے تحت مساوات کی اسلامی بنیادوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مسلم معاشرے میں عدمِ مساوات کی جو فضا نظر آتی ہے اور ذات برادری کی تقسیم کی وجہ سے ذہن میں جو اشکال پیدا ہوتا ہے مصنف نے اس کا ادراک کرتے ہوئے مختلف نکات کے ذریعہ اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
مصنف کے الفاظ میں:
’’مسلمانوں کے طرزِ عمل کو کبھی بھی اسلام کا ترجمان نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کا طرزِ عمل ایک چیز ہے اور اسلام کی تعلیمات دوسری چیز ہیں۔ ذات پات کے تصور کے ضمن میں ہی نہیں بلکہ اور بھی دوسرے پہلوؤں سے مسلمانوں میں بے شمار عملی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔‘‘ (ص: ۲۰۷)
مصنف نے واضح کیا ہے کہ:
’’ذات پات کا تصور اسلامی تعلیمات کا حصہ نہیں ہے جبکہ ہندو مذہب میں طبقاتی تقسیم مذہب کا حصہ ہے۔‘‘ (ص: ۲۰۷)
کتاب اپنے موضوع پر عمدہ تصنیف ہے۔ ظلم کے ازالے میں اسلام کے کردار کو مدلل انداز میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ کہیں کہیں تشنگی کا احساس ہوتا ہے بالخصوص آخری باب میں عدل و مساوات کی اسلامی تعلیمات اور ان کے مظاہر پر تو تفصیلی گفتگو ہے لیکن ظلم کے ازالے میں ان کی کیا اہمیت ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلم حکم رانوں نے عدل و انصاف اور مساوات کے ذریعہ کس طرح ظلم کے ازالے کی کامیاب کوشش کی ہے اس پر مزید تفصیلی گفتگو کی ضرورت تھی۔
اسی طرح مسلم ممالک کی موجودہ صورتِ حال پر جدید ذہن میں جو شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کے ازالے کی بھی کوشش ہونی چاہیے تھی۔ بہرحال اہم تصنیف پر مصنف قابلِ مبارک باد ہیں۔ امید ہے کہ علمی حلقوں میں اس کے مباحث غور و فکر کا موضوع بنیں گے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 مئی تا 17 مئی 2025