امریکہ میں دعوت کے متعدد مواقع دستیاب، محنت کی ضرورت

لادینیت اور الحاد کے فتنے پر قابو پانا وقت کی ایک اہم ضرورت

علی گڑھ (دعوت نیوز نیٹ ورک)

ادار تحقیق میں توسیعی خطبہ ’’مغرب میں اسلام : چیلنجز اور امکانات‘‘ کا انعقاد
’’پروفیسر عفان بدر نے ۱۹۸۸ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی پھر اسی subject میں King Fahd University of Petroleum and Minerals سے ماسٹر کیا۔ اس کے بعد انہوں نے University of Oklahoma سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کا تعلق مختلف علمی اور تحقیقی اداروں سے رہا ہے اور اس وقت وہ امریکہ کے Bailey College of Engineering and Technology میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ادارۂ تحقیق سے آپ کا دلی لگاؤ رہا ہے۔ ان کی آمد پر ادارہ کی انتظامیہ نے ان کے استقبال اور اعزاز کے لیے اس پروگرام کا انعقاد کیا ہے” ان تعارفی کلمات کا اظہار انجینئر نسیم احمد خاں نے کیا۔
دراصل پچھلے دنوں ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ میں توسیعی خطبہ بعنوان ’’مغرب میں اسلام: چیلنجز اور امکانات‘‘ پروفیسر عفان بدر (بیلی کالج آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، انڈیانا،امریکہ) نے پیش کیا۔ پروفیسر عفان بدر نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ذمہ داروں ادارہ کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ سروے کے مطابق امریکہ میں ان لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو کسی مذہب کے فالوور نہیں ہیں، وہ Atheist ہیں اور نہ ہی مذہبی ہیں۔ ان کے نزدیک اگر کوئی ہستی ایسی ہے جو Unknown ہے تو اس کا ماننا اور نہ ماننا دونوں برابر ہے۔ ان کی تعداد ۲۹ فیصدہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی بیشتر آبادی وہ ہے جو کسی نہ کسی مذہب میں یقین رکھتی ہے اور اس میں مختلف مذاہب کے لوگ شامل ہیں اور مسلمانوں کی تعداد جدید سروے کے مطابق نو فیصد بتائی جا رہی ہے اور الحمدللہ یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
امریکی مسلمانوں میں ان لوگوں کی تعداد مختصر ہے جو دینی احکام کے تئیں سنجیدہ ہیں، وہ لوگ نماز اور روزے اور دیگر عبادات کا خاص خیال رکھتے ہیں، ان کے دل میں بھی اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لیے جذبہ خیر پایا جاتا ہے۔ غزہ میں معصوم لوگوں کو جس طرح بے رحمی سے ہلاک کیا جا رہا ہے اس میں وہ بھی رنجیدہ خاطر ہیں اور اس کے خلاف آواز بھی اٹھانا چاہتے ہیں لیکن کچھ قانونی اصول و ضوابط اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے ان کی زبانیں بند ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو امریکہ کی تیس فیصد آبادی ایسی ہے جو سوچتی ہے کہ فلسطین کے مسلمانوں کا استحصال کیا جا رہا ہے اور ان کو ناحق ہلاک کیا جا رہا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے یہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن وہ اسرائیل کے خلاف واضح طور پر نہیں بول سکتے کیونکہ وہ خود کے اوپر کوئی مصیبت اور پریشانی آنے سے خوف کھاتے ہیں۔ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد جو بڑھ رہی ہے وہ دراصل اسلام کی خاصیت ہے کہ وہ دوسروں تک منتقل ہوتا رہتا ہے اور اپنی خوبیوں کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف رغبت دلاتا ہے۔ اسلام کے اثرات امریکہ کے لوگوں پر تیزی سے ہو رہے ہیں، خاص بات یہ ہے کہ وہاں صرف اسلام ہے اور مسلمان امریکن مسلم کہلاتے ہیں، کوئی مسلکیت اور کوئی فرقہ واریت کا رواج نہ شروع میں تھا نہ آج ہے۔ آپ یہ نہیں پائیں گے کہ وہاں کوئی حنفی کوئی شافعی یا کوئی حنبلی ہے، کیونکہ ان کے لیے کسی ایک مسلک کو فالو کرنا دشوار ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ عام مسلمان کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ بعض جگہوں پر تراویح کی نماز بیس رکعت ہوتی ہے تو کہیں آٹھ رکعت بھی ہوتی ہے اور مسالک کے اختلاف کے بغیر تمام لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ لہٰذا اسلام کے تقاضے بھی یہی ہیں کہ ہم احکامات کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں، صحیح اور درست بات کو قبول کریں اور منکرات سے اجتناب کریں۔
اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا جن کے پروفیسر عفان بدر نے تشفی بخش جوابات دیے جن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ امریکہ میں اگر نو فیصد لوگ مسلمان ہیں تو ان میں کتنے لوگ اسلامی احکام کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد کتنی ہے جو صرف نام کے مسلمان ہیں؟
پروفیسرعفان بدر نے جواب میں کہا کہ تعداد کا تعین کرنا تو میرے لیے مشکل ہے البتہ یہ کہ جو لوگ دینی احکام پر توجہ نہیں دیتے ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے اور جو اسلامی احکام کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں ان کی تعداد کم ہے، لیکن ان کی تعداد میں رفتہ رفتہ اضافہ ہو رہا ہے، 2020 کے سروے کے مطابق امریکہ میں مساجد کی تعداد 2769 ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں میں دینی فرائض کو ادا کرنے کا بھی احساس ہے۔
پروفیسر محمد مقیم نے مہمان مقرر کی گفتگو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عفان بدر صاحب نے موضوع کی مناسبت سے نہایت مفید گفتگو کی ہے۔ میں نے بھی ایک عرصہ امریکہ میں گزارا ہے۔ جب ہم امریکن سوسائٹی کے لوگوں سے ملتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اچھے ایمان دار لوگوں سے مل رہے ہیں، ان سے مل کر خوشی ہوتی ہے اور جب انڈیا میں لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو ڈر لگتا ہے کہ وہ ہمیں دھوکہ نہ دیں اور ہمارے ساتھ بے ایمانی نہ کر دیں۔ دوسری چیز جو میں نے محسوس کی وہ یہ ہے کہ ہندوستان سے یا دیگر ملکوں سے جو لوگ امریکہ جاتے ہیں وہ اکثر سائنس یا میڈیکل سائنس اور انجینئرنگ کے میدان میں جاتے ہیں، یہ بہت کم دیکھا جاتا ہے کہ وہ سوشل سائنس کے میدان میں قدم رکھتے ہوں، جب کہ مسلمان سوشل سائنس میں بہت کمزور ہیں۔ ایک سوسائٹی کو کیسے present کیا جائے اور اس کیسے کو بہتر طریقے سے organize کیا جائے وہی لوگ بہ خوبی جانتے ہیں جن کی سوشل سائنس میں ٹریننگ ہوتی ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ امریکہ میں بھی اس فیلڈ میں کام کیا جائے اور اسلام کو نئے نظریہ کے ساتھ پیش کیا جائے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ جس سوسائٹی کے اندر fairness ہوتی ہے وہ ترقی کرتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔ امریکہ میں غیر مسلموں کو مساجد میں دعوت دے کر ان کو سمجھایا جاتا ہے اور ان کے شکوک و شبہات کو دور کیا جاتا ہے، یہ ایک اچھی کوشش ہے جو کہ انڈیا کی مساجد میں بھی ہونی چاہیے۔
پروگرام کے آخر میں صدر مجلس پروفیسر محمد ادریس کا صدارتی خطاب ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ پروفیسر عفان بدر نے بہت مفصل گفتگو کی اور ڈاکٹر محمد مقیم صاحب نے اچھی اور قیمتی باتیں پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بھی روزانہ امریکہ کے تعلق سے ڈیٹا جمع کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ میں اسلام کی تبلیغ کے امکانات بہت ہیں۔ امریکی مسلمانوں میں خلوص اس قدر ہوتا ہے کہ وہ معمولی لوگوں سے بھی ملتے ہیں تو بڑے خلوص اور خاکساری سے ملتے ہیں، جب کہ وہ ایک ڈاکٹر اور پروفیسر ہوتے ہیں اور وہ اپنا تعارف اپنی صلاحیت سے نہیں بلکہ مسلم ہونے کی حیثیت سے کراتے ہیں۔ انہوں نے امکانات کے تعلق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم جہاں جائیں وہاں کے لوگوں سے ان کی زبانوں میں گفتگو کریں تو یہ زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کو اس بات پر خوشی ہوتی ہے اور وہ اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔اسی لیے میں جہاں گیا وہاں کی زبان پہلے سیکھی۔ لوگوں سے ان کی زبان میں بات کی جائے اور ان سے دلچسپی لی جائے تو یہ ساری چیزیں اسلام کی اشاعت میں امکانات کو بڑھاتی ہیں۔
پروگرام کے اختتام پر سکریٹری ادارہ مولانا اشہد جمال ندوی نے کلماتِ تشکر پیش کیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024