افسانہ

یودّھا

فرحت الفیہ جالنہ، مہاراشٹر

پہاڑی وادیوں میں بسے اس چھوٹے سے خوبصورت گاؤں میں گرجا گھر کے ٹھیک پہلو میں وہ سبز میدان میں بیٹھا تھا، ساتھ میں گاؤں کے کچھ لوگ بھی تھے۔ اپریل کے اواخر کی سہانی صبح سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ اپنے ساتھیوں کو اپنی بہادری کے قصے بڑی شان سے سنا رہا تھا۔ ادھیڑ عمر کا چینی نقش ونقوش والا وہ شخص کارگل جنگ میں اپنی خدمات کا ڈھنڈورا ہمیشہ ایسا ہی پیٹا کرتا تھا اور بڑے فخر سے گاؤں والوں کو کارگل جنگ اور اپنی دیش بھکتی کی روداد سنایا کرتا تھا۔ بوڑھے بچے سبھی اسے گاؤں میں ’’کارگل یودّھا‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔
کچھ منچلے نوجوان اس کی دیش بھکتی کی تعریف کرتے اور درمیان میں چٹکیاں لیتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے اکثر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ مگر ان سب سے بے نیاز ہو کر وہ اپنی بات جاری رکھتا تھا۔ آج بھی وہ شخص معمول کے مطابق بیٹھا اپنی اور اپنے دوسرے سپاہیوں کی داستانِ سرفروشی سنا رہا تھا کہ یکایک باتوں کا رخ حال ہی میں ہونے والے کورٹ کے نئے فیصلےکی طرف مڑ گیا تھا۔
ایک دیدہ ور بزرگ نے باتوں کے رخ کو بدلتے ہوئے کہا ’’سرکار ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں کر رہی ہے۔ اب تک سب ٹھیک چل رہا تھا، یہ سرکار جب سے آئی ہے ناں! ہر روزنئی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے‘‘
منچلے لڑکوں نے آپس میں ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔
’’آپ تو ’کارگل یودھا‘ ہو، آپ کیوں بات نہیں کرتے سرکار سے؟‘‘
’’ہاں! بالکل سچ کہہ رہے ہو تم ۔۔۔‘‘
دوسرے نے مسخرے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ۔
وہ مسلسل تیر نشانے پر لگانے کی کوشش کر رہے تھے ۔
’’ہمیں گاؤں کی رکھشا کا بندوبست کرنا چاہیے۔ یہ گاؤں ہمارے پرُکھوں کا ہے ہم اس پر کسی کا قبضہ نہیں ہونے دیں گے‘‘ بزرگ نے دوبارہ اپنی فکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ۔
’’نہیں کاکا فکر نہ کرو مجھے سرکار پر پورا بھروسہ ہے، آپ یونہی سرکار کو دوش دے رہے ہو۔ ہماری سرکار ہمارے دیش کا وکاس چاہتی ہے‘‘۔
’’کارگل یودھا‘‘ پورے وثوق سے کہہ رہا تھا ’’اول تو ایسا کچھ ہوگا نہیں، اور اگر ایسا ہو بھی گیا تو میں نے کارگل کے موقع سے دیش کی رکھشا کی ہے، گاؤں کی رکشا کرنا بھی مجھے آتا ہے۔‘‘ وہ ایک بار پھر مطمئن نظر آ رہا تھا۔ اسے موجودہ سرکار پر پورا بھروسہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ دیش کے اس وفادار سپاہی کے گاؤں پر سرکار آنچ بھی نہیں آنے دے گی۔ کچھ دیر بعد سب لوگ خاموش ہو گئے ۔۔۔ باتوں کا رخ مزید تبدیل ہو گیا تھا۔ منچلے لڑکوں نے اپنا رخ ان سب سے ہٹا کر سیاحوں کی طرف کر لیا تھا جو پہاڑیوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں فطرت کے نظاروں کو اپنے موبائل کے کیمروں میں مقید کرنے میں کوشاں تھے۔سیاح کبھی گرجا گھر کی مختلف زاویوں سے تصویریں کھینچتے تو کبھی تالاب اور جھرنوں کی تو کبھی گاؤں میں بسنے والے مقامی افراد کی۔ لڑکیاں اپنی روایتی ناچ دکھا کر سیاحوں کا دل بہلا رہی تھیں۔ سیاح بڑے شوق سے ان دوشیزاؤں کے ویڈیوز بنانے میں مشغول تھے۔ کاشت کاری اور گھریلو صنعت کاری پر پوری طرح انحصار کرنے والا یہ خوبصورت گاؤں اور چینی نقوش سے قریب تر مشابہت رکھنے والے یہاں کے سادہ دل لوگ۔۔سیاحوں کو خوب بھاتے تھے۔
آج گاؤں میں ہر طرف افراتفری کا ماحول تھا۔ لوگ بدحواس ہو کر ادھر اُدھر پناہ لے رہے تھے۔ مویشی بھی جان بچا کر بھاگ رہے تھے۔ پورا گاؤں آگ کی لپیٹ میں آچکا تھا ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ سرکار کے حمایت یافتہ فسادیوں نے گاؤں کے باشندوں کا گھیراؤ کر لیا تھا، جلاّدوں کا ایک ہجوم تھا جو نہتے لوگوں کو ہتھیاروں سے بے تحاشا مارے جا رہا تھا۔ انسان نما درندے جانوروں کو بھی اپنی گولیوں کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ’’سب جنگل کی طرف چلو بھاگو!! ۔۔۔‘‘ہر کوئی اپنے خاندان والوں کو جنگل کی طرف دوڑنے کی ہدایت دے رہا تھا، سب لوگ دہشت اور خوف کے عالم میں جنگل کی طرف بھاگ رہے تھے،’’یہاں رک جاؤ ۔۔۔!!سب چھپ جاؤ ۔۔!!یہ گھنے درختوں میں۔
وہ ۔۔۔وہ۔۔۔یہاں بھی آرہے ہیں۔۔بھاگو۔۔۔!‘‘
الفاظ تھے کہ گلے میں گھٹنے لگے تھے، سانسیں اکھڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ عورتیں، بچے نوجوان بوڑھے سب درختوں سے گھری چھوٹی بڑی گھاٹیوں کی طرف بھاگے جارہے تھے۔ میدانِ حشر کا سا سماں تھا، ہر ایک اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ گھاٹیاں بہت پر خطر تھیں۔ اگر وہ چند گنے چنے لوگ فسادیوں سے زندہ بچ بھی جاتے تو گھنی جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی گھاٹی میں گرنا ان کا مقدر تھا۔ گنتی کے چند نفوس جو بڑی مشکل سے بچتے بچاتے ہوئے گاؤں سے ادھر جنگل کی طرف آئے تھے بے تحاشا بھاگے جارہے تھے، فسادیوں کے شور پکار کی آوازیں مسلسل قریب ہوتے ہوئے سنائی دے رہی تھیں۔
وہ بھی اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچاتا، ہانپتا کانپتا محفوظ جگہ کی تلاش میں دوڑ رہا تھا۔۔۔۔ہاں!یہ وہی’کارگل یودھا‘ تھا، جس نے دیش کی رکھشا کی تھی۔ جسے اپنی سرکار پر پورا بھروسہ تھا، اسے روزِ روشن کی طرح یقین تھا کہ سرکار اپنے سپاہی کے گھر والوں کی رکھشا کرے گی۔ اس کے گاؤں کی رکھشا کرے گی ۔۔۔مگر آج اس کا بھرم ٹوٹ چکا تھا۔ ملک کی سرحدوں پر موسموں کی مار جھیل کر دیش باسیوں کی حفاظت کرنے والا وہ سپاہی آج اپنے بیوی اور بچوں کو بچانے کی نا کام کوشش کر رہا تھا کہ وہ کسی طرح فسادیوں کا نشانہ بننے سے بچ جائیں۔۔
سہمی ہوئی نوجوان لڑکیاں، عورتیں اور بچے، ہر کوئی چاہتا تھا کہ وہ زمین کو پھاڑ کر اس کی مضبوط پناہ گاہ میں امان تلاش کرے، تاکہ انسان نما درندے انہیں ڈھونڈ نہ سکیں۔ جنونی فسادیوں کا ہجوم بالآخر ان تک پہنچ ہی چکا تھا۔ انہوں نے ان مٹھی بھر نفوس کا جو اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے، گھیراؤ کر لیا تھا۔۔ فسادیوں کا ہجوم مظلوموں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ تھا،۔۔خود حفاظتی کی تمام تدابیر اس جنونی بھیڑ کے آگے لاحاصل تھیں۔ فسادی انہیں کچی سڑکوں کی طرف گھسیٹتے ہوئے لیے جا رہے تھے۔ یہ کچی سڑکیں جو شہر کے ہائی وے سے جا کر ملتی تھیں۔۔ سب یرغمال بنائے جاچکے تھے۔۔
’’کارگل یودھا‘‘ کسی طرح اپنے آپ کو ان فسادیوں کے چنگل سے بچانے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ اس جنونی بھیڑ کی نظروں سے بچ بچا کر تھوڑی ہی دوری پر جھاڑیوں میں چھپ گیا تھا جہاں سے وہ بے یار و مددگار اپنے پورے خاندان والوں کو فسادیوں کے ظلم کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
وہ دیکھ رہا تھا کہ کچی سڑک پر پہنچ کر فسادیوں نے نفرت کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے عورتوں کے جسم سے کپڑے نوچ لیے تھے اور ان مجبور و بے بس عورتوں کو برہنہ پریڈ کرواتے ہوئے فتح کا جشن منارہے تھے۔۔
ایک نو عمر لڑکی کے ساتھ وہ درندے زیادتی کر رہے تھے۔
وہ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
نو عمر لڑکی کے بھائی اور باپ فسادیوں کو روکنے کی کوشش میں مارے جا چکے تھے ۔
’کارگل یودھا‘ بے حس وحرکت دیکھ رہا تھا کہ جن عورتوں کو برہنہ کردیا گیا ہے ان عورتوں میں اس کی بیوی بھی تھی۔
وہ اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو ان ظالموں کے سامنے بے عزت ہوتا دیکھ رہا تھا۔
وہ دیکھ رہا تھا۔۔۔کہ
کچی سڑک پر پولیس کی گاڑی کے عین قریب کچھ پولیس اہلکار کھڑے ہوئے تھے، جو سارا نظارہ بچشم خود دیکھ رہے تھے۔۔ مظلوم عورتیں پولیس اہلکاروں سے مدد کی بھیک مانگ رہی تھیں، مگر پولیس اہلکار بھی شاید ان فسادیوں کے خوف سے لرزاں تھے یا شامل فساد تھے۔
وہ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ہاں! وہ لرزا دینے والا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا،
دیش کی رکھشا کرنے والا وہ سپاہی جس نے کبھی بزعم خود سرحدوں پر دشمنوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ وہ ’یودھا‘ اپنی بیوی کی عصمت کو تار تار ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔۔
اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے۔۔!!!
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 ستمبر تا 16 ستمبر 2023