انتخابات کا موسم آیا ہے

ریاست تلنگانہ میں ترقی کے دعوے لیکن متوسط گھرانے بے حال

زعیم الدین احمد حیدرآباد

ہندوستان میں انتخابات کو عید کے طور پر منایا جاتا ہے، بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عیدوں کو بھی انتخابات کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے ہی انتخابات آتے ہیں بے روزگار نوجوانوں اور غریب عوام کو چند دن کا روزگار مل جاتا ہے۔ ریلیوں میں، جلسوں میں بھیڑ دکھانے کے لیے پیسے دے کر ان غریب عوام کو لایا جاتا ہے۔ چنانچہ اگلے چھ ماہ دھماکے دار انتخابی مہمات سے ملک کا ماحول گرم رہنے والا ہے۔
ملک کی نئی ریاست تلنگانہ میں بھی سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ریاست کا سیاسی پارہ آہستہ آہستہ چڑھ رہا ہے، برسر اقتدار بی آر ایس نے انتخابی مہم کا باضابطہ آغاز کر دیا ہے۔ ریاست میں جملہ ایک سو انیس اسمبلی نشستیں ہیں، ان میں سے سو نشستوں پر بی آر ایس کا قبضہ ہے۔
تلنگانہ ریاست کو قائم ہوئے ابھی دس سال ہی ہوئے ہیں، علحیدہ ریاست کی جدو جہد کرنے والی جماعت کے طور پر بی آر ایس کافی مضبوط سیاسی جماعت مانی جاتی ہے۔ اس جماعت کے سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کو ریاست کا ہی نہیں بلکہ ملک کا ایک مشہور و مقبول لیڈر مانا جاتا ہے۔ وہ اپنی سیاسی چالوں سے اچھے اچھوں کو پچھاڑ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، چنانچہ انہوں نے انتخابات کا بگل بجا دیا ہے اور اپنے حریفوں کو حیرت میں ڈالتے ہوئے آنے والے اسمبلی انتخابات میں ان کی پارٹی کی طرف سے حصہ لینے والے ایک سو پندرہ امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے انتخابات کی پوری تیاری کر رکھی ہے۔ ادھر ان کی سب سے بڑی حریف جماعت کانگریس نے بھی اپنے کچھ امیدواروں کے ناموں کی فہرست جاری کردی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ان کی سب سے بڑی سیاسی حریف بی جے پی رہے گی اور ریاست میں کانگریس کا کہیں وجود دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ لیکن یکایک کرناٹک میں جیت درج کرنے کے بعد کانگریس میں جان آگئی ہے اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس ہی بی آر ایس کی اصل حریف رہے گی۔ ہمیشہ کی طرح بی آر ایس امیدواروں کی فہرست میں اعلیٰ ذاتوں کی برتری کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اٹھاون امیدواروں کا تعلق اعلیٰ ذاتوں سے ہے، جن میں ریڈی طبقے سے چالیس امیدوار میدان میں ہیں، اسی طرح چندر شیکھر راؤ جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس طبقے کے گیارہ امیدوار میدان میں ہیں، کما کے چار، برہمن ایک اور ایک بنیا طبقے کا امیدوار میدان میں ہے۔ ایس سی طبقے کے بائیس، ایس ٹی طبقے کے بارہ، مسلم تین اور دیگر ادنیٰ طبقات کے بائیس امیدوار میدان میں ہیں۔ جبکہ ریاست میں طبقات کا جو تناسب پایا جاتا ہے وہ اس طرح ہے: ایس سی سترہ فیصد، ایس ٹی گیارہ فیصد، دیگر ادنیٰ ذاتیں جن میں مننور کاپو، یادو، مودی راج، دھوبی، نائی وغیرہ اڑتالیس فیصد، مسلم تیرہ فیصد، ریڈی چھ فیصد اور ویلما ایک فیصد، برہمن ایک عشاریہ چھ فیصد، بنیا دو فیصد، کما دو فیصد۔
ہر سیاسی جماعت کا کم و بیش یہی حال ہے کہ اعلیٰ ذاتوں کو ہی زیادہ اسمبلی حلقوں سے ٹکٹ دیا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی جو چھاپ ہے وہ بھی غور طلب ہے کہ کانگریس کو ریڈی طبقے کی پارٹی کہا جاتا ہے، بی آر ایس کو ویلما طبقے کی پارٹی اور بی جے پی کو بی سی طبقات کی پارٹی کہا جاتا ہے۔ ظاہر تو وہ غریب دوست پارٹی کے طور پر کرتی ہے لیکن درحقیقت وہ مال داروں کی پارٹی بنی ہوئی ہے۔ گو کہ ریاست میں مسلمانوں، دلتوں اور قبائلیوں کی آبادی تقریباً اکتالیس فیصد پائی جاتی ہے لیکن ان کا سیاسی وزن نہیں کے برابر ہے یا انتہائی کم ہے۔ اکثر سیاسی پارٹیاں انہیں ووٹ بینک سمجھتی ہیں اور انہیں اسی حیثیت میں رکھتی بھی ہیں۔ ووٹوں کے تخمینے بھی اسی حساب سے لگائے جاتے ہیں۔ ان کی سیاسی بے وزنی کی کیا وجوہات ہیں یہ الگ گفتگو کا موضوع ہے، لیکن سبھی سیاسی جماعتیں ان کو ووٹ بینک ہی سمجھتی ہیں۔
تلنگانہ میں برسر اقتدار پارٹی کا دعوی ہے کہ ریاست نے پچھلے دس سالوں میں جتنی ترقی کی منزلیں طے کی ہیں، اتنی پچھلے پچاس ساٹھ سالوں میں نہیں کی تھیں۔ ان کے مطابق ہر طرف خوش حالی کا دور دورہ ہے، بس کچھ کام باقی رہ گئے ہیں جو کرنے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ریاست نے چند میدانوں میں ترقی کی ہے، جیسے آب پاشی کے شعبے میں بہت کام ہوا ہے، چھوٹے سے چھوٹے قصبے میں زراعت کے لیے آب پاشی کے نظام کو وسعت دی گئی، بڑے بڑے ڈیم بنائے گئے جس کے نتیجے میں ریاست نے ملک بھر میں سب سے زیادہ دھان کی پیداوار کی ہے۔ اسی طرح پینے کا پانی دیہی علاقوں تک پہنچایا گیا، سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا، سڑکیں بہترین کردی گئیں، ذرائع حمل و نقل کا نظام ٹھیک کیا گیا۔ اس کے ساتھ چند فلاحی اسکیموں کو بھی متعارف کیا گیا جن میں سب سے مقبول فلاحی اسکیم ریتو بندھو اسکیم رہی جس کے تحت کسانوں کو ان کی زرعی زمین کی مناسبت سے راست رقم فراہم کی گئی یعنی ہر ایکڑ قطعہ زمین پر ایک مقررہ رقم کسانوں کے بینکوں میں جمع کی جاتی ہے تاکہ فصل بونے سے قبل ان کے کام آئے۔ گو کہ یہ رقم بہت تھوڑی ہوتی ہے لیکن پھر بھی کسانوں کے کچھ تو کام آجاتی ہے۔ فی ایکڑ پانچ ہزار روپے ایک سیزن کے لیے اس اسکیم کے تحت دیے جاتے ہیں اور تقریباً اٹھاون عشاریہ تینتیس لاکھ کسانوں میں مالی سال 2021-2022ء میں چودہ ہزار آٹھ سو کروڑ روپے تقسیم کیے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اسکیم کے استفادہ کنندہ گان میں زیادہ تر بڑے کسان ہیں جو اعلیٰ ذاتوں کے ہوتے ہیں۔
دوسری اسکیم دو کمروں کا مکان: یہ اسکیم بھی ان کے انتخابی منشور میں درج تھی، اس کے تحت تقریباً پانچ لاکھ بہتر ہزار دو کمروں کے مکانات کی تعمیر کا منصوبہ ہے جنہیں غریب عوام میں تقسیم کیا جائے گا۔ نشانہ تو 2018ء تک دو لاکھ بہتر ہزار مکانات کی تقسیم بھی تھا لیکن محض 9500 مکانات ہی تعمیر ہوئے، بعد میں اس میں مزید تین لاکھ کا اضافہ کیا گیا۔ اس اسکیم کا تخمینہ 2018ء میں بائیس ہزار کروڑ روپے لگایا گیا۔ لیکن وقت کے ساتھ اس کی لاگت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ غور کیجیے کہ یہ اسکیم بھی غریب عوام کے لیے ہی تھی۔
دلت بندھو: اس اسکیم کے تحت دلت طبقے کے غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے خاندان کو دس لاکھ روپے کی امداد سو فیصد رعایتی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ اس اسکیم کے لیے حکومت نے بارہ سو کروڑ روپے مختص کیے ہیں تاکہ وہ اپنی پسند کا کاروبار، صنعت یا کاشت کاری کرسکیں۔ حکومت یہ رقم راست ان کے کھاتوں میں منتقل کرتی ہے، یعنی یہ بینک کے قرض کی شکل میں نہیں ہوتا، بلکہ یہ سو فیصد رعایتی/ سبسیڈی ہوتی ہے۔ رقم کی تقسیم پر بھی کئی ایک سوالات اٹھائے گئے کہ رقم ایسے دلتوں کو دی جارہی ہے جو بی آر ایس کے کارکن ہیں یا ان کے تائیدی ہیں۔ بہر حال حکومت کی یہ اسکیم کافی مقبول رہی۔ اب تک اڑتیس ہزار تین سو بتیس دلتوں نے اس اسکیم کے تحت فائدہ اٹھایا۔ لازمی طور پر اس اسکیم کا بی آر ایس کو سیاسی فائدہ تو ملے گا ہی، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک فائدہ اٹھاتی ہے۔
شادی مبارک اسکیم کے تحت حکومت، دلہن کو شادی کے موقع پر ایک لاکھ ایک سو سولہ روپے دیتی ہے۔ اس کے لیے حکومت نے اس مالی سال میں اپنے بجٹ میں چار سو پچاس کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔ اسی طریقے سے دیگر غیر مسلم دلہنوں کے لیے بھی شادی کے موقع پر رقمی امداد کرتی ہے، البتہ ان کے لیے الگ سے بجٹ میں رقم مختص کی جاتی ہے۔ یہ اسکیم بھی غریب عوام کے لیے ہے۔
اسی طریقے سے پینشن اسکیم بھی ہے، یعنی غریب عمر رسیدہ افراد میں وظیفہ کی تقسیم۔ یہ بھی غریبوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ علاج کے لیے بھی آروگیہ شری اسکیم ہے، اس اسکیم کے تحت غریبوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ الغرض تقریباً وہ تمام اسکیمیں جو حکومت کی جانب سے شروع کی گئی ہیں وہ سب غریب عوام کے لیے ہیں۔ رہی امیروں و مال داروں کی بات تو انہیں کسی اسکیم کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، وہ اس درجے سے بہت آگے نکل چکے ہیں، انہیں مفت کا علاج یا رعایتوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تو اس لحاظ سے غریب عوام کے لیے حکومت سہارا بن جاتی ہے اور دوسری طرف امیر و دولت مند افراد کا ایک طبقہ ہے جن کے پاس اتنی دولت ہوتی ہے کہ انہیں کسی مالی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ باقی رہ جاتے ہیں متوسط طبقے کی عوام، تو انہیں حکومتی سطح پر ہمیشہ سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہوتا جو کسی بھی تبدیلی کے اثرات سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اگر ترکاری مہنگی ہوتی ہے تو سماج کا یہی طبقہ سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے، برقی بل مہنگا ہوتا ہے تو یہ طبقہ شدید نقصان اٹھانے والا ہوتا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی ان کے لیے کوئی اسکیم نہیں بنائی جاتی۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہی وہ طبقہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ ٹیکس بھرتا ہے۔ پکوان گیس کی قیمتوں کے بڑھنے سے اس کا کا ماہانہ بجٹ لڑکھڑا جاتا ہے۔
چندر شیکھر راو عرف کے سی آر ایسے منصوبوں کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں جن کا تخمینہ ہزاروں کروڑوں روپے کا ہے۔ سڑکوں کی تعمیر سے لے کر ڈیموں کی تعمیر تک، یہ سارے انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پروجیکٹس لاکھوں کروڑوں روپیوں کی لاگت کے ہوتے ہیں۔ حکومت نے ان پروجیکٹس کی تکمیل کے لیے اپنی استطاعت سے زیادہ قرض لیا ہے، لازمی بات ہے کہ حکومت کا قرض عوام کا قرض ہی ہوتا ہے، اس کا بوجھ عوام پر ہی پڑتا ہے۔ اسی لیے آپ دیکھ سکتے ہیں یہاں کی حکومت نے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں کی، جبکہ دیگر ریاستوں نے دس روپے کی کمی ہے۔ اگرچیکہ برقی سربراہی چوبیس گھنٹے ہورہی ہے لیکن اس کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں، جس کا راست اثر متوسط درجے کے شہریوں پر پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف کسانوں کو مفت برقی سربراہی کی جارہی ہے، جس کا کسان بے جا استعمال کر رہے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب کسانوں کو مفت برقی مل رہی ہے اور فی ایکڑ پر پانچ ہزار روپے مل رہے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ چھوٹے اور متوسط درجے کے کسان معاشی پریشانی میں مبتلا ہیں؟ کیوں ان کی زرعی پیداوار پر مناسب دام نہیں ملتے؟ کیوں کاشت کاری کے لیے ضروری دوائیں یعنی ڈی اے پی، یوریا وغیرہ اتنے مہنگے ہوگئے ہیں؟ کیوں اس پر رعایت نہیں دی جاتی؟ جب دھان کی پیداوار زیادہ ہو رہی ہے تو کیوں کر چاول کی قیمتیں کم نہیں ہو رہی ہیں؟ متوسط درجے کے گھرانوں میں جو چاول استعمال ہوتا ہے آج اس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں، کیوں اس کو قابو میں نہیں کیا جا رہا ہے؟
ماحول بنایا جا رہا ہے کہ ریاست نے خوب ترقی کی ہے، کیا کسی نے حکومت سے یہ سوال کیا کہ قصبوں، دیہاتوں میں سرکاری اسکولوں کی کیا صورت حال ہے؟ سرکاری طبی خانوں کی کیا صورت حال ہے؟ پرائمری ہیلتھ سنٹروں میں ڈاکٹرس کیوں نہیں ہیں؟ سرکاری اسکولوں کے معیار کو اونچا اٹھانے کے بجائے انہیں کیوں کر بند کیا جا رہا ہے؟ یہ بڑے اہم سوال ہیں۔ ان سوالات کے جوابات حکومت کو دینے چاہئیں۔
متوسط درجے کے گھرانے بے حال ہیں، ان کا ماہانہ بجٹ بگڑ گیا ہے، مہنگائی کی مار راست ان پر پڑ رہی ہے، بچوں کی تعلیم مہنگی، علاج مہنگا، اشیائے ضروریہ مہنگی، روزگار ندارد۔ بے چارے آخر جائیں تو کہاں جائیں؟ انتخابات قریب ہیں، لہٰذا سوچ سمجھ کر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں، جذبات کی رو میں نہ بہہ جائیں، ہوش مندی سے اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔
***

 

***

 ماحول بنایا جا رہا ہے کہ ریاست نے خوب ترقی کی ہے، کیا کسی نے حکومت سے یہ سوال کیا کہ قصبوں، دیہاتوں میں سرکاری اسکولوں کی کیا صورت حال ہے؟ سرکاری طبی خانوں کی کیا صورت حال ہے؟ پرائمری ہیلتھ سنٹروں میں ڈاکٹرس کیوں نہیں ہیں؟ سرکاری اسکولوں کے معیار کو اونچا اٹھانے کے بجائے انہیں کیوں کر بند کیا جا رہا ہے؟ یہ بڑے اہم سوال ہیں۔ ان سوالات کے جوابات حکومت کو دینے چاہئیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023