اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پسماندہ طبقے کے طلبہ کی خود کشی کے اعداد و شمار میں تشویشناک اضافہ  

 سن 2014 اور 2021 کے درمیان مرکزی فنڈ سے چلنے والے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کل 122 طلباء نے خودکشی کی۔ ان میں سے 24 طلباء درج فہرست ذات کے تھے۔ 3 طلباء کا تعلق شیڈولڈ ٹرائب سے تھا۔ 41 طلبہ کا تعلق او بی سی سے تھا۔

نئی دہلی،28جولائی :۔

حال ہی میں آئی آئی ٹی حیدرآباد کے ایک طالب علم نے بیک لاگ امتحان پاس نہ کر پانے کی وجہ سے سمندر میں کود کر خودکشی کر لی۔ طالب علم 17 جولائی سے لاپتہ تھا۔19 جولائی کو سی سی ٹی وی فوٹیج میں اسے سمندر کے خطرناک کنارے پر دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد 20 جولائی کو اس کی لاش ملی جس کی شناخت کر لی گئی۔

خودکشی کرنے والا طالب علم دھنوت کارتک نلگنڈہ کا رہنے والا تھا۔ وہ پڑھائی میں فیل ہو  گیا تھا۔ اس نے اپنے گھر والوں سے بھی اس بارے میں بات کی۔ دھنوت کا قبائلی برادری سے تعلق تھا۔ دھنوت کی کہانی بہت سے بچوں سے ملتی جلتی ہے جو قبائلی یا درج فہرست ذات کے پس منظر سے آتے ہیں۔ ریزرویشن کی مدد سے وہ آئی آئی ایم ،آئی آئی ٹی جیسے اداروں تک پہنچتے ہیں۔ انہیں ریزرویشن کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کے غلط رویے کا بھی سامنا ہے۔ جب وہ سب کچھ برداشت نہیں کر پاتے تو وہ یا تو انسٹی ٹیوٹ چھوڑ دیتے ہیں یا پھر دنیا چھوڑ دیتے ہیں۔

دسمبر 2021 میں، وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 2014 سے 2021 کے درمیان، مرکز کی مالی مدد سے  چلنے والے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں کل 122 طلباء نے خودکشی کی۔ ان میں سے 24 طلباء درج فہرست ذات کے تھے۔ 3 طلباء کا تعلق شیڈولڈ ٹرائب سے تھا۔ 41 طلبہ کا تعلق او بی سی سے تھا۔ مجموعی طور پر 122 میں سے 68 طلباء مخصوص زمرے سے تھے۔

اسی سال آئی آئی ٹی کے طالب علم درشن سولنکی کی موت کے بعد بھی یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ ان بڑے تعلیمی اداروں میں سماج کے پسماندہ طبقوں سے آنے والے طلبہ کو کس چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ ریزرو کیٹیگری سے آنے والے طلبہ کو کسی مشکل سے بچانے کے لیے ان اداروں کے اندر کیا انتظامات ہیں؟

کیا اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ماحول میسر نہیں؟

یہ ایک عام شکایت ہے کہ ان طلباء کو وہ ماحول نہیں ملتا جو انہیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ملنا چاہیے۔ اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ بہت سے بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ وزیر مملکت برائے تعلیم سبھاش چندر نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، دیگر پسماندہ طبقات اور دیگر اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے کل 25 ہزار 593 طلباء نے مرکزی یونیورسٹیوں اور آئی آئی ٹی سے اپنی تعلیم چھوڑ دی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق مرکزی یونیورسٹیوں کے 17 ہزار 545 طلباء نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی۔ آئی آئی ٹی سے 8 ہزار 139 ریزرو طلباء نکلے۔ سنٹرل یونیورسٹیوں سے پاس آؤٹ ہونے والے مخصوص زمرے کے طلباء کی تعداد 2019 میں 4926، 2020 میں 5410، 2021 میں 4156، 2022 میں 2962 تھی۔ 2023 میں کوئی ڈراپ آؤٹ ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

آئی آئی ٹی چھوڑنے کے اعدادوشمار

جبکہ 2019 میں آئی آئی ٹیز  میں ریزرو کیٹیگری کے طلباء کی ڈراپ آؤٹ تعداد 1510 تھی۔ 2020 میں یہ بڑھ کر 2152 اور 2021 میں بڑھ کر 2411 ہو گئی۔ ڈراپ آؤٹ کی تعداد 2022 میں کم ہو کر 1746 اور آخر کار 2023 میں 320 رہ گئی۔ اس کی وجوہات پر مسلسل بحث ہوتی رہتی ہے لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آتا۔