
کابل: (دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)
افغانستان میں مختلف ممالک کے سیاحوں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کے مسلسل واقعات نے بین الاقوامی خفیہ ایجنسیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ بڑے ممالک کی ایجنسیاں اس بات کا جائزہ لے رہی ہیں کہ آیا یہ واقعات کسی بڑی عالمی سازش کا حصہ تو نہیں؟
خفیہ ایجنسیوں کے مطابق حالیہ دنوں میں آئرلینڈ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں نے افغانستان میں اسلام قبول کیا ہے۔ ایک آئرش سیاح نے صوبہ غور کے درہ تخت گاؤں میں طالبان انتظامیہ کے زیرِ نگرانی مقامی بزرگوں کی موجودگی میں اسلام قبول کیا اور اس کا نیا نام ’’عبداللہ‘‘ رکھا گیا۔ اسی طرح کابل میں ایک جاپانی سیاح نے بھی اسلام قبول کیا جس پر مقامی افراد نے خصوصی دعوت کا اہتمام کیا۔
خفیہ ایجنسیوں کے ایک سینئر اہلکار نے انکشاف کیا کہ چین اپنے شہریوں کو اسلام قبول کروانے اور افغانستان کی شہریت دلوانے کے لیے ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ لیکن دیگر ممالک کے سیاحوں کے اسلام قبول کرنے کی وجوہات ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، افغانستان آنے والے ہر سیاح کو مقامی حکام اور لوگوں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
خفیہ ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ اس مذہب تبدیلی کے پیچھے کوئی بڑی سازش کارفرما ہو سکتی ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ یہ نو مسلم افراد واپس اپنے ممالک جا کر دہشت گردی یا تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے ان ممالک کی سیکیورٹی ایجنسیاں ان افراد پر کڑی نظر رکھیں گی اور ان سے مکمل تفتیش کی جائے گی کہ انہوں نے کس ماحول اور کن حالات میں اسلام قبول کیا تھا۔
خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب افغانستان سے غیر ملکیوں کے اسلام قبول کرنے کی خبریں سامنے آئیں۔ ماضی میں برطانیہ کی معروف صحافی ایون ریڈلی بھی اسی سرزمین پر اہلِ اسلام کے کردار سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئی تھیں۔یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا ان واقعات کو محض سازش کے پہلو سے دیکھنا درست ہے؟ یا پھر اسے اسلام کی حقانیت اور اس کے پیغام کی مقناطیسی کشش کے تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے؟یہ خبر ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب طالبان حکومت عالمی سطح پر اپنی تنہائی کو کم کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ کئی ممالک افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔ ترکی، چین، ایران اور بھارت سمیت متعدد ممالک طالبان کے ساتھ روابط بڑھا رہے ہیں۔حال ہی میں ترکی نے افغانستان کے سابق مغربی حمایت یافتہ حکومت کے سفیروں کو واپس بھیج کر طالبان کو اپنے سفارتی عملے کو متعین کرنے کا موقع فراہم کیا۔ طالبان نے تین سال کے اقتدار کے بعد افغانستان کے بیرونی سفارتی مشنز پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے، اور ترکی میں اپنے سفارت کاروں کی تقرری سے یہ تعداد چالیس سے زائد ہو چکی ہے۔چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی طالبان کے نامزد افغان سفیر مولوی اسداللہ بلال کریمی کے سفارتی اسناد قبول کیں، حالانکہ بیجنگ نے باضابطہ طور پر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے۔ ایران اور بھارت بھی طالبان کے ساتھ رابطے بڑھانے کی کوششوں میں شامل ہیں۔انٹر نیشنل کرائسز گروپ کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان کے ہمسایہ ممالک طالبان کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کے حق میں ہیں۔ آنے والے مہینوں میں توقع کی جا رہی ہے کہ مزید ممالک طالبان کے سفیروں کو تسلیم کریں گے اور ان کے ساتھ تجارت اور اقتصادی تعاون میں اضافہ کریں گے۔یہ صورت حال عالمی خفیہ ایجنسیوں کے خدشات کو مزید تقویت دیتی ہے۔ ایک طرف طالبان حکومت بین الاقوامی تنہائی سے باہر نکل رہی ہے، تو دوسری جانب غیر ملکیوں کے اسلام قبول کرنے کے ان واقعات کو کہیں اس بدلتے سفارتی ماحول سے جوڑنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔آخر کار، سوال یہ بنتا ہے کہ آیا ان مذہب تبدیلیوں کے پیچھے واقعی کوئی سازش ہے یا پھر اسلام کی حقانیت اور اس کا پیغام اپنے اندر وہ کشش رکھتا ہے جو دنیا بھر کے مختلف طبقات اور قومیتوں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے؟عالمی میڈیا اور خفیہ ایجنسیاں سازش کے پہلو کو تو خوب اچھال رہی ہیں، لیکن شاید انہیں اسلام کے پیغام کی حقیقی طاقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جو اپنے کردار اور اخلاقی قوت سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025